کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ

جماعت احمدیہ کے خلاف عام طور پر مخالفین احمدیت کی طرف سے ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، مگر برا ہو تاریخ کا،کہ یہ کچھ اور ہی بیان کرتی ہے۔تاریخ نے ہمیشہ جماعت احمدیہ کو مسلمانوں کا سب سے بڑا خیرخواہ ثابت کیا ہے۔قیام پاکستان کے حوالے سے کوششیں ہوں یا قائداعظم کو واپس پاکستان لانے کا کارنامہ،کشمیر کمیٹی ہو یا تحریک خلافت کے ہنگام مسلمانوں کو خبردار کرنے کی مہم،جماعت احمدیہ کو تاریخ ہمیشہ مسلمانوں کا خیر خواہ اور وفادار ثابت کرتی ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے پہلے سربراہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ دوئم صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب تھے۔1931ء میں مسلمانانِ کشمیر کی حمایت اور ڈوگرہ مہاراج سے ان کے حقوق دلوانے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی ۔صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ملی خدمات اور سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر اس کمیٹی کی صدارت کےلئے علامہ اقبال نے آپ کا نام پیش کیا ۔ آپ کی راہنمائی میں کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ نے کشمیر کے مسلمانوں کی ناقابل فراموش اور تاریخ ساز خدمات انجام دیں۔
اس کمیٹی نے اپنے قیام سے اگلے دن ہی کام شروع کردیا۔سب سے پہلے ’’پبلسٹی کمیٹی‘‘ بنائی گئی جس کا مقصد کشمیریوں کے مسائل کو پریس کے ذریعہ اجاگر کرنا اور سول سوسائٹی کی توجہ کو اس طرف پھیرنا تھا۔جماعت احمدیہ کے پریس نے اس درجہ اس معاملہ کو نمایاں کیا کہ جماعت احمدیہ کے شدید مخالف مولانا ظفر علی خان نے جماعت احمدیہ کے اخبار ’’الفضل‘‘ کے حوالے سے لکھا کہ شیخ محمد عبداللہ صاحب تو الفضل کے اداریوں سے شیر کشمیر بن گئے ہیں۔دیگر اسلامی اخبارات نے بھی اس کمیٹی کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔نہ صرف اجلاسات کی کاروائی شائع کرتے رہے بلکہ اس تحریک کے حق میں آواز بھی بلند کرتے رہے۔
اس کمیٹی نے دیگر مختلف کام کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو اس کام کے لئے خود کو وقف کرنے کی تحریک دی تاکہ انہیں کشمیر میں بھیجا جاسکے اور مختلف کام ان کے ذمہ کئے جا سکیں۔اخبار ’’انقلاب‘‘ نے ان نوجوانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’کشمیر کمیٹی کے اگرچہ۔۔۔وہاں پہلے ہی متعدد ارکان مصروف کار تھے،لیکن ان کی امداد اور مسلم نمائندوں سے مشاورت کرنے کی غرض سے پنجاب کے بعض مقتدر اور تجربہ کار حضرات بھیجے گئے جنہوں نے اندرون کشمیر کے منظم کرنے میں نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں۔ہم آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے محترم عہدیداروں اور کارکنوں کے شکر گزار ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اس شکر گزاری میں مسلمانان کشمیر ہم سے کاملاً ہم آہنگ ہیں کہ کمیٹی کے کارکنوں نے نہایت بے نفسی اور انتہائی فراست سے ان کاموں کو نبھاہا ہے۔‘‘
شروع ہی میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے احمدیوں کو تلقین کی کہ ہر احمدی ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے کشمیر کے مظلومین کےلئے ادا کرے۔ایک لمبے عرصے تک جماعت کے لوگ یہ چندہ ادا کرتے رہے۔یاد رہے کہ غیر احمدی مسلمانان کے چندے مسلم بنک لاہور میں جمع ہوتے تھے،صرف احمدیوں کا چندہ دفتر وصول کرتا تھا اور اس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا تھا۔ان عطایا سے کشمیری لیڈروں کی مدد،مسلمان طلبہ کو وظائف وغیرہ دیئے جاتے تھے۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا جب قیام عمل میں آیا تو ریاست کے مشہور مسلم لیڈر نظر بند تھے۔ اس لئے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے صدارت قبول فرمانے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانان ریاست کی تنظیم کی طرف فوری توجہ مبذول فرمائی۔ آپ نے واضح لفظوں میں اعلان بھی کر دیاکہ کشمیر کو آزادی صرف اہالیان کشمیر کی کوشش سے مل سکتی ہے باہر کے لوگ صرف دو طرح ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ ۱)روپیہ سے ۲ ( حکومت برطانیہ اور دوسری مہذب اقوام میں اہالیان کشمیر کی تائید میں جذبات پیدا کرکے۔ پس ایک طرف تو اہل کشمیر کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے کہ باہر کے لوگ آکر ان کی کوئی جسمانی مدد کر سکتے ہیں ان کی مدد اول بے اثر ہو گی دوسرے اس کا آزادی کی کوشش پر الٹا اثر پڑے گا۔جاننے والے جانتے ہیں کہ بعد میں کشمیریوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا اور آج تک کشمیر کی آزادی ایک خواب ہے۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس شملہ میں قرار پایا تھا کہ ۱۴/ اگست ۱۹۳۱ء کو ملک میں یوم کشمیر منایا جائے۔ چنانچہ کشمیر کمیٹی کے صدر کی حیثیت سےمرزا صاحب نے ۶/ اگست ۱۹۳۱ء کو اپنے قلم سے ایک مفصل مضمون میں لکھا:
مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے بتیس لاکھ بھائی بے زبان جانوروں کی طرح قسم قسم کے ظلموں کا تختہ مشق بنائے جارہے ہیں جن زمینوں پر وہ ہزاروں سال سے قابض تھے ان کو ریاست کشمیر اپنی ملکیت قرار دے کر ناقابل برداشت مالیہ وصول کر رہی ہے۔ درخت کاٹنے` مکان بنانے` بغیر اجازت زمین فروخت کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی شخص کشمیر میں مسلمان ہو جائے تو اس کی جائیداد ضبط کی جاتی ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ اہل و عیال بھی اس سے زبردستی چھین کر الگ کر دیئے جاتے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں` انجمن بنانے کی اجازت نہیں۔ اخبار نکالنے کی اجازت نہیں غرض اپنی اصلاح اور ظلموں پر شکایت کرنے کے سامان بھی ان سے چھین لئے گئے ہیں وہاں کے مسلمانوں کی حالت اس شعر کے مصداق ہے ۔
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
چنانچہ آپ کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق ۱۴/ اگست کو ہندوستان کے ہر مشہور شہر اور بستی میں بڑے جوش و خروش سے یوم کشمیر منایا گیا۔ قادیان میں مظلومین کشمیر کی حمایت میں مظاہرہ کیا گیا۔لاہور کا جلسہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی صدارت میں ہوا جلوس اور جلسہ میں ایک لاکھ مسلمان شریک ہوئے۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب` مولوی داؤد صاحب غزنوی اور سید محسن شاہ صاحب نے پرجوش تقریریں کیں۔پورے ہندوستان میں کشمیریوں کے حق میں ان جلسوں نے ایک فضا قائم کردی۔
حکومت ہند اور ریاست کشمیر پر دباؤ ڈالنے کا نہایت موثر ذریعہ بیرونی پراپیگنڈا تھا کشمیر کمیٹی نے آغاز کار ہی سے اس کا خاص انتظام کیا۔چنانچہ اس ضمن میں امریکہ` سماٹرا` جاوا` عرب مصر و شام میں ایک مہم شروع کی گئی مگر سب سے زیادہ توجہ انگلستان کی برطانوی حکومت` برطانوی پریس اور برطانوی عوام پر دی گئی، کیونکہ کشمیر کی ریاست پر حکومت ہند کی نگرانی تھی۔ اور حکومت ہند برطانوی حکومت کے ماتحت تھی۔ برطانیہ کو متاثر کرنے کے لئے آپ نے مختلف ذرائع اختیار فرمائے۔ جناب عبدالمجید صاحب سالک نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔ ’’انگلستان میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے جو کام کیا وہ ہندوستان کے کام سے بھی کہیں زیادہ بیش بہا تھا۔۔۔لیکن آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر کے برقی پیغامات اور مولوی فرزند علی امام مسجد لنڈن کی ان تھک مساعی سے اب حالات بہت بہتر ہیں اور اکثر انگریزی اخبارات کا لب و لہجہ ہمدردانہ ہو گیا ہے۔ ۔۔ ان حضرات نے انہی تاروں سے متاثر ہو کر وزیر ہند سے متعدد ملاقاتیں کیں اور یہ وعدہ لیا کہ کشمیر کے معاملہ میں مظلوموں کی امداد کی جائے گی۔‘‘
اس دوران کشمیریوں پر وہاں کی سرکار کے مظالم میں شدید اضافہ ہوگیا تھا۔لوگ زخمی تھے اور ان کا علاج نہیں ہو پارہا تھا۔لوگوں پر بھاری جرمانے عائد کئے گئے تھے اور وہاں کے لیڈروں پر مقدمات تھے۔ان مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کشمیر کمیٹی نے ڈاکٹروں کو کشمیر کی طرف روانہ کیا تا وہاں زخمیوں کا علاج ہوسکے۔لوگوں کے جرمانے ادا کرنے کے لئے ان کی مالی امداد کی گئی اور جن پر مقدمات تھے انہیں بھرپور آئینی اور قانونی مدد فراہم کی گئی اور یہ کام اس وسیع اور بھرپور رنگ میں کیا گیا کہ مخالفین بھی اس کام کو سراہے بغیر نہ رہ سکے۔ایک مضمون میں زیادہ اخباری حوالہ جات کا متقاضی نہیں ہوسکتا،وگرنہ کثرت کے ساتھ حوالہ جات موجود ہیں۔
ان مساعی جمیلہ اور بیرونی پراپگنڈہ کا اثر یہ ہوا کہ مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں کو ابتدائی حقوق دینے کا اعلان کر دیا۔سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا۔مارشل لاء ختم کرکے مسلمانوں کو حقوق دینے کا اعلان کیا۔کشمیر کمیٹی نے سرکردہ مسلمانوں رہنماوں سے مشورہ کرکے مسلمانوں کی طرف سے مطالبات کی فہرست مہاراجہ کو پیش کی گئی۔اس کے مطالعہ کے بعد مہاراجہ نے مسلمانوں کے لئے نہ صرف مذہبی آزادی کے قیام کا اعلان کیا بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے ایسی مساجد جن پر حکومت کا قبضہ تھا وہ بھی مسلمانوں کو واپس کرنے کے عمل کا آغاز ہو گیا۔تاریخی ’’مسجد پتھر‘‘ جسے حکومت مدت مدید سے گودام کے طور پر استعمال کررہی تھی واپس کی گئی اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے اس کا افتتاح کیا اور کشمیر کمیٹی کے لئے شکریہ کی قرارداد منظور کی گئی۔
مہاراجہ نے ابتدائی حقوق دینے کے اعلان کے ساتھ ہی ایک کمیشن بھی قائم کردیا جو مزید معاملات پر پیش رفت کرسکے۔مہاراجہ ہری سنگھ صاحب والی جموں و کشمیر کے تاریخی اعلان (مورخہ ۱۱/ نومبر ۱۹۳۱ء) سے جدوجہد آزادی کا ایک نیا محاذ شروع ہوا یعنی ریاست کے مقرر کردہ مڈلٹن کمیشن اور گلانسی کمیشن کے سامنے کارآمد اور مفید شہادتوں کا مرتب کرنا اور کشمیری مسلمانوں کو ایسے مشورے دینا جن سے وہ اپنا کیس موثر رنگ میں پیش کر سکیں۔
یہ بہت بڑا معرکہ تھا جسے سر کرنے کے لئے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے سرینگر` جموں` پونچھ اور میر پور میں باقاعدہ دفاتر کھول دیئے سرینگر میں شیخ بشیر احمد صاحب بی اے۔ ایل ایل بی ایڈووکیٹ` چوہدری عصمت اللہ صاحب بی ایس سی۔ ایل ایل بی` مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اےوغیرہ کو دن رات کام کرنا پڑا۔
گلانسی کمیشن نے مسلمانوں کے اکثر حقوق و مطالبات کی سفارش کر دی۔ انکی معقولیت پر اس طرح مہر تصدیق ثبت کر دی کہ ہندو پریس نے احتجاجاً لکھا۔’’کشمیر کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔‘‘
۲۲/ مارچ ۱۹۳۲ء کو کمیشن کی رپورٹ مکمل ہوئی اور مہاراجہ صاحب نے ۱۰/ اپریل ۱۹۳۲ء کو رپورٹ کی سفارشات منظور کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔ اور اس طرح حضرت مرزا صاحب کی قیادت میں صرف چند ماہ کی آئینی جدوجہد سے اہل کشمیر کو اکثر و بیشتر وہ حقوق قانوناً حاصل ہو گئے جو سکھوں کے عہد حکومت سے چھن گئے تھے۔ اور جن کی خاطر اندرون کشمیر اور بیرون ریاست دونوں جگہ ایک لمبے عرصہ سے کوششیں جاری تھیں۔
چنانچہ گلانسی کمیشن کے نتیجہ میں عید گاہ سرینگر وغیرہ مساجد و مقابر اور مقدس مقامات جو مدت سے ڈوگرہ حکومت کے قبضہ میں تھے۔ مسلمانوں کو واپس کر دیئے گئے اور آئندہ کے لئے مہاراجہ نے یہ اعلان کیا کہ اس نوع کی تمام مقدس عمارتیں مسلمانوں کے سپرد کر دی جائیں۔
سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ہر قوم کو ریاست میں کامل مذہبی آزادی ہے اور اگر کوئی شخص اذان میں مداخلت کرے تو اسے سزا دی جائے۔ یا کسی کو اس کی تبدیلی مذہب کی بناء پر ہراساں اور خوفزدہ کیا جائے۔ تو اس کی گو شمالی کی جائے۔ خواہ وہ پولیس ہو یا کوئی اور سرکاری عہدیدار ہو یا رعایا میں سے کوئی شخص!
تعلیم کے متعلق کمیشن کی سفارشات منظور کرتے ہوئے ابتدائی تعلیم کی توسیع` عربی کے اساتذہ کی تعداد` اسلامی وظائف کی مقدار اور محکمہ تعلیم کے مسلمان انسپکٹروں میں اضافہ کے احکام دیئے اور مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک خاص انسپکٹر کے تقرر کا فیصلہ کیا۔
مسلمانوں کا ایک نہایت اہم مطالبہ یہ تھا کہ زمینداروں کو حقوق مالکانہ دیئے جائیں۔ جو تسلیم کر لیا گیا۔ آزادی تقریر و تحریر سے متعلق اعلان کیا کہ ریاست میں جلد از جلد وہی قانون رائج ہو جو برطانوی ہند میں رائج ہے۔
مختصر عرصہ میں کشمیر کمیٹی کی ان شاندار کوششوں اور کاوشوں نے وادی کشمیر میں مسلمانوں کی حالت باالکل ہی بدل ڈالی۔انہیں ان کے حقوق واپس مل رہے تھے اور ان کا مالی،جذباتی اور جسمانی استحصال بھی ختم ہورہا تھا۔یہ کامیابیاں انتہائی غیر معمولی تھیں جن کا کچھ سال بیشتر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔جماعت احمدیہ جیسی منظم اور ایک ہاتھ پر اٹھنے بیٹھنے والی جماعت اور اس کے لیڈر نے مسلمانوں کی ہمدردی میں دن رات ایک کرکے کام کیا۔جماعت کے سرکردہ رہنما راتوں کو جاگ کر کشمیریوں کو ان کے حقوق دلانے کے لئے کام کرتے اور مختصر عرصہ میں دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح مہاراجہ نے مجبور ہوکر مسلمانوں کو حقوق دینے کا اعلان کردیا۔
اس دوران کشمیر کمیٹی کے بعض نمائندوں نے اخبارات میں یہ اعلان شائع کیا کہ کشمیر کمیٹی کے نئے انتخابات ہونے چاہئیں۔اس پروپگنڈہ کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے امام نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفی دے دیا۔پس منظر اور دیگر وجوہات کی تفاصیل کا یہ موقع نہیں۔کشمیر کمیٹی نے جو خدمات سر انجام دیں ،انہیں احمدی مخالفین بیشک دھندلانے کی کوشش کریں مگر تاریخ ہمیشہ سے ناموروں کو زندہ رکھتی آئی ہے۔
اخبار سیاست کے مدیر جناب حبیب صاحب نے اس موقع پر لکھا:
’’لاہور کے بعض ارکان کشمیر کمیٹی میں یہ تحریک جاری تھی کہ کمیٹی مذکور کے عہدہ داروں کا جدید انتخاب ہو۔ مجھ سے بھی اس تحریک کی تائید کے لئے کہا گیا اور میں نے بھی متعلقہ کاغذ پر دستخط کئے لیکن افسوس ہے کہ معلومہ حادثہ کی وجہ سے میں جلسہ میں موجود نہ تھا ۔معلوم ہوا ہے کہ اس جلسہ میں مرزا صاحب کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولانا چوہدری غلام رسول صاحب مہر نے بھی سیکرٹری کے عہدہ سے استعفیٰ داخل کردیا اور ان کی جگہ ملک برکت علی صاحب کا تقرر عمل میں آیا۔ میں خوش ہوں کہ ایسا ہوا۔ اس لئے میری دانست میں اپنی اعلیٰ قابلیت کے باوجود ڈاکٹر اقبال اور ملک برکت علی صاحب دونوں اس کام کو چلا نہیں سکیں گے۔ اور یوں دنیا پر واضح ہوجائے گا کہ جس زمانہ میں کشمیر کی حالت نازک تھی اس زمانہ میں جن لوگوں نے اختلاف عقائد کے باوجود مرزا صاحب کو صدر منتخب کیا تھا۔ انہوں نے کام کی کامیابی کو زیرنگاہ رکھ کر بہترین انتخاب کیا تھا۔ اس وقت اگر اختلافات عقائد کی وجہ سے مرزا صاحب کو منتخب نہ کیا جاتا تو تحریک بالکل ناکام رہتی اور امت مرحومہ کو سخت نقصان پہنچتا۔ میری رائے میں مرزا صاحب کی علیحدگی کمیٹی کی موت کا مترادف ہے مختصر یہ کہ ہمارے انتخاب کی موزونیت اب دنیا پر واضح ہوجائے گی۔ والحمد للہ علی ذالک!

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply