• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محکمہ زراعت(توسیع) کی نجکاری کرنے کے فیصلے پر کچھ تحفظات۔۔علی انوار بنگڑ

محکمہ زراعت(توسیع) کی نجکاری کرنے کے فیصلے پر کچھ تحفظات۔۔علی انوار بنگڑ

پچھلے دنوں وزیر اعظم کے غذائی تحفظ کے معاون خصوصی جمشید اقبال چیمہ صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں محکمہ زراعت توسیع کی نجکاری کے بارے عندیہ دیا اور اس سلسلے میں اپنا لائحہ عمل بھی پیش کیا. ان کے اس لائحہ عمل کے مطابق محکمہ زراعت توسیع کے ملازمین کو تنخواہ تو حکومت دے گی لیکن اس پر جانچ پڑتال کا کام نجی کمپنی کرے گی. اس کے علاوہ ہر تین یونین کونسلز پر ایک ماہر زراعت اور ہر یونین کونسل پر دو فیلڈ اسسٹنٹ تعینات کیے جائے گے. اس کے علاوہ زراعت آفیسرز کو گاڑی جیسی سہولت بھی مہیا کی جاۓ گی. جو نجی کمپنی جتنے زیادہ کسانوں کو سروسز فراہم کرے گی. اسے اس کے حساب سے معاوضہ دیا جائے گا.
ان کے اس لائحہ عمل پر بہت سے تحفظات پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے وضاحت کی ضرورت ہے.

سب سے پہلے زرعی ماہرین کی تعداد بڑھانے اور جن سہولیات دینے کی معاون خصوصی صاحب نے بات کی ہے کیا وہ سہولیات اور اتنی تعداد میں زرعی ماہرین صوبائی حکومتوں کے زیر اثر محکمہ زراعت کو اس سے پہلے فراہم کیے گئے ہیں؟ جواب نہیں میں آتا ہے. یہاں تو دس دس یونین کونسلز پر ایک ماہر زراعت تعینات ہے اور فیلڈ اسٹنٹ بھی ہر تین یونین کونسل پر ایک یا دو ملتے ہیں. سونے پر سہاگہ تو یہ ہے کہ محکمہ زراعت کے ملازمین سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے زراعت کے شعبے کے علاوہ بھی کام لیے جاتے ہیں. کبھی انہیں ڈینگی مار مہم پر لگایا جاتا ہے تو کبھی سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں. اور پھر امید کرتے ہیں زراعت میں انقلاب آۓ.

معاون خصوصی صاحب نے سروسز کی بنیاد پر معاوضہ دینے کی بات کی ہے. اس طریقہ کار پر وطن عزیز میں بہت زیادہ این جی اوز کام کر رہی ہیں. جو حکومتی یا بین الاقوامی فنڈنگ لے کر کام کررہی ہیں. اور سروسز مہیا کرنے کے نام پر متعلقہ اداروں کو صرف چونا لگایا جاتا ہے. اے سی کے کمروں میں بیٹھ کر لسٹیں تیار ہوجاتی ہیں. کسانوں کو پتا بھی نہیں ہوتا اور لسٹوں میں ان کے نام ڈال دیے جاتے ہیں. کسان میٹنگز کے نام پر اپنی جان پہچان والے اکٹھے کرکے بٹھا لیے جاتے ہیں یا پھر مزدوروں کو چاۓ پلانے کے بہانے اکٹھا کرکے فوٹو سیشن کرلیا جاتا ہے. اور سب اچھا ہے کی رپورٹ بنا کر بھیج دی جاتی ہے.

کیا اتنے بڑے فیصلے سے پہلے متعلقہ شعبے کے ماہرین، زرعی جامعات کے پروفیسرز اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کی راۓ لی گئی؟ اس حوالے سے بھی موصوف کی جانب سے کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی.

ایک بہت بڑا اعتراض جو معاون خصوصی صاحب کے کام کے حوالے سے آیا. موصوف ایک پیسٹی سائیڈ کمپنی کے کرتا دھرتا ہیں. کیا یہ لائحہ عمل بالواسطہ خود کے کاروبار کو فائدہ دینے کے لیے تو نہیں لاگو کیا جارہا ہے؟ کہیں بھیڑوں کی رکھوالی پر بھیڑیا تو تعینات نہیں کیا جا رہا.

ہر زرعی علاقے میں سینکڑوں زرعی ادویات اور کھاد والی کمپنیاں کام کررہی ہیں. اور ہر کمپنی کے کافی زیادہ زرعی ماہرین اور سیلز آفیسرز فیلڈ میں کام کررہے ہیں. وہ کسانوں کو کیا فائدہ پہنچارہے ہیں؟ جو سیلز کے چکر میں کسانوں کو غلط مشورے تک دے جاتے ہیں. وہ سواۓ اپنی سیلز بڑھانے کے چکر میں بلا ضرورت زرعی ادویات اور کھادوں کا استعمال بڑھا رہے ہیں.

ہر سال کافی کمپنیوں کے دو نمبر پراڈکٹس پکڑے جاتے ہیں. اس کے لیے بھی محکمہ زراعت توسیع کے یہ ملازمین بعض اوقات کم عملے کی وجہ سے محکمہ پیسٹ وارننگ و کوالٹی کنٹرول آف پیسٹی سائیڈز کے ساتھ مل کر کام کررہے ہوتے ہیں. تو نجکاری کرنے سے زرعی پراڈکٹس کے جانچ پڑتال کا عمل کو کیسے دیکھا جاۓ گا اور یہ جانچ پڑتال کتنی نیوٹرل رہے گی؟ یہ بات کتنی موثر رہے گی کہ یہ نجی ایکسٹینشن کمپنیاں پیسٹی سائیڈز اور کھاد بنانے والی کمپنیوں کی تشہیر نہیں کریں گی؟

Advertisements
julia rana solicitors

معاون خصوصی اور باقی ذمہ داران کو چاہیے کہ نجکاری نجکاری کھیلنے کی بجائے زرعی ماہرین کے ذمے لگاۓ کہ وہ نشاندہی کریں کن عوامل کی وجہ سے ہم پیچھے ہیں. کسان سے پوچھے اسے کیا مسائل در پیش ہیں. ہمارے جدید طریقہ کاشت اور بہترین پیداوار کے لئے کیا گولز ہیں. اس حساب سے اپنا لائحہ عمل بنائیں اور محکمہ زراعت توسیع کے سٹاف کی ٹریننگ کرواۓ. ان پر بہترین چیک اینڈ بیلنس رکھے. ضلعی حکومتوں کی دوسری ڈیوٹیوں سے پرہیز کرواۓ. ہر دو سے تین گاؤں کے لیے ماڈل فارمز لگواۓ. یہاں بہترین طریقے سے فصل کاشت کی جاۓ. آپ اچھی پیداوار لے کر دکھائیں گے کسان بھائی خود بخود نئی ٹیکنالوجی کی طرف آئیں  گے. یونین کونسل سطح پر مٹی، پانی اور زرعی ادویات چیک کرنے کی لیبارٹریاں بنواۓ. سیڈ ٹیسٹنگ لیبز بناۓ. کسان کو ہائبرڈ بیج بنانے کے متعلق آگاہی دے. نجکاری نجکاری کے ڈرامے کرکے ہم اصل مسائل سے صرف توجہ ہی ہٹاتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے ہیں. اس لیے مسائل کی جڑوں کو پکڑنا چاہیے. وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمارا کسان جدید دنیا کے کسانوں سے پیداوار میں پیچھے رہ رہا ہے؟ اس حوالے سے ہمارے زرعی اداروں نے کن مقاصد کی نشاندہی کی ہے؟ وہ کونسی ٹیکنالوجی ہے جسے زرعی ادارے تو اختیار کر کے بیٹھے ہیں لیکن کسان نہیں؟جو کچھ زرعی ادارے کررہے ہیں وہی کچھ کسان بھی تو کررہے ہیں. بلکہ کچھ جدید ٹیکنالوجی تو ترقی پسند کسانوں نے تحقیقی اداروں سے بھی پہلے یہاں روشناس کرائی ہیں. ہمارے کسانوں کی لاگت دوسرے ممالک سے زیادہ کیوں ہے؟ ہمسائے ملک بھارت سے ہی موازنہ کرلیں وہاں کے کسان کو ہم سے کم قیمت پر کھاد، زرعی زہر اور بہترین معیار کے ہائبرڈ بیج مل رہے ہیں. بجلی پر سبسڈی مل رہی ہے. ہمارے ملک میں حکومت دو سے تین فصلوں کے نرخ مقرر کرتی ہے اور باقی فصلوں کے نرخ بیوپاری حضرات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں. لیکن وہاں تیس کے قریب فصلوں کے نرخ حکومت کی جانب سے مقرر کیے جاتے ہیں.
معیاری بیج کے لیے ہمارے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں. زرعی ادارے فنڈز کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں. بھارت میں زرعی ادارے ہائبرڈ بیج کی پیداوار پر مختصر اور بہترین قسم کے کورسز کروا رہے ہیں. اس وجہ سے وہاں معیاری بیج کی پیداوار بہت زیادہ ہے. کسان کو کم ریٹ پر اچھا بیج مل رہا ہے. بلکہ بہت سے پڑھے لکھے کسان اپنا بیج خود تیار کررہے ہیں. ہم کھادوں اور زرعی ادویات کے پچاس سالہ پرانے فارمولاز کو ابھی تک پکڑ بیٹھے ہیں. ترقی یافتہ ممالک نائٹروجن مائع روپ میں ڈال رہے ہیں اور ہم نے آج بھی پرانی یوریا کو گلے سے لگایا ہوا ہے.
دیسی کھیتی باڑی کے متعلق ہنگامی بنیادوں پر آگاہی کی ضرورت ہے کیونکہ اس طریقے سے جو پیداوار ہوتی ہے. عالمی منڈی میں اس کے نرخ زیادہ ملتے ہیں. زراعت ایک ایسا شعبہ ہے اگر یہ ترقی کرتا ہے تو اس سے بہت سے طبقات کو فائدہ ہوتا ہے. اس لیے پوائنٹ سکورنگ کی بجائے سنجیدہ انداز میں اس کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply