موجودہ اُمت کی تاریخی موت ۔۔۔ ابراہیم جمال بٹ

سننے میں آیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر قیامت 2012 ءمیں ٹوٹی جب ساحلی صوبہ ”راخین“ میں یہ خبر پھیل گئی کہ کسی ”روہنگیا“ نے ایک ”بودھ لڑکی“ کے ساتھ زیادتی کر کے اس کی عزت تار تار کر دی۔ حقیقت سامنے آتے آتے 200کے لگ بھگ روہنگیا جان بحق، ایک لاکھ چالیس ہزار بے گھر اور پچاس ہزار سے زائد بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں میں پناہ گیر ہوگئے۔تب سے لے کر آج تک کوئی مہینہ نہیں گزرا کہ ”راخین“ صوبہ سے جہاں روہنگیا کااقلیتی تناسب 25فیصد کے لگ بھگ ہے کسی نہ کسی پرتشدد اور نسلی واردات کی خبر نہ آتی ہو۔ حالاں کہ جس واقعہ کو بہانہ بن کر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا یا اب بھی کیا جا رہا ہے اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی، بلکہ یہ ایک سازش تھی جو ان لوگوں نے رچی جو روہنگیا کو ملک بدر کرنے کے درپے تھے۔ قانونی طور پر بھی اس واقعہ کی کوئی تصدیق نہیں ہو پائی ،اس من گھڑت واقعہ کی چھان بین کے بعد یہ معلوم ہی نہیں ہو پایا کہ اس غلط کاری میں کون لوگ ملوث تھے۔ اصل ہدف روہنگیا تھے اسی لیے فوراً ہی دو سال بعد قانون کے تحت برما میں ”روہنگیا“ کی اصطلاح پر ہی پابندی لگا دی گئی ۔

حقیقت یہ ہے کہ وہاں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر کبھی تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔برما کی فوجی حکومت نے 1982 کے سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے مسلمان اور برما میں موجود دوسرے 10 لاکھ چینی و بنگالی مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کر دیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا۔ 1982 کے اس قانون کے تحت یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ 1823 سے قبل بھی یہاںرہتا تھا۔ حالاں کہ روہنگیا مسلمانوں میں اکثریت برصغیر کی مشرقی ریاستوں اور بنگالیوں پر مشتمل ان مسلمانوں کی ہے جو جنگ آزادی 1857 کے بعد گرفتاریوں سے بچنے کے لیے وہاں چلے آئے تھے۔

مختلف بہانے تراش کر آج روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے اس کی  حقیقت ”مسلم دشمنی “ہے ۔ اقوام عالم ان حالات سے بے خبر نہیں ہیں تاہم انہوں نے ان حالات میں خاموشی کا ہی کیوں سہارا لیا؟ اور عملاً ان کی جانب سے کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک اہم وجہ مسلم دشمنی ہے۔ عالمی سطح پر فی الوقت مسلم دشمنی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہو رہا ہے؟ کشمیر میں مسلمانوں کی جانوں کے ساتھ کیوں کھلواڑ ہو رہا ہے؟ فلسطین، مصر، سوڈان، عراق، چیچنیا، داغستان اور باقی کئی مسلمان ممالک میں خون مسلم کو کیوں بہایا جا رہا ہے؟ اور اتنا خون بہانے کے بعد بھی اقوام عالم خاموش تماشائی کیوں بنے ہوئے ہیں…. صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی قومی اور لسانی یا کسی ظلم واستحصال کی جنگ نہیں بلکہ یہ مسلم دشمنی پر مشتمل کھیل ہے، جس میں ہر طرف سے کمزور مسلمان کا قتل عام ہو رہا ہے۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس سارے منظر کو جو پوری طرح عیاں وبیاں ہے پر مسلم ممالک بھی خاموشی اختیار کئے جا رہے ہیں، کیوں….؟ کئی مبصرین کا ماننا ہے کہ آج کی اس دنیا میں مسلمانوں پر اس قدر خوف طاری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے بھائی، اپنے قریبی رشتہ دار اور اپنے پڑوسی کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ نہیں کر پاتے کیوں کہ ان پر خوف طاری ہو چکا ہے ۔ کسی کو بادشاہت کے چھن جانے کا خوف، کسی کو وزارت سے ہاتھ دھونے کا خوف، کوئی خود کو محفوظ رکھنے کے لیے خاموشی اختیار کیےہوئےہے۔ غرض اس خوف اور لالچ کی وجہ سے مسلم ممالک دنیا کی محبت اور موت کے خوف کی وجہ سے آج ذلیل وخوار ہو چکی ہے، یہ عام مسلمان نہیں بلکہ وہ حکمران ہیں جو مسلمانوں کے سروں پر سوار ہو کر ان کے سروں کا ہی کھیل کھیل کر اپنی کرسی پر براجمان رہنے کے متمنی ہیں۔ عوامی سطح پر کوئی بھی ایسا مسلم ملک نہیں جہاں لوگ بےدار نہ ہوں۔ آج مسلمانوں کے ساتھ جہاں بھی ظلم واستحصال ہو رہا ہے اس کا درد پوری امت کو ہو رہا ہے جسے پوری دنیا محسوس بھی کرتی ہے کہ کس طرح روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر برسراحتجاج ہو رہی ہے البتہ اس بٹی ہوئی امت پر عیاش اور لالچی حکمرانوں کا طبقہ جو دنیا کی محبت اور موت کے خوف میں پوری طرح پھنس چکے ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم آج روا رکھا جا رہا ہے اس پر قابو پانا کوئی ناممکن سی بات نہیں ہے، اگر ملت اسلامیہ کے بکھرے ہوئے دانے ایک مالا میں پرو دئے جائیں ،فی الوقت کم از کم ایک جگہ بیٹھ کر اپنی خاموشی توڑ دے تو ان کی ایک آواز میں ایسی طاقت ہے جو کسی بھی ظلم واستحصال کا  راستہ روک سکتی ہے۔

مسلمان امت ہے اور اس امت کو ایک جسم کے مانند کہا گیا ہے۔ جسم کے ایک حصے پر زخم لگے اور دوسرا درد محسوس نہ کرے، ہو ہی نہیں سکتا۔ مسلمان جب امت بن کر جی رہی تھی تو پوری دنیا نہ صرف سرنگوں تھی بلکہ وہ  ان کے عدل وانصاف کی داد دیا کرتے تھے، تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم مسلموں کے ہاں باجگذاری کو فخر تصور کیا جاتا تھا، کیوں کہ مسلمانوں کے عدل وانصاف پر مبنی قانون میں ان کے محفوظ رہنے کی ضمانت تھی، انہیں سمجھ آگئی تھی کہ کہیں ہمیں اگر انصاف مل سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس امت کے پاس ۔ لیکن وائے افسوس شاطروں کی سازشیں اور اپنوں کی سادہ لوحی کی وجہ سے امت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا، امت اس قدر ٹکڑے ٹکڑے کر دی گئی کہ آج اس کے پچاس سے زیادہ حصے ہو چکے ہیں بلکہ ”ہل من مزید“ کے طور پر کئی ایسے ممالک بھی ہیں جہاں غیروں کی کارستانیاں اس قدرہو رہی ہیں کہ اور کئی حصے ہونے کا احتمال ہے۔

یہ امت اس قدر بکھر چکی ہے کہ درد کیا کسی کی خوشی بھی برداشت نہیں کر پا رہی ہے۔ ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک کے خلاف کاروائیاں کر نے میں پیش پیش رہتا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے عالمی حالات جب سامنے رکھتے ہیں تومسلمان حکمران اپنی اپنی ڈفلی بجائے نظر آتے ہیں۔ پاکستان جب دہشت گردی کی لعنت سے پاک تھا تو ”امریکہ بہادر“ نے پاکستانی زمین استعمال کر کے افغانستان پر اپنا نزلہ اُتارا، جسکے نتیجے میں آج تک لاکھوں کی تعداد میں افغان مارے گئے، پاکستانی حکمرانوں کا تماشائی بن کر دشمن کے ہاتھوںمیں ہاتھ ڈالنا ہی تھا کہ امریکہ بہادر کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا کہ تب سے لے کر آج تک پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانیں تلف ہو گئیں ہیں۔ یہ اپنوں سے دشمنی اور غیروں سے دوستی کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟ مصر میں قابض جنرل سیسی نے حکومت کی کایا پلٹ کر جب آمریت کا نقاب پہن لیا تو یہ اسلامی ممالک ہی تھے جن میں خاص کر عرب ممالک جنہوں نے چپ سادھ لی، اخوان المسلمون کے جیالے جن کا مقصد صرف اور صرف اسلام تھا، ابھی اسلام عملی صورت میں آیا ہی نہیں تھا بلکہ اسلام پسند لوگ ہی سامنے آئے تھے کہ ان پر غیروں نے نہیں اپنوں نے ستم ڈھائے، دور عرب ممالک میں بیٹھے عیاش اور مرعوبیت زدہ مسلم حکمرانوں نے نہ صرف تماشا دیکھا بلکہ پیٹھ پیچھے اس شخص کی مدد کی جو مصر میں خون کی ہولی کھیل رہا تھا۔ افغانستان میں مسلمان مرتے رہے ، مسلم ممالک سے وابستہ حکمران دیکھتے رہے، فلسطین میں مسلمان کٹتے جا رہے ہیں اور ان کی جدوجہد کو غیر تو غیر اپنے آس پاس کے مسلمان ممالک دہشت گردی کا لیبل لگارہے ہیں۔ یہ وہی فلسطین ہے جہاں کی جدوجہد صرف فلسطین کی جدوجہد نہیں بلکہ یہ عرب ممالک کی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیر میں خاک اور خون کا کھیل نصف صدی سے زائد عرصہ سے جاری ہے اور مسلم ممالک ”او آئی سی“ میں بناوٹی ہاہاکار مچا رہے ہیں۔ دور تماشائی بنے اس خواب خروش میں بیٹھے ہیں کہ ”ہم صحیح سلامت “ ہیں۔ عراق میں امریکہ داخل ہوا تو مسلم ممالک خاموش، امریکہ کی بے جامداخلت کے لیے بہانہ تراشا گیا اور پورے عراق کو خون آلود کر دیاگیا۔ آج بھی وہاں اسی صورت حال کا سامنا ہے لیکن مسلم ممالک کے حکمران دور تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں مسلمانوں کو ظالم حکومت تہہ تیغ کرنا چاہتی ہے اور اس کے پڑوسی مسلم ممالک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح باقی دوسرے مسلم ممالک کا حال دیکھئے ہر جگہ مسلمان بکھرے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی مسلمان عربیت کے نشے میں چور ہے، توکوئی زبان اور رنگ کے نشے میں چور، کوئی تیل کے ذخائر سے مالامال ہو کر اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو کمتر درجہ دینے جیسے نشے میں چور۔ غرض آج مسلم ممالک سے وابستہ حکمرانوں کا ٹولہ بک چکا ہے، ان پر اس قدر خوف طاری ہو چکی ہے کہ وہ اس سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ انہیں اپنی کرسی اور بادشاہت اس قدر لبھا رہی ہے کہ اس کے لیے اگر آنکھوں پر پٹی ہی باندھنے پڑے تو وہ بھی کر لیتے ہیں۔ اسی خوف کی وجہ سے آج روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہوتے ہوئے بھی دیکھا جارہا ہے۔ کوئی کچھ نہیں کر پاتا البتہ اگر کوئی مقدور بھر کوشش کرے تو اس کی شاباشی کے بجائے اس کے عملی اقدام کو دکھاوا کہا جاتا ہے۔ اصل میں یہ سب کچھ اسلام کے بنیادی ارکان سے دوری کے نتیجے میں نہیں بلکہ پورے اسلام سے نظریں پھیر دینے کا نتیجہ ہے۔ اسلام کو جب سے ”بحیثیت نظام زندگی “ہم نے تسلیم نہیں کیا تو ہمارے اندر قومیت پیدا ہوئی، ہم فرقوں میں بٹ گئے، ہم شاخوں کو ہی کُل اسلام سمجھنے لگے اور اس طرح ہم روز افزوں بٹتے گئے اورآج حال یہ ہے کہ ہم نہ صرف بکھر گئے بلکہ ایک دوسرے کے دشمن بھی ہو گئے۔

بکھری ہوئی اس امت کا علاج صرف اور صرف اسی نظام زندگی میں ہے جسے ہم کہیں چھوڑ چکے ہیں۔ بکھری ہوئی اس سیسہ پلائی ہوئی امت کا دانہ دانہ اگر ایک مالا  میں پھر سے جمع ہو جائے تو یہ مالا نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کی گردن کی زینت بن سکتی ہے، یہ نہ صرف مسلمانوں کی عزت ووقار کو بحال کر سکتی ہے بلکہ ایک مرتبہ پھر عوام الناس کو خیر وعافیت ، عدل وانصاف کا ماحول فراہم کر سکتی ہے۔ یہ کوئی جذباتی دعویٰ نہیں بلکہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے اس کا اداراک چاہے کوئی کرے یا نہ کرے، تاہم تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں جس میں اسلامی نظام کے وہ درخشندہ باب درج ہیں ، اسلام کس طرح اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں کا غم خوار، عدل وانصاف کا عملی دعوے دار اور اخلاق ومعاشرے کا عملی نمونہ دکھاتا ہے، یہ سب کچھ تاریخ کے اوراق میں سنہرے الفاظ میں موجود ہے۔ ضرورت ہے اس ”نظام حیات“ کو صحیح طور سمجھنے کی ،پھر سے ایک مضبوط مالا بننے کی۔

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین

ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

Advertisements
julia rana solicitors london

٭٭٭٭٭

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply