ممتاز بھٹو نے کہا: انٹرویو شبیر سومرو

میں نے کراچی کو ترقی دینے کے لئے پہلی بار باقاعدہ پلاننگ کی اس سے پہلے کراچی میں صرف ایک کثیر المنزلہ عمارت حبیب بینک پلازہ ہوتی تھی، میں نے کئی عمارتوں اور بلند بلڈنگوں کی تیاری کے اجازت نامے جاری کئے۔
کلفٹن کا پورا علاقہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ میں نے تیار کروایا۔
دوسال بعد جب میں نے چارج چھوڑا تو کراچی ایک جدید شہردکھائی دیتا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان،پیپلز پارٹی کے قیام اور اپنی زندگی سے متعلق ممتاز علی بھٹو کی یادداشتیں۔
(انٹرویو: شبیر سومرو)
” ایوب خان کی حکومت تھی، وہ ہمیں کس طرح آزادانہ سیاست کرنے کے لئے چھوڑ سکتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے ہمیں اور ہمارے ساتھیوں کو تکلیفیں دینا شروع کیں۔جیل جانا ہماراتقریباً معمول بن گیا اور ہماری زمینوں پر بھی قبضے کرائے گئے۔ مطلب یہ کہ ہمیں ہرطرح کی تکلیفیں دیں گئیں مگر ہم اپنے کام سے لگے رہے،ہم نے تمام تکلیفیں برداشت کیں اور عوام نے بھی ہمارا بڑا ساتھ دیا۔ہم جہاں جاتے تھے ہمارا والہانہ استقبال ہوتا تھا اور ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی تھی جبکہ ہمارے جاننے والے وڈیرے اور سیاسی رہنماہم سے کوسوں دور بھاگ رہے تھے ۔خیر،ان کی جگہ نئے نئے لوگ شامل ہوتے گئے۔پہلے معراج محمد خان آئے پھرڈاکٹر مبشر حسن آئے ۔جے اے رحیم تو بھٹو صاحب کے ساتھ پہلے ہی رہ چکے تھے ،وہ بھی آشامل ہوئے ۔غلام مصطفی کھر کومیں لیکر آگیا۔وہ پہلے نواب کالا باغ کے ساتھ ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب اور نواب کالا باغ کی آپس میں بنتی نہ تھی۔مصطفی کھر کونواب کالا باغ نے قومی اسمبلی کا رکن بنوایا تھا۔ میں بھی لاڑکانہ سے بلامقابلہ منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچا ہوا تھا ،جہاں میری کھر کے ساتھ دوستی ہوئی ۔اس وقت ہم دونوں قومی اسمبلی کے کم عمر ارکان تھے، اس لئے ہماری آپس میں خوب بنتی تھی لیکن بھٹو صاحب کھر کو پسند نہیں کرتے تھے ۔مگر کھر کوکیونکہ میں ان کے پاس لیکر گیا تھا ،اس لئے بھٹو صاحب نے کافی بحث کے بعد میری بات مان لی اور کھر کو پیپلز پارٹی میں شامل کرلیا گیا ۔اس طرح مصطفی کھر نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لئے اچھا کام کیا اور ہم چھ لوگ تھے، جنہوں نے پیپلز پارٹی کی ابتداء کی۔ ہم پورے ملک میں دورے کرتے پھرتے تھے ،اچھے لوگوں کو پارٹی میں شامل کرتے تھے اور عوام میں نئی پارٹی کا تعارف کرواتے تھے ۔ہم لوگوں کے دروازوں پر جاتے،بازاروں میں جاکردکانداروں سے بات چیت کرتے اور ان کو نئی سیاسی پارٹی کا ممبر بناتے ،بااثر لوگوں کے پاس بھی چل کر جاتے،تعلیمی اداروں میں جاتے تو طلباء کو اپنی پارٹی سے متعلق بتاتے تھے۔ اس طرح ہم لنڈی کوتل سے لے کر چٹا گانگ تک سفر کرتے تھے اور گھوم پھر کے واپس کراچی آتے تھے ۔یوں ہم نے مشرقی اور مغربی پاکستان میںپیپلز پارٹی کو مضبوط کیا ۔ان دنوں ایوب حکومت کی جانب سے پریس پرسینسر شپ عائد ہوتی تھی، اس لئے ہماری سیاسی سرگرمیوں کی کوریج اخبارات میں بہت ہی کم آتی تھی۔ صرف ایک اخبار نوائے وقت ایسا تھا جوہمیں اور ہماری سرگرمیوں کو رپورٹ کرتا تھا ۔اس کے بھی اشتہارات وغیرہ اس پاداش میں بند کردیئے گئے تھے کہ وہ پیپلز پارٹی کوکوریج کیوں دے رہے ہیں؟
سندھ سے شائع ہونے والے ایک سندھی اخبار نے بھٹو صاحب اور پیپلزپارٹی کے خلاف بہت سخت مہم چلائی تھی ۔انہوں نے یہاں تک بھٹو صاحب کے کردار کشی کی کہ لکھا کہ بھٹو صاحب ہندو ہیں اور ان کا نام سیتا رام ہے ،ان کی جائیدادانڈیا میں ہے اور ان کے پاس پاسپورٹ بھی انڈیا کا ہے ۔یہاں تک کہ یہ اخباربھٹوصاحب کو گالیاں تک لکھ دیتا تھا ۔ان دنوں ایک بار میں اور بھٹو صاحب کراچی سے لاہور طیارے میں جارہے تھے کہ اسی پرواز میں میں عبرت اخبار کے مالک قاضی اکبر بھی سوار تھے توبھٹو صاحب نے اس کوبہت بے عزت کیا اور بہت گالیاں دیں کہ تمہارا اخبارایوب خان سے کتنے پیسے لے کر میری کردار کشی کررہا ہے ۔بھٹو صاحب، قاضی کو مارنے کے لئے بھی باربار اٹھتے تھے لیکن میں انہیں روک لیتا تھا کہ سائیں! چھوڑیں لوگ کیا کہیں گے، آپ کی بدنامی ہوگی ۔جب 1970ء والے الیکشنز ہوئے تھے، اس میں بھی اس اخبار نے ہمارے خلاف سخت مہم چلائی تھی، اس لئے اس اخبار کا مقابلہ کرنے کے لئے بھٹو صاحب نے سندھی روزنامہ ہلال پاکستان اخبار جاری کروایا تھا ۔اس کے بعد تو مقابلہ سخت ہوگیا ،دونوں اخبار گالیوں کی باقاعدہ مہم چلاتے تھے۔ وہ عبر ت اخبار میں ہمیں گالیاں دیتے تھے اور ہمار ے ہلال پاکستان میں ان کو گالیاں دی جاتی تھیں۔
خیر، یہ سلسلہ چلتا رہا اورپیپلز پارٹی آگے بڑھتی گئی۔اس دوران ایوب خان نے مجھے بلوایا کیونکہ میں تب تک قومی اسمبلی کا رکن تھا اوروہ ملک کے حکمران تھے۔میں اسمبلی اجلاسوں میں باقاعدہ جاتا تھا لیکن وہاں خاموش بیٹھا رہتا تھا تو مجھے گورنر ہائوس کراچی سے فون آیا کہ ایوب خان ملنا چاہتے ہیں ،آپ گورنر ہائوس آجائیں۔ میں نے بھٹو صاحب کو بتایا تو وہ پریشان ہوگئے اور مجھے کہنے لگے کہ تم جائو لیکن سیدھے واپس میرے پاس آنا ۔میں گورنر ہائوس میں جاکر ایوب خان سے ملا ،اس نے پہلے تو مجھے دبانے کی کوشش کی لیکن میں ان دبائو میں نہ آیاتو وہ کہنے لگا کہ میں نے بھٹو کو بیٹا بناکر رکھا ہوا تھا لیکن وہ بھی ایسا ہی نکلا مگر تم ان کے نقش قدم پر نہیں چلنا۔ میں خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا اور جب اس نے باتیں ختم کرلیں تو میں نے اس سے پوچھا کہ سائیں! میں جائوں؟۔اس نے کہا کہ ہاں تم جائو۔وہاں سے سیدھا بھٹو صاحب کے پاس پہنچا۔ وہ گرمیوں کا موسم تھا، بھٹو صاحب باہر برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے اور پسینہ پسینہ ہوئے جارہے تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ فکر مند نہ ہوں، میں کوئی موم کا بناہوا نہیں ہوں کہ ایوب خان مجھے پگھلادے گا ۔اس کے بعد ہم نے ایوب خان کے خلاف مہم کا باقاعدہ آغاز کرلیا ۔ میں نے اسمبلی میں ایوب خان کے خلاف سخت تقریر کی حالانکہ تب تک میں حکومتی بینچز پربیٹھتا تھا ۔سب ارکان اسمبلی سناٹے میں آگئے کہ یہ کیا ہورہا ہے ،کیونکہ ایوب خان کی حکومت میں ان کے خلاف کوئی بول نہیں سکتا تھا ۔
دوسرے دن تمام اخبارات میری تقریر کے حوالے سے بھرے ہوئے تھے اور اس موضوع پر ایڈیٹوریل تک لکھے گئے تھے۔ڈان اخبار میں انیس مرزا خاتون رپورٹر ہوا کرتی تھیں جواسمبلی کور کرتی تھیں۔ انہوں نے میری تقریر سے متعلق بہت بڑا کالم لکھا۔میری اس تقریر کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو مسلم لیگ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن ایوب خان کی پالیسیوں سے خوش نہ تھے ،ان کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے بھی بولنا شروع کیا ۔ اس کے نتیجے میں مسلم لیگ میں پہلی مرتبہ ایک دھڑا بن گیا، جس میں بنگالی اور بہاری شامل تھے ،جنہوں نے مجھ سے رابطہ کرکے کہا کہ آپ ہماری قیادت کیجئے۔ میں نے کہا کہ بھائی ہماری اپنی پارٹی موجود ہے،میں جس میں شامل ہوں ۔بہرحال وہاں سے مسلم لیگ کنوینشنل اور ایوب خان کا زوال شروع ہوا۔ایک بار 1968ء میں ہم ڈیرہ اسماعیل خان میں تھے، جہاں نے پیپلزپارٹی کا بڑا جلسہ کرنا تھا ۔وہاں عوام نے بہت ساتھ دیا مگر حکومت نے دفعہ 144لگادی اور پولیس عوام پر پل پڑی ۔عوام پر لاٹھی چارج کی گئی اورآنسو گیس کے گولے فائرکئے گئے ۔یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ایوب گورنمنٹ میں عوام اور پولیس آمنے سامنے آگئے تھے۔ اس شام ہم لوگ چار سدہ آگئے ،جہاں حیات محمد شیر پائو کے گھر پر ہم لوگ ٹھہرے تھے ۔وہاں رات کو بھٹو صاحب نے پروگرام بنایا کہ اسلام آباد میں جلسہ ہونا چاہئے اور ہمیں آرڈر کیا کہ آپ لوگ اسلام آباد جاکرانتظامات کریں۔میں اورغلام مصطفی کھرکچھ دن پہلے ہی اسلام آباد آگئے اور جو ہمارا طریقہ کار تھا، اس کے مطابق کام شروع کردیا۔
ہم لوگ مختلف یونینزکے پاس جاتے تھے اور ان کو جلسے کی دعوت دے کرشمولیت کے لئے قائل کرتے تھے۔اس کے نتیجے میں بہت بھرپور جلسہ ہوا،روڈ رستے لوگوں سے بھر گئے تھے۔ ایوب خان کے خلاف لوگوں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا ۔اس جلسے کی تیاریوں کے دوران میں ہوائی جہاز میں کراچی سے اسلام آباد جارہا تھا۔ اسی طیارے میں سیٹھ احمددائود بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تم لوگ ایوب خان کے خلاف کیا کرتے پھر رہے ہو؟یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے؟۔اس نے مجھے انگوٹھا دکھا کر کہا کہ تم ایوب خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔اس کے بعد جب ہم لوگ اسلام آباد کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں آئے، جہاں بھٹو صاحب ٹھہرے ہوئے تھے تو وہاں لوگوں کا بے تحاشہ رش تھا۔وہ بھٹوصاحب کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے۔ پولیس کے ساتھ لوگوں کی جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں ،ہم لوگ باہر نکل کر لوگوں کو صبر کی تلقین کررہے تھے کہ بابا شور نہ کرو اور قانون کو ہاتھ میں نہ لو۔ مگروہ لوگ بے قابو ہورہے تھے ۔سیٹھ احمد دائود نے جب یہ مناظر دیکھے اور محسوس کیا کہ ایوب خان کی قربت کے باعث لوگ اس پر بھی سخت ناراض ہیں تو اس کا چہرہ اتر گیا اور وہ میرے پاس آکر خوشامدانہ انداز میں کہنے لگا : ممتاز بھائی! عوام تو آپ کے ساتھ بہت زیادہ ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ سیٹھ! اسی طریقے سے انگوٹھا دکھائو، جیسے تم جہاز میں کررہے تھے اور بول رہے تھے کہ تم لوگ کیا کرلوگے؟۔
ایک دلچسپ بات اور سن لیں کہ حاکم زرداری بھی وہاں موجود تھے، جو ان دنوں سینما وغیرہ بنانے اور چلانے کے لئے آفیسروں کی خوشامد کرتے پھرتے تھے۔ اس کی گاڑی جو ہوٹل کے باہر کھڑی تھی۔ اس کا حلیہ ہجوم نے بالکل بگاڑ دیا تھا۔ اس نے اپنی گاڑی بچانے کے لئے دو تین بار کوشش کی لیکن مشتعل نوجوانوں نے اس کو دھکے دے کر بھاگنے پر مجبور کردیا ۔اس آکر مجھے گزارش کی کہ مجھے گاڑی لے کردو کیونکہ مجھے اپنے کام سے جانا ہے ، ورنہ میرا بہت نقصان ہوجائے گا۔ میں اسے لے کر باہر آیا اور مشتعل نوجوانوں کو ہٹاکر اسے گاڑی میں بٹھاکر روانہ کردیا ۔بھٹو صاحب وہاں تقریباً چھ سات گھنٹے تاخیر سے پہنچے تھے، ان کے رستے میں مختلف مقامات پر لوگ انہیں روک لیتے تھے ۔اس دن پولی ٹیکنیک کالج کے پاس پولیس اور طلباء میں تصادم بھی ہوا تھا، جس میں ایک طالبعلم مارا گیا تھا ۔یہ خبرجب جلسہ گاہ میں پہنچی تو لوگ اشتعال میں آگئے اور انہوں نے پولیس اور دیگر فورسز پر پتھرائو شروع کردیا۔وہ رات ہم نے وہیں اسلام آباد میں گزاری اور دوسرے دن لاہور روانہ ہوئے۔ پورے راستے میں ہر شہر ہر قصبے پر لوگوں کے ہجوم تھے جو بھٹو صاحب کا استقبال کرنے اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے امنڈ آئے تھے۔ لاہورہم رات میں پہنچے تو ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا لیکن اسٹیشن پر لوگوں کا رش بہت زیادہ تھا ۔وہ نہ صرف ٹرین کے اندر گھس آئے تھے بلکہ چھت پر بھی سوار ہوگئے تھے۔ بھٹوصاحب اور میں ڈاکٹر مبشر کے گھر پہنچے، جہاں ہمارے ٹھہرنے کا بندوبست تھا لیکن وہاں رات کو 2بجے پولیس نے ریڈکرکے ہم لوگوں کو گرفتار کرلیا۔
بھٹو صاحب کو میانوالی جیل میں رکھا گیا جبکہ مجھے،مصطفی کھر اورڈاکٹر مبشر حسن کو ساہیوال جیل میں بند کیا گیا۔مہینہ بھر ہمیں قید رکھا گیا، اس کے بعد مقدمہ شروع ہواتوہم پٹیشن فائل کی اور آزاد ہوگئے لیکن بھٹو صاحب کو قید رکھا گیا ۔ہم لوگوں نے باہر نکل کر ایک بار پھر پارٹی کے کام شروع کردیا اورکچھ عرصے بعد جب بھٹو صاحب آزاد ہوکر ہمارے ساتھ آکر شامل ہوئے توپارٹی بہت آگے بڑھ گئی اور عوام کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی شخصیات بھی پارٹی میں شامل ہونے لگیں۔ بھٹو صاحب نے پورے ملک کے دورے کرکے انتخابی مہم شروع کردی۔ ہمیں امید تھی کہ الیکشن میں 40-50سیٹیں لے آئیں گے مگر جب نتائج آئے تو ہم نے 82سیٹیں حاصل کی تھیں۔اس طرح مغربی پاکستان میں ہماری اکثریت ہوگئی اور مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کو اکثریت حاصل ہوئی ۔اب یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ گورنمنٹ کیسے فارم کی جائے؟ کیونکہ اس طرف پیپلزپارٹی آئی تھی اور دوسری جانب عوامی لیگ جیت کرآئی تھی۔ اس دوران ایوب خان مستعفی ہوگئے تھے اوراقتدار یحییٰ خان کے حوالے ہوچکا تھا۔ اس کے باوجود ملک میں مارشل لاء تھا، تمام فیصلے فوجی حکومت کررہی تھی ۔عوامی لیگ والے یحییٰ خان کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے اور یحییٰ خان کا خیال تھا کہ وہ لوگ ڈھاکہ میں اجلاس بلوائیں مگر ہمارا موقف یہ تھا کہ اگر ایسا ہوا تو وہ عوامی لیگ والے علیحد گی کا اعلان کردیں گے اوراس کے بعد پورا تنازعہ ہمارے گلے پڑ جائے گا، لوگ ہمیں ذمہ دار ٹھہرائیں گے کہ ہم نے پاکستان کے دو ٹکڑے کردیئے حالانکہ اکثریت میں مجیب الرحمن کی پارٹی تھی اور یہ فیصلہ ان لوگوں نے کیاتھا۔ اس لئے سوچا گیا کہ اسمبلی کا بائیکاٹ ہونا چاہئے لیکن اس پر ایک غلط خبر اڑادی گئی کہ بھٹو صاحب نے بیان دیا ہے کہ” اِدھر ہم اُدھر تم”۔حالانکہ ہم میں سے کسی نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔ یہ جلسہ نشتر پارک میں ہوا تھا ،اس کے حوالے سے یہ خبر بنوائی گئی تھی۔ اس جلسے میں بھٹو صاحب نے یہ کہا تھا کہ ابھی ہم مجیب کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں،کیونکہ ادھر ہم جیتے ہیں اور ادھر وہ جیتے ہیں۔ اس لئے جب کسی نتیجے پر پہنچیں گے تب اعلان کریں گے اور اس کے بعد ہی اسمبلیوں میں جائیں گے۔
مجیب کے چھ نکا ت میں سے بیشتر پر بھٹو صاحب نے اتفاق کیا تھا، صرف دو پوائنٹ ایسے تھے، جن پر اعتراض تھا ۔وہ فارن ایکسچینج اور فارن ٹریڈ کے نکتے تھے ۔عوامی لیگ کا خیال تھا کہ یہ دونوں مشرقی اور مغربی پاکستان الگ الگ کریں جبکہ بھٹو صاحب کو اس پر اعتراض تھا۔ہماری ٹیم مذاکرات کے لئے یحییٰ خان کے پاس گئی ہوئی تھی لیکن اس سے پہلے ہی مشرقی پاکستان میں فسادات شروع ہوگئے تھے اور جنگ بھی چھڑ ہوگئی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، یہ تاریخ کا حصہ ہے اور سب کو معلوم ہے ۔جنگ کے دوران ہی ہم ڈھاکہ سے واپس آگئے تھے ۔وہاں بڑے مظالم ڈھائے گئے ،آخرکارملک ٹوٹ گیا۔ یہاں پر یحییٰ خان اقتدار میں تھے اور ملک توڑنے کی پوری ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی تھی۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی شکست کسی نے نہ دیکھی ہوگی کہ ہمارے 92ہزار فوجی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ ہمارے جنرل نیازی نے پلٹن میدان میں بھارتی جنرل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔یہاں لوگوں میں بڑی تلخی آگئی تھی اور علیحدگی کی مقامی تحریکیں ابھرآئی تھیں۔ سندھ میں سندھو دیش والوں نے ،بلوچستان میں گریٹر بلوچستان والوں اورسرحد میں عوامی نیشنل پارٹی نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی تھیں۔یحییٰ خان کے خلاف لوگوں کا غصہ بڑھتا چلا گیا اورباقی ماندہ پاکستان کے مشتعل لوگ سڑکوں پر آگئے تھے۔ انہوں نے ایوان صدر کو گھیر لیا، جس پریحییٰ خان نے گھبراکر اقتدار بھٹو صاحب کے حوالے کردیا ۔بھٹو صاحب صدر ہوگئے ،مجھے سندھ کا گورنر بنایا گیا۔پنجاب میں غلام مصطفی کھر گورنر ہوگئے ،صوبہ سرحد میں حیات محمد شیر پائو کو لایا گیا اوربلوچستان میں نواب غوث بخش رئیسانی کو ذمہ داری دی گئی تھی۔ سندھ میں ان دنوں بہت بڑے بحران سر اٹھارہے تھے ،لسانی بل،مزدور تحریک اور دیگر مسائل سامنے آرہے تھے ۔ اسی لئے پہلے کے فیصلے کے برعکس غلام مصطفی جتوئی کو صوبائی سربراہ نہ بنایا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ سندھ میں کوئی سخت گیر منتظم لایا جائے، اسی لئے سندھ میں مجھے ذمہ داری دی گئی ۔
میں نے انتظام سنبھالنے کے بعد ان تمام مصیبتوں کا مقابلہ کیا ،پہلے مزدوروں کی جو مہم جوئی چل رہی تھی اور انہوں نے صنعت کاروں کے کارخانوں پر قبضہ کرلیا تھا ،ہم نے اس مسئلے کو حل کیا اس کے بعد لینگویج بل پر فسادات ہونے لگے، سندھی قوم پرستوں کا مطالبہ تھا کہ سندھی کو قومی زبان بنایا جائے کیونکہ یہ زبان دیگر بولیوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے اوراردو توان کے بقول اس ملک کی زبان ہی نہیں،ریونیو ریکارڈ پورا سندھی میں مرتب شدہ تھااور عدالتوں میں کارروائی بھی سندھی زبان میں چلائی اور لکھی جاتی تھی ۔انگریزوں نے ابتداء ہی سے سندھی کو دفتر زبان بنالیا تھا۔ اس لئے سندھی قوم پرستوں کے یہ مطالبات سامنے آئے تھے۔ بہرحال اس کا بھی ہم لوگوں نے مقابلہ کیا ، شہروں میں امن وامان برقرار رکھنے کے لئے ہر کوشش کی۔ آخرکار ہم نے حالات پر بھی قابو پالیا ۔
میں نے کراچی کو ترقی دینے کے لئے پہلی بار باقاعدہ پلاننگ کی۔ اس سے پہلے کراچی میں صرف ایک کثیر المنزلہ عمارت حبیب بینک پلازہ ہوتی تھی، میں نے کئی عمارتوں اور بلند بلڈنگوں کی تیاری کے اجازت نامے جاری کئے ،کلفٹن کا پورا علاقہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ میں نے تیار کروایا اوردوسال بعد جب میں نے چارج چھوڑا تو کراچی ایک جدید شہردکھائی دیتا تھا” ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply