• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دمشق سیٹیڈل ، دمشق شہرکا موتی ہے۔(قسط2)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دمشق سیٹیڈل ، دمشق شہرکا موتی ہے۔(قسط2)۔۔۔سلمیٰ اعوان

رضیہ حمید نے جب واپس آکر فلسطین کے شہروں حیفہ، غزہ،رام اللہ،عکا، یروشلم وغیرہ کی گردان کی۔غزہ کی بوڑھی عورت کے زیتون کے باغ میں زیتون کے درختوں پر چڑھنے، انہیں توڑ کر گھر لانے اور دستی مشین سے تیل نکالنے کے قصے سنائے۔ اسرائیل کی ظالمانہ کہانیاں،اس کے ظالمانہ ہتھکنڈے،حماس کی خدمت خلق،انکے جذبات کی شدتیں اورالفتح کی سیاست سب پہلوؤں پر روشنی ڈالی تو میری حالت قابل دیدنی تھی۔حسرتوں کا دھواں تھا جو مجھے سُلگا سُلگاکر مارے جا رہا تھا۔
خیر سے میری اُمیدوں پر پانی پھر جانے کی رہی سہی کسر فریڈم فرٹیلا نے پوری کر دی۔میری تو لُٹیا ہی ڈوب گئی۔ظالم اسرائیل پٹڑی پر کِس مشکل سے چڑھا تھا؟ اب ایک گڑگڑاہٹ سے نیچے ااُتر گیا۔
ابو شینب فون پر تاسف بھرے لہجے میں مخاطب تھے۔
”اسرائیل نے انکار کر دیا ہے۔“
اب بغداد جانا بھی خاصا سنسی خیز تھا۔ جسے کہتی وہ کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا۔
”ارے موت کے منہ میں جانے والی بات ہے یہ تو۔“سوچا عراق ایمبیسی کو لکھوں۔عرضداشت بھیجی گئی کہ حضوروالا اکیلی ہوں صرف تحفظ درکار ہے۔بلایا گیا۔ہزایکسی لینسی ڈاکٹر رُشدی محمود تاریخ میں پی ایچ ڈی تھے۔تپاک سے ملے۔ہرطرح سے تعاؤن کی یقین دہانی ہوئی۔
”بس جاکر ایک خط لکھئیے کہ آپ کو کن کن پہلوؤں پرکام کرنا ہے؟“
آٹھ نو پوائنٹس پر مشتمل ایک خط بھیج کر انتظار کی سُولی پر چڑھ بیٹھی۔چند بار فون کیا۔ہر بار ہزایکسی لینسی خوش مزاجی سے ہیلوہائے کرتے۔یقین دلاتے۔جلد خوشخبری سنانے کا فرماتے۔مگر کچھ تھا جسکی پردہ داری مطلوب تھی۔ تفصیل ہرگز خوشگوار نہیں۔کہیں خوشگوار میٹھی میٹھی سی دوستانہ باتوں کے انبار میں محتاط لفظوں میں لپٹا ایک پیغام ضرور تانکا جھانکی کرتے ہوئے کچھ بتاتا اور سمجھاتا تھا کہ عراق امریکی تسلط میں ہے۔کہیں تمہارے جیسی منہ پھٹ اور ہتھ چھٹ گرفت میں آگئی تو اُس کا تو پٹڑہ ہوجائیگا اور کوئی بعید نہیں کہ اُس کی اٹھا پٹخکی شروع ہوجائے کہ عراق میں تو افراتفری مچی ہوئی ہے اورعہدوں کیلئے دوڑیں ہیں۔ وہ جو گذشتہ سال سے ڈپلومیٹک انکلیو میں کروڑوں کی مالیت سے بننے والا نیا سفارت خانہ انتہائی شاندار، بغداد کی قدیمی عظمتوں کا نمائندہ جی جان سے بنانے میں ہلکان ہورہا ہے اور چاہتا ہے کہ اُس کی تکمیل صرف اور صرف اسی کے ہاتھوں ہواس اعزاز سے محروم رہ جائے گا۔
اب میں تو یہی کہوں گی کہ اس میں یقینا میرے مقدر کا بھی دوش ہے کہ جس کے نصیب میں مُفتہ نہیں خجل خواری ہے۔
”اب میں کیا کروں؟ کِس کھوں کھاتے میں گروں؟کہاں جاؤں؟کسی پل چین نہ تھا۔ایسے میں اخبار کاایک اشتہار نظر سے گزرا۔عراق اور شام کیلئے زیارتی کارواں ۵۱ جولائی کو روانگی۔ادائیگی ایک لاکھ پچیس ہزار۔
یہ زیارات کا پیکج تھا۔عراق و شام کی مقدس جگہیں محترم تو سبھی مسلمانوں کیلئے ہیں۔یوں شیعہ مسلک کیلئے ذرا خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔
بہت سی سوچوں نے گھیرا ڈال دیا۔ترجیحات کا فرق غور طلب تھا۔
مذہبی معاملات میں بُہت لبرل ہوں۔خدا کو ربُ المسلمین نہیں رب العالمین جانتی ہوں۔انسانیت پر ایمان رکھتی ہوں اور تہہ دل سے اِس پر یقین ہے کہ مذاہب کی یہ رنگا رنگی اوپر والے کی اپنی تسکین طبع کیلئے ہے اور یہ تنوع اُسے حد درجہ محبوب ہے۔
اس لئے آپ اور میں کون اپنے عقیدے اور مسلک پر غرور کرنے والے۔
مسئلہ میرے اکیلے کا تھا۔عرفانہ عزیز نے ایکبار بڑے جذب سے میرے ساتھ سفر کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔فون کیا تو دس مجبوریاں سُننے کو ملیں۔میں نے ریسورپٹختے ہوئے دل میں کہا۔
”چل میاں چل انہی کے ساتھ۔بات ساری کھول دینا۔گھر والوں والے تو مطمئن رہیں گے کہ بی بی اکیلی نہیں۔عراق جانے کی اور تو کوئی راہ ہی نہیں۔
بہت خوبصورت شاعر جناب حسن عسکری کاظمی سے راہنمائی چاہی کہ مقامات مقدّسہ پر اُن کی دو کتابیں میں پڑھ چکی تھی۔انہوں نے ایک نمبر دیا ”اِن سے رابطہ کرو۔“
بات ہوئی۔دل کچھ ٹُھکا۔پر تھوڑی سی جانکاری تھوڑی سی پر کھ پڑتال ضروری تھی۔حیدر زماں صاحب کے گھر پہنچی۔دہلیز میں قدم دھرتے ہی دروازے ہی دروازے والا اشتہار آنکھوں کے سامنے آگیا تھا۔یہاں بھی درویشی ہی درویشی والا منظر تھا۔
لگی لپٹی کے بغیر اپنی ترجیحات کا ذکر کردیا۔اہل بیت سے محبت ہے مگر مسلمان میں بس ایویں سی ہوں۔حج، عمرہ، گیتوں اور نظموں کے زور پر کرکے آئی ہوں۔مجھ جیسی سرکی ہوئی خاتون اُس شریف النفس انسان نے کہاں دیکھی ہوگی؟تاہم انہوں نے اپنے تعاون کا بھرپور یقین دلایا تومیں نے پاسپورٹ اور پچاس ہزار روپیہ کھٹ سے نکالا۔ حوالے کیا۔شام کو بقیہ رقم بھیجنے کا وعدہ کیا اوراتنا سا جانا کہ5 جولائی کو روانگی ہے۔لاہور سے دمشق بذریعہ ہوائی جہاز۔تیرہ دن کا شام میں قیام۔ بس سے عراق،پندرہ دن کے بعد ایران کیلئے روانگی اور تہران سے لاہور واپسی۔
مزید حال احوال کیا ہیں؟پتہ نہیں کچھ جاننے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔جنگ کے بعد کا عراق دیکھنے کا تجسّس اگر زوروں پر تھا تو وہیں شام کے بارے وارفتگیئ شوق ِعالم کچھ نہ پوچھ والا معاملہ بھی تھا۔
چند دن کے خمار کے بعد نقشے کھولے۔فاصلوں کا حساب کتاب کیا۔موسم کے بارے میں رپورٹیں لیں۔شام گرم تھا۔لیکن قابلِ برداشت۔تیس سے بتیس30-32ٹمپریچر پر۔ہاں البتہ عراق تنور بنا ہوا تھا۔ڈی ہائیڈریشن کی پرانی مریض ہنس کر خود سے بولی۔
”آپے بجھی نی تینوں کون چھڑائے۔(خود اپنے شوق سے تم بندھی ہو۔اب کون تمہیں اِس سے چھڑائے)۔
وسط جون کا وہ بھی ایک آگ برساتا دن ہی تھا۔ظہر کے چار فرض پڑھتے پڑھتے عراق پہنچ گئی۔
”دو جہاں کے بادشاہ، نا ممکنات کو ممکن بنا دینے والے شہنشاہ کیایہ ممکن ہے؟اب
پڑھ کیا رہی تھی التحیات،قل ھو اللہ یا سورہ فاتحہ سب بھول گئی اور سوال جواب میں اُلجھ گئی تھی۔
میرے لئیے توناممکن پر تیرے لئیے کن فیکون۔ پلیز آپ عراق می ں میرے قیام کے دوران ابر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا میرے سر پر تان دیجئیے نا۔مشکور ہوں گی آپ کی۔“
ایسی فضول اور بے سرو پاسی خواہش پر بے اختیار ہی میری ہنسی چھوٹ گئی۔
بیڈ پر بیٹھے پانچ سالہ پوتے نے حیرت سے دیکھا۔چھلانگ لگا کر نیچے کُودا اور دوڑتا ہواماں کے پاس جا کر بولا۔
”اماں دادو پاگل ہو گئی ہیں۔“
چار بالشت لمبے اور تین بالشت چوڑے اٹیچی کیس میں میرے نہ نہ کرنے پر بھی میری بے حد پیاری خادمہ نے دس جوڑے ٹھونس دیئے کہ وہاں جا کر آپ نے دھوبی گھاٹ ہرگز ہرگز نہیں لگانا۔تنہائی میں چُپکے سے میں نے پانچ جوڑے نکال باہر پھینکے۔
”کِسی فیشن شو میں جا رہی ہوں۔فضول کا بوجھ“
ہاں البتہ عراق کی گرمی کو مارنے کیلئے تخم ملنگا اور قتیرہ گوند کے لفافے رہنے دئیے۔بادام اور سونف کے ساتھ قطعی چھیڑا چھیڑی نہیں کی۔نئے ڈیجیٹل کیمرے کے ساتھ پرانا یوشیکا بھی رکھا۔پرانی ساتھی دوربین بھی حفاظت سے کونے میں ٹکائی۔
بلڈ پریشر کی دوائی دھیان سے سنبھالی۔
میں اُن جاہل اور ان پڑھ لوگوں سے بھی بدتر ہوں جو خاموش قاتل کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی دوائی نہ کھانا بڑا فخر سمجھتے ہیں۔سفر پر جاتے ہوئے دوائی رکھنی ضروری پر کھانے کی مجبوری نہیں۔ہاں البتہ تکلیف کی شدت تو ناک سے لکیریں بھی نکلوا دیتی ہے۔
بیگ میں نہ پاسپورٹ، نہ ٹکٹ،نہ کوئی معلوماتی بروشر۔اجڈوں اور جاہلوں والی بات تھی۔اللہ تیرے حوالے۔
ایر پورٹ پر تھوڑی سی پریشانی ہوئی۔شُکراََ کہا کہ میاں ساتھ نہیں آئے تھے۔ایسی بدنظمی دیکھتے تووہیں لعن و طعن کے تبّروں سے تواضع شروع کر دیتے۔
قافلے کے لوگوں کو تاڑنے اور جائزہ لینے سے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سیدھے سادھے عقیدتوں کے اسیر لوگ ہیں جو حج وعمرہ کی طرح زیارات کو بھی ایمان کا حصّہ سمجھتے ہیں۔
پہلاپڑاؤ بحرین ہوا۔خوبصورت شہر پرشیئن گلف کے دہانے سے کِسی جادوئی اسرار کی مانند پھوٹتا ہوا نظرآیا۔ایرپورٹ کیا تھا۔ایک پورا شہر۔دنیا جہان کی نسلوں اور قوموں سے بھرا پڑا۔
فلپائن کی پھینی پھدکڑ ڈھڈورنگی(چپٹی ناک اورمینڈک جیسے رنگ والی)لڑکیوں کے ٹولوں نے آدھا ہال سنبھالا ہوا تھا۔باقی کا آنبوسی بنگلہ دیشی لڑکیوں اور عورتوں کے قبضے میں تھا۔شلوار قمیض اور قمیض پاجاموں کے علاوہ ساڑھی تو قسم کھانے کو ایک کے بھی تن پر نہ تھی۔
1969ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنا زمانہ طالب علمی یاد آیا تھا۔ ایک ماہ میں ہی اُٹھتے بیٹھتے میرے کلاس فیلوز نے ”تماں کے خوقی ناہیں (تم بچی نہیں ہو)بنگال آئی ہوتمہیں ساڑھی پہننی اور بنگالی بولنی چاہئے“ جیسے طعنوں سے چھلنی کرنا شروع کر دیا تھا۔لباس اور زبان کیلئے اُن کی بے تکی محبت، کریز اور تعصّب خوفناک حدوں کو چھُوتا تھا۔ میں نے بھی فی الفور یہ دونوں کام کرنے میں ہی اپنی سلامتی اور عافیت جانی تھی۔
وقت کتنا بدل گیا تھا۔بنگلہ دیشی عورت ملکی معیشت مظبوط کرنے میں کِس درجہ سر گرم ہے۔
متحدہ عرب امارات کی چھ امیر ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کے کھاتے پیتے ملکوں
میں یہ غریب عورتیں اور لڑکیاں ایجنٹوں کی وساطت سے محنت مزدوریاں کرنے جا رہی تھیں۔تیسری دنیا کے غریب لوگوں کا مقدّر۔یہاں کوئی تین گھنٹے کا پڑاؤ ہوا۔گیٹ نمبر 31سے دمشق کیلئے ہمیں داخل ہونا پڑا۔
گیٹ نمبر 30 پر کھڑا دُبلا پتلا مسکین سا آدمی”بغداد بغداد“ کیلئے یوں آوازیں لگا رہا تھا کہ جیسے بادامی باغ کے بس سٹینڈ پر”سیالکوٹ سیالکوٹ راولپنڈی راولپنڈی“کی صدائیں لگتی ہیں۔
اِس بین الاقوامی ہوائی اڈے پرجہاں دنیا جہاں کے مسافروں کواُن کی پروازوں کیلئے پروقار انداز میں عربی،انگریزی اور ہندی میں بلایا جارہا تھا۔میں خودسے کہے بغیر نہ رہ سکی تھی۔
”اللہ یہ پیغمبروں،ولیوں،صاحبِ کشف اور الف لیلیٰ کا بغداد ایسا یتیم و یسیر ہو گیا ہے کہ اِس درجہ گھٹیا اورجٹکے انداز میں اِس کے مسافروں کو پُکاریں پڑ رہی ہیں۔
بس اُس وقت جی چاہا تھاکہ اِس پُکار کے پیچھے پیچھے چلتی شہریاراور شہرزادکے دیس چلی جاؤں۔دیکھوں توبے چارہ کتنا زخمی ہوا پڑا ہے؟
یہیں میں نے اُس مدھو بالا کو دیکھا تھا۔ثروت شجاعت شیخوپورہ کالج کی پروفیسر۔ہنستے ہوئے میں نے پوچھا تھا۔”کوئی قرابت داری اُس خاندان سے۔“کھلکھلا کر ہنس پڑی۔زندہ دل خاتون تھی۔
جہاز میں دہکتے لبوں،چمکتے رخساروں نین کٹارا سی آنکھوں اورچھ فٹی مٹیار جٹیوں جیسی جتنی عورتیں بھی نظر آئیں کم و بیش سب شامی تھیں۔ میرے ساتھ بیٹھنے والی بھی ایسے ہی قد کاٹھ اور رنگت والی تھی۔وہ تو علم کے میدان کی بھی اچھی شہسوار تھی کہ دمشق یونیورسٹی میں جغرافیہ کی استاد تھی۔
بچے جہاں کے بھی ہوں اُنکے کھیل بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔سامنے والی سیٹ پر بیٹھی شامی بچی گڑیا کے ساتھ کھیلتی،کبھی اُسے کپڑے پہناتی، کبھی پھول تاروں سے سجاتی۔
لڑکا موبائل پر گیمیں کھیلتا تھا۔سامنے چلتے ٹی وی پر عربی فلم میں وہی پُرانے رنڈی رونے تھے۔مرد کی بیوفائی،عورت کا چہکوں پہکوں رونا،جیبوں کی تلاشی۔
واش روم کیلئے اٹھی تو چلتے چلتے ٹھٹھکی۔ایک فلپینو لڑکی روتی تھی۔دلداری کی تو جیسے ٹھیس لگ جائے آبگینوں کو والا معاملہ ہو گیا تھا۔دو نّنھی منی معصوم صورتیں چھوڑ کر آئی تھی۔ یاد نے زور مارا تو موتیوں کے ہار پرونے لگی۔
اب دلاسا اورتسلّی کے دو بول ہی تھے ناغریبوں کے مقدّر۔
گلف ایر لائن کی فضائی میزبانیں بلاشبہ مقابلہء حسن میں بھیجی جانے والی تھیں۔مرد جتنے خوبصورت تھے اتنے ہی فارغ البال۔جی چاہتا تھا ایک کراری چپت کھوپڑیوں پرلگاؤں۔ کیسا مزہ آئے؟
کھانے میں بریانی تھی۔کمبختوں کے پاس کشمش کا قحط تھا۔ سارا زور پیاز پر تھا۔گارنش گویا مردے کے منہ پر مکھن ملنے کے حساب میں جاتی تھی۔سبزیوں کی ڈش بے سوادی اور میٹھا اُس سے بھی زیادہ بے سوادا۔
ایک عظیم اور قدیم تہذیبی گہوارہ ملک شام کے دارلخلافہ دمشق کی پہلی جھلک جہاز کی کھڑکی سے اڑتی ہوئی آنکھوں سے آٹکرائی تھی۔
بڑا دلربائی والامنظر تھا۔جیسے دُنیا سے کٹے پھٹے کِسی صحرا میں پہاڑیوں کے پاؤں سے ناف تک کے دامن میں بچیوں نے کھیلتے کھیلتے گڑیوں کے خوبصورت گھروندے یہاں وہاں سجا دئیے ہوں۔
ریگستانی میدان میں جبل قاسیون اور چامchamپیلس ہوٹل کی اولین جھلک بھی میں نے اُس شامی خاتون کی نشاندہی پر ہی دیکھی تھی۔
میں نے باہر دیکھا تھاشہر کے بیچوں بیچ گزرتی لمبی شاہراہ حافظ الااسد روڈ جیسے کوئی موٹا تازہ اژدھا پھنکارتے مارتا ہو۔درختوں کی قطاریں اپنی لمبائی چوڑائی اور تناسب کے اعتبارسے بڑی منفرد سی دِکھی تھیں۔
تین گھنٹے کے اِس سفر میں میں نے اُس حُسن کی مورتی سے شام کے متعلق کافی اسباق پڑھ لئیے تھے۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک جغرافیائی لحاظ سے شام،فلسطین وغیرہ سلطنت عثمانیہ کی علمداری میں تھے۔ انگریزوں اور اتحادیوں کی شازشوں نے اس کے حصّے بخروں کیلئے بڑی گھناؤنی چالیں چلیں۔اِس سرزمین کو مختلف ٹکڑوں میں اپنے حواریوں میں بانٹ دیا۔
یہ کمبخت انگریز اور اُن کے چچیرے، ممیرے بھائی بند منحوس مارئے کیسے تخریبی ہیں؟ملکوں ملکوں پھڈے ڈالے رکھتے ہیں۔میں نے کڑھ کر سوچا۔ڈاکٹر زُخرف کے لہجے میں دُکھ کی چبھن تھی کہ اس کا خوبصورت خدوخال والا ملک اس بندر بانٹ کے نتیجے میں بے ڈھبا سا ہوگیاتھا۔
دمشق کمال کا خوبصورت شہر ہے اوردمشق سٹیڈیل Damascus citadelتو گویا شہرکا موتی ہے۔اس کا لینڈ مارک ہے۔ایک کروڑ پچیس لاکھ آبادی والا یہ مُلک کٹھ پتلی بادشاہت سے گزرتا کیمونسٹ سوشلسٹ چکروں میں اُلجھتا حافظ الااسد کے بعد اُس کے بیٹے بشارالااسد کی صدارت میں ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔
بشار کے بارے میں میرے ایک سوال پر ڈاکٹر زُخرف نے کہا تھا۔
”بہت سمجھدار اور لوگوں میں ہردل عزیز ہے۔مُلک کو تیزرفتاری سے ترقی کی جانب لے جارہا ہے۔ہمہ وقت لوگوں سے رابطے میں رہتا ہے۔“
جہاز لینڈ کررہا تھا۔میں نے اپنی حسین ہم سفر کا شکریہ ادا کیاکہ جس نے شام سے میرا ابتدائی تعارف کروادیا۔ایرپورٹ اتنا شاندارنہ تھا جتنا میں توقع کررہی تھی۔
پڑاؤ زینبیہ میں ہوا۔ دمشق سے پندرہ کلومیٹر پر زینبیہ کا علاقہ حضرت زینب کے نام نامی سے مشہور ہے۔درمیانے درجے کے ہوٹلوں،بازاروں اور رہائشی مکانوں کی وجہ سے متوسط زائرین کی کثرت ہے۔جو یہاں ٹہرتے اور دنوں رہتے ہیں۔اب “محبّانِ اہل بیت “ہوٹل کے ایک کمرے میں بچھی اٹھ چارپائیوں میں سے ایک پر لیٹتے ہوئے میں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔
”میں کیا کروں۔“
کمرے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی عورتوں کے بیگ اٹیچی کیس کُھل گئے تھے۔برتن بھانڈے، دالیں،چاول، مٹھیاں اورچنے نکل آئے تھے۔ دیگچیاں گلاس پلیٹیں بھی
ملحقہ کچن میں سج سجا گئی تھیں۔ اکلوتے غُسل خانے میں باری باری غُسل کے بعدتن والا جوڑا دُھل کر کمرے میں بچھی چارپائی کی پائنیتوں پر سُوکھنے کیلئے ڈل گیا تھا۔
بالوں میں کنگھی پٹی اور حضرت زینب کے روضہء مبارک پر جانے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
”میں کیا کروں۔“سوال ایک بار پھر اپنے آپ سے ہوا تھا۔
ابھی تک میں آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ 1955اور 1956کی کچھ کچھ دھندلی یادیں تھیں۔میری نانی اور دادی ایسے ہی لازموں کے ساتھ حج کیلئے گئی تھیں۔
میری توقعات کے خانوں میں ایسے مناظر میں سے کسی ایک منظر کا بھی کوئی تصور نہ تھا۔پورے دو ڈھائی گھنٹوں کے بعد میں نے آنکھیں کھولیں۔اٹھ کر بیٹھی۔اُن سبھوں کو دیکھا۔
بڑی موٹی موٹی خوبصورت آنکھوں والی صابرہ داتا دربار کی ملنگنی تھی۔موچی دروازے کربلا گامے شاہ میں صفائی کرتی تھی۔کسی نیک دل لیڈی ڈاکٹر کے جذبہ رحمی کے نتیجے میں یہاں پہنچی تھی۔کونے والی چارپائی پر بیٹھی چھ فٹی تیس سالہ زیب النساء ٹکہ ٹکہ پیسہ پیسہ جوڑ کر آئی تھی اور شکر کی کیفیت سے باہر نہیں نکل رہی تھی۔
جمیلہ سچی کہانیوں کے حوالے سے اپنی ذات کا ایک بڑا کردار تھا۔ ایسی دلخراش داستان،رونگٹے کھڑے کرنے والی،رُلانے والی۔
چار سیاہ کپڑوں میں ملبوس دو نوجوان اور دو بوڑھی عورتیں سرگودھا کے زمیندار کھاتے پیتے روایتی گھروں سے تھیں۔اور مدھو بالا جانے کِس کمرے میں تھی۔جس کے لئے میں نے سوچا تھا کہ میری اُس سے دال گل جائے گی۔
باتھ روم کے کھڑ کھڑ کرتے پلاسٹک کموڈ پر بیٹھتے ہوئے کہ جب مجھے ہر لمحہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ جانے کب میں اِس پر سے لڑھک کر دھڑام سے گرتے ہوئے گندگی میں لُتھڑ سکتی ہوں۔
یہ جملہ میں نے خود سے کہا تھا۔
”تو مجھے اِن کے ساتھ رہنا ہے۔ ان رنگ برنگے نئے تجربات سے اپنا دامن بھرنا اور مسرتوں کو کشید کرنا ہے۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply