“شاعر” ممبئی (ستیہ پال آنند خاص نمبر جنوری 2006 سے ایک اقتباس

سوال۔ آ پ کی شاعری عمر بھر تجربوں سے گذرتی رہے ہے۔ آپ اب کس طرح کے تجربوں کے خواہشمند ہیں؟

جواب۔ ایک واحد خواہش ہے کہ “رن-آن-لائنز” ، جس کا چلن ستر اور اسی کی دہائی میں راقم الحروف نے شروع کیا، قبول ِ عام ہو جائے۔ یعنی نظم کی ایک سطر کو غزل کا مصرع نہ سمجا جائے، بلکہ ایک سطر ہی سمجھا جائے اور نفس ِ مضمون و متن کو سطر کے آخر سے تجاوز کر کے دوسری یا تیسری سطر تک یا
کہیں بیچ میں ہی لگاتار بہائو میں آگے جانے دیا جائے۔

مثال کے طور پر بحر رمل کو ہی لیں، جو “فاعلاتن فاعلاتن” کی تکرار ہے۔ رمل مخدوف یا مقصور میں آخر میں “فاعلن” یا “فاعلان” جڑ دیا جاتا ہے، ایسا کرنے سے بوتل کے کاگ کی طرح سطر وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ اور “ر ن۔ آن-سطور” میں جو بہاو کا امکان ہے وہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں نہ اسے رمل کی فاعلاتن فاعلاتن کی تکرار میں آگے چلنے دیا جائے۔ یعنی ایک نظم میں اگر پچاس بار فاعلاتن فاعلاتن کی تکرار آتی ہے توہ یہ ضروری نہیں ہے کہ “فاعلن” کا کاگ اس کے منہ میں ٹھونس کر اسے وہیں دم بخود کر دیا جائے۔ یعنی اگر “فا” پر بھی یا “علا” پر بھی ایک سطر کا اختتام ہو سکتا ہے اور “فاعلاتن” کا باقی حصہ دوسری سطر میں بہائو کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا چلا جاتا ہے۔تو اسے جانے دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی حالت بحر ہزج مثمن سالم (مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ) کی ہے اب اگر غزل کی ایک سطر کی طرح آخر میں “فعلن” لگا کر اسے بوتل کے کاگ کی طرح بند کر دیں تو رن آن سطور کا تسلسل ٹوٹ جائے گا۔ ایسی ہی حالت دوسری بحور یعنی متدارک (فاعلن) کی تکرار، متقارب (فعولن کی تکرار) متقارب مقبوض اثلم (فعول فعلن کی تکرار) رجز (مستفعلن کی تکرار)، وغیرہ میں قرار پائے گی۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply