کرونا وائرس اور ہمارا عمومی رویہ۔۔محمد ہاشم

دو سال قبل 2019 میں چائنہ کے شہر ووہان میں کرونا وائرس (Covid19) پھیلا تو ہمارا عمومی رویہ یہ تھا کہ ایک شہر میں کسی Breach کی وجہ سے ایک مہلک وائرس پھیلا ہے جس کو کنٹرول کیا جائے گا۔ لیکن جب اس کا پھیلاؤ دوسرے ممالک تک پہنچا اور اس کی ہلاکت خیزیاں شروع ہوئیں ، تو جیسے دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ میڈیکل سائنس نے تحقیق شروع کی اور سردست یہ حل نکالا گیا کہ جب تک اس پُراسرار وائرس کی تحقیق کے بعد کوئی ویکسین تیار نہیں کی جاتی، آپس میں سماجی فاصلہ رکھیں اور اس وائرس کو ایک سے دوسرے تک پھیلنے سے روکیں۔

جب پاکستان میں اس وائرس کی پہلی لہر آئی تو مکمل لاک ڈاؤن  لگا دیا  گیا۔ اس لاک ڈاؤن میں لوگ گھبراہٹ کا شکار ہوئے اور ڈر کا ایک خوفناک سناٹا چہار سُو پھیل گیا۔
ایسے میں ہماری عوامی رائے  کچھ یوں  تھی کہ اکثریت اس کو یا تو کسی سازش سے جوڑ رہے تھے  یا پھر سِرے سے کرونا وائرس کو ماننے سے ہی انکاری تھے۔ پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھے کہ جو حضرات انکاری تھے انہی کے گھروں سے ان کے عزیز یا وہ خود اس وائرس کا شکار ہوئے۔

جب پہلی لہر کا اختتام ہوا تو جو لوگ اس کا شکار ہوئے تھے وہ تو مان گئے لیکن عمومی رائے پھر سے وہی روایتی گھسی پٹی رہی کہ کرونا تو ہے ہی نہیں یہ مغرب کی سازش ہے۔
چند ایک مذہبی حضرات اور مولویوں نے یہ شور ڈالا کہ ہماری مساجد کو ویران کرنے اور مکہ مدینہ کو بند کرنے کے لئے یہود نے سازش رچائی ہے۔

اب جب اس کی ویکسین آئی تو زید حامد اور اس جیسے دوسرے فلاسفر اس افواہ کے پیچھے پڑے ہیں  کہ انگریز اس ویکسین سے ہمارے جسم اور ڈی این اے میں ایسی کوئی تبدیلی کریں گے جس سے ہماری نسلیں تباہ ہونگی۔

ان جہلا کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ مغربیوں کو آپ کا ملک بند کرنے سے کیا فائدہ ہونا ہے۔ اس سے انکا ہی سب سے زیادہ نقصان ہورہا ہے۔ میکڈونلڈز، برگر کنگ اور KFC جیسے کئی ملٹی نیشنل فوڈ چینز جوکئی سو بلین ڈالرز کماتے ہیں، بند پڑے ہیں۔ اٹلی اور سوئٹزرلینڈ جسے کئی یورپی ممالک جن کی اکانومی اہم ترین حصہ سیاحت سے ہے، بند پڑی  ہیں اور شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ عالمی ائیر لائنز کو بلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور یہاں ہم  سوچ رہے ہیں کہ یہ  ہماری عبادت گاہیں  بند کرنے کی سازش ہورہی  ہے۔

میرے بھائیو!انگریز کو آپ کی عبادت  گاہیں بند کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، آپ برسوں سے اجتماعات، حج، عمرے، محافل، مجالس تبلیغی دورے کرتے آرہے  ہیں ،یہاں تک کہ مغربی ممالک میں بھی جا کے وہاں کے لوگوں کو تبلیغ کر رہے  ہیں ،کسی بھی  روک ٹوک کے بغیر۔ ۔
اور مجھے اس لاجک کی سمجھ نہیں آرہی کہ بل گیٹس اور انگریز اب ہمارے اندر کیمیکل یا ویکسین کے  ذریعے پتہ نہیں کونسی تبدیلی کریں گے۔ اگر انگریز کو آپ میں کچھ تبدیل کرنی ہوتی تو جو روزانہ پیپسی اور کوکا کولا کے مشروبات پیتے ہیں، جو کہ غریب امیر سب کا مشروب ہے اس میں کچھ ڈال دیتے، کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کیونکہ یہ ساری کمپنیاں انگریز کی ہیں۔

ہماری اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان اور افغانستان دو ممالک ہیں دنیا میں جہاں پولیو وائرس اب تک ختم نہیں ہورہا جس کی وجہ اس کی ویکسین سے انکار ہے کیونکہ بقول انکے پولیو کی ویکسین میں بل گیٹس ایسا کوئی مواد ملا رہا ہے کہ جس سے مردانہ طاقت ختم ہوتی ہے اور انگریز ہماری نسل کشی کرنا چاہتا ہے۔ ہماری پچھلی دو نسلیں یہ ویکسین اور پولیو قطرے پیتی  آرہی ہیں ،مجال ہے کسی کے ہاں 5 یا 6 سے کم بچے ہوں پتہ نہیں کونسی ایسی مردانہ طاقت مزید چاہیے۔

ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کے آج جو حالات چل رہے جہاں شمشان گھاٹ میں ایک چتا پر چار پانچ لاشیں ایک ساتھ جلائی جا رہی ہیں، ہسپتالوں میں بیڈ ناپید ہیں، آکسیجن کی سپلائی کسی طرح سے بھی پوری نہیں ہو رہی اور روزانہ سینکڑوں سے ہزاروں تک اموات کی تعداد پہنچ چکی ہے۔ بھارتیوں کا رویہ ہم سے بھی زیادہ بے احتیاطی والا تھا جہاں تیسری لہر کی شدت کے باوجود سیاسی جماعتوں نے مغربی بنگال ریاستی الیکشنز میں لاکھوں کے مجمعے اکٹھے کئے اور کمبھ کا میلہ جہاں ہندو سارے ہندوستان سے آتے ہیں اس پر حکومت کی طرف سے علامتی رکھنے اور عوامی اجتماع نہ کرنے کی “اپیل” کی تو وہاں کے پجاریوں نے سیدھا انکار کر دیا اور لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ آج ڈیڑھ ارب کی  آبادی والے بھارت میں ہر طرف اموات ہو رہی ہیں اور لوگ بے بسی سے اپنے عزیز و اقارب کو مرتے دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان میں ان دنوں کرونا وائرس کی تیسری لہر اپنے عروج پر ہے لیکن عمومی رویہ کسی طرح سے بھی   سنجیدہ  نہیں۔ ماسک کا استعمال اور سماجی فاصلے کا اہتمام  کہیں نظر نہیں آتا۔
خدارا اس بیماری کو سیریس لیں، ماسک کا استعمال کریں، سماجی فاصلہ رکھیں، باقاعدگی سے ہاتھ دھوئیں اور سب سے بڑھ کراپنے عزیز و اقارب کو ویکسین لگوانے کے لئے جلد سے جلد رجسٹریشن کروائیں۔ ورنہ اللہ نہ کرے ہمارے حالات بھارت جیسے ہوگئے تو ہمارے ہیلتھ سسٹم نے دنوں میں بیٹھ جانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالیٰ ہمیں اس آفت سے نجات عطا فرمائے اور ہمیں عقل و شعور والی قوم بنا دے ،آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply