ایک منحوس تصویر کی اُدھوری کہانی۔۔۔۔۔اطہر شہزاد

یہ پلٹن میدان ڈھاکہ کی تصویر ہے، دشمن کی فوجی میوزیم سے جاری کردہ، کرخت، بدبودار، اور تن بدن میں آگ لگا دینے والی تصویر، جسے دشمن بہت سنبھال کر رکھتا ہے، بڑی سی اور واضح  جگہ پر آراستہ کرتا ہے، یہ سب کچھ دشمن کو زیب بھی دیتا ہے کہ ہماری شکست کی کہانی کو نوشتہ دیوار بنائے، لیکن ہم لوگ خود بھی یہی کام کررہے ہیں ۔
دسمبر کا مہینہ شروع ہوتا ہے اور سقوط ڈھاکہ کے نام پر ہماری نام نہاد پسپائی اور اور ذلت کی تصویر دنیا بھر میں پھیلا دی جاتی ہے، یہ مہذب اور سمجھدار قوموں کا وطیرہ نہیں ہے، لوگ ایسی تصویروں کو پہلے انڈر کارپٹ کرتے ہیں، اور پھر انھیں دریا برد کردیتے ہیں، اور ہم؟ ، ہم اس نام نہاد حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو حرف بہ حرف درست سمجھتے ہیں جو سب سے پہلے انڈیا ٹو ڈے میں شائع ہوا۔
لیکن مکمل کہانی کیا ہے، ؟ اس دن کیا ہوا تھا جب تین ایٹمی قوتوں نے پاکستان کو دولخت کرنے کا متفقہ فیصلہ کرلیاتھا، مرکز سے ایک ہزار میل دور، سپلائی لائن مکمل معطل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محاذ جنگ پر غدارون کا غلغلہ، میر جعفر میر صادق کی سرزمین ، ہم سے 8 گنا زیادہ رقبہ اور 10 گنا زیادہ اسلحہ اور ساز وسامان ۔۔۔۔ برسرِ زمین کی یخ بستہ، بے رحم اور سفاک حقیقتوں نے سارے راستے بند کردئیے تھے۔
جب فوج اپنے لئے تمام راستے بند دیکھتی ہےتو کیا کرتی ہے ؟
ایسے میں جو دوسری فوجیں کرتی ہیں، وہ پاک فوج نہیں کرسکتی تھی، فوج ایسے مواقع پر سروائیول جنگ لڑتی ہے، مرو اور ماردو کی حکمت عملی اختیار کرتی ہے، بے رحم خون ریزی، آخری چارہ کار کے طور پر انسانیت کے تقاضوں سے دستبردار ہوجاتی ہے، زمین خون سے رنگین ہوجاتی ہے، ہم 90 ہزار تھے، منظم اور سربکف، ہم سرواؤل جنگ لڑتے تو قیامت تک یہ زخم مندمل نہیں ہوسکتے تھے، لیکن پاک فوج کیسے اس قسم کی جنگ لڑسکتی تھی، سامنے ہمارے اپنے لوگ ہی تھے، کلمہ گو مسلمان ، ہم سے ناراض ہمارے ہی بھائی  وہ قومی سانحہ تھا، ہاں وہ قومی سانحہ ہی تھا، لیکن قوموں کی زندگی پچاس ساٹھ سال تک محدود نہیں ہوتی ہے، کچھ حساب بعد میں بھی چگتا کئے جاتے ہیں، اور تاریخ کبھی کبھی بہت سست رفتار بھی ہوجاتی ہے، لیکن یہ کروٹ بدلتی ضرور ہے، بھارت میں علیحدگی کی درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں، اور بر صغیر میں پائیدار امن کی آخری امید، خطہ میں نئی جغرافیائی تبدیلیوں کا انتظار کررہی ہے ۔.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply