داستان ضمیر فروشوں کی۔۔عامر عثمان عادل

17 جولای بروز جمعہ افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل گھر سے مارکیٹ آئیں اور پھر شور مچا کہ وہ اغوا ہو گئی تھیں
واقعے کے اگلے روز پولیس کو رپورٹ کی گئی ،ذرا ایف آر دیکھیے۔۔

” میں شاپنگ کے لئے گھر سے نزدیک ٹیکسی پر گئی واپسی پر ایک اور ٹیکسی پکڑی جو راستے میں ایک جگہ رکی ایک بندہ اندر آیا ،ساتھ بیٹھا ،مجھ پر تشدد کرنے لگا اور میں بے ہوش ہو گئی، جب ہوش آیا تو کچرے کے ڈھیر پہ پڑی تھی ،پھر وہاں سے پارک پہنچی اور سفارتخانے کے ایک ملازم کو بلایا جو مجھے گھر لے گیا ۔”

اب اس واقعے کی مکمل تحقیقات ہونا تھی ۔ مگر اپنے ہی وطن کے کچھ دانشور سرخیل لبرلز اور ملکی اداروں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے میدان میں آئے اور اپنی ہی حکومت کو بدنام کرنے لگے
اس دوڑ میں سلیم صافی جیسے صحافی اسد طور جیسے یو ٹیوبر پیش پیش تھے یہ اسد طور وہی ہے جس نے ڈرامہ رچایا کہ آئی  ایس آئی  نے اس پہ بد ترین تشدد کیا۔

اور تو اور اپوزیشن رہنما بھی تحقیقات مکمل ہونے کا انتظار کیے بنا، حکومت پر چڑھ دوڑے ۔احسن اقبال نے مطالبہ کر ڈالا کہ وزیر داخلہ مستعفی ہوں جبکہ ان کی قائد مریم نواز صاحبہ نے تو عمران خان کو بے شرمی کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان سے معافی مانگیں۔

اب کیا ہوا کہ اس قبیل کے سارے صحافی پروپیگنڈا کرنے لگے اور ہر موقع کی طرح ان کی تان اس بار بھی اپنی ایجسنیوں پر ٹوٹی۔

ایک پرانی تصویر کسی خواجہ سرا کی ان کو ملی، جس پر کے پی کے میں تشدد کیا گیا تھا، بس آؤ  دیکھا نہ تاؤ، اس تصویر کو افغانی سفیر کی بیٹی سے منسوب کیا اور ماتم شروع کر دیا کہ پاکستان کی ایک خفیہ ایجنسی نے افغان سفیر کی بیٹی کا کیا حال کر دیا۔

اب بھارت بھلا اس موقع کو ہاتھ سے کیسے جانے دیتا، اس نے بھی یہ تصویر اٹھائی  اور بین اونچی آواز میں شروع کر دئیے کہ پاکستانی ایجنسی نے افغان سفیر کی بیٹی کا کیا حال کر دیا۔

ایک منظم پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا ہو گیا، جب پوری دنیا میں یہ تصویر وائرل ہونے لگی تو ناچار افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کو اس تصویر کی تردید کرنا پڑی ،ان کی جانب سے ایک ٹویٹ کی گئی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر تشدد زدہ تصویر ان کی بیٹی کی نہیں اور ساتھ ہی ان کی جانب سے اپنی بیٹی کی اصلی تصویر ٹویٹ کی گئی۔

یہ ایک طمانچہ تھا ان سارے ننگ وطن لنڈے کے دانشوروں اور دیسی لبرلز کے منہ پر جو ایک خواجہ سرا کی تصویر کو لے کے اپنے ہی وطن کو بدنام کرنے کی مہم پہ نکلے تھے
ان کے جھوٹ کی ہنڈیا عین چوراہے میں پھوٹ گئی جب آئی  جی اسلام آباد نے پریس کانفرنس میں بتایا۔۔
کہ 330 سی سی ٹی کیمروں کو 7 گھنٹے دیکھا گیا 220 افراد سے تحقیقات کی گئیں 5 تفتیشی ٹیمیں اس کیس پہ لگی ہیں۔
کہانی مکمل ہو چکی، سفیر زادی ڈپلومیٹک انکلیو سے نکلی پیدل چل کر رانا مارکیٹ آئی، ٹیکسی لے کر کھڈا مارکیٹ راولپنڈی پہنچی، یہاں سے دوسری ٹیکسی لی، صدر بازار اتری ،وہاں سے تیسری ٹیکسی لی، دامن کوہ چلی آئی،اور پھر چوتھی ٹیکسی سے گھر جانے کی بجا ئے ایف نائن پارک کے گیٹ پہ پہنچی ،اور وہاں سے اپنے والد کو خبر دینے کی بجائے کسی اہلکار کو بلوایا۔۔

پاکستانی اداروں نے بہترین انداز میں اس کیس کی مکمل تحقیق کر لی ہے معاملہ اس حوالے سے نازک ہے کہ ایک لڑکی کا ہے، جو کسی کی بیٹی ہے اور ہماری مہمان۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسرا سفارت کاری کی نزاکتیں اور استثنٰی آڑے آتا ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن پر مصلحتا ًخاموشی ہی بھلی ہے۔اب اس پروپیگنڈہ بریگیڈ کے پاس سوائے سر میں خاک ڈال کر مزید گریہ زاری کرنے کے کچھ بھی نہیں بچا۔یہ وہ ضمیر فروش ہیں جو جس برتن میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں
میرا رب بھی کس قدر بے نیاز ہے ایسے ضمیر فروش جب رسوا ہونے پہ آتے ہیں تو ان کی ذلت کے لئے ایک خواجہ سرا کی تصویر ہی کافی ہوتی ہے۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply