بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار ۔۔اعوان

ہماری ذات میں ہمارے والدین کے کردار اور ان کی شخصیت جھلکتی ہے، جیسے والدین ہوتے ہیں ویسی ہی اولاد ہوتی ہے۔والدین انسان کی زندگی کا بنیادی جز و ہوتے ہیں، ہماری ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، ہمیں چلنے اور بولنے کے قابل بناتے ہیں۔چھوٹا بچہ کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے جس طرح کورے کاغذ پر انسان جو لکھتا ہے وہی دوسروں کو دکھائی دیتا ہے ۔ویسے تو ہر والدین اپنے بچے کی بہترین اور عمدہ تربیت کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن اکثر والدین جو چیزیں بچے کو سکھا رہے ہوتے  ہیں ،اس پر خود عمل نہیں کرتے ۔جس طرح بچوں کو کہا جاتا ہے جھوٹ بولنا بُری عادت ہے اور اس کے علاوہ حسد,غیبت, نفرت اور وعدہ خلافی جیسی عادتوں سے بچوں کو منع کيا جاتا ہے لیکن دوسری طرف والدین خود بچوں کے سامنے بیٹھ کر دوسروں کی غیبت کرتے پائے جاتے ہیں جن باتوں اور عادتوں سے بچوں کو تنبیہ کرتے ہیں خود ان برائیوں سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتے، جس کی وجہ سے والدین کی دیکھا دیکھی بچے بھی غیبت اور حسد جیسی برائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

بچے ایک معصوم سی کلی ہوتے ہیں لیکن والدین کی بری عادتیں اور معاشرے میں موجود برائیاں انہیں بھیڑیا بنادیتی  ہیں۔جس طرح والدین کی بری عادتوں سے بچے متاثر ہوتے ہیں اسی طرح والدین کی اچھی عادتیں بھی بچے فوراً  سیکھ جاتے ہیں ۔ اگر کسی بچے کے والدین مہمانوں کی عزت کرتے ہیں اور غریبوں کی مدد کرتے ہیں تو بچے بھی خود بخود ویسا ہی کرنے لگتے ہیں۔

اس ساری  بات  کا  مقصد والدین کو بُرا ثابت کرنا ہر گز  نہیں ہے بلکہ اس بات کی نشان دہی کرنا ہے کہ بچوں کو نصیحت اور کہانیاں سنانے کے بجا ئے خود عمل کر کے دکھائیں یقین مانیں وہ جتنا آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اتنا دنیا کے کسی ہیرو پر نہیں کرتے۔ اس کی مثال ابابیل پرندہ ہے یہ اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتا  ہے اس کے پاس بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لیے کوئی اسپیس اور سہولت درکار نہیں ہوتی اور نہ ہی کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ہے اس لیے وہ اپنے بچوں کے  حصّے کی تربیت اپنی ذات سے کرتی ہے۔بچوں سے پہلے اگر وہ دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے کے انڈے سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں لیتی ہے، یوں ماں اور باپ 50 اڑانیں اضافی لیتے ہیں تاکہ بچوں کے دل و دماغ اس یقین سے بھر جائیں  کہ انہیں یہاں سے اڑ کر سیدھا باہر جانا ہے اور اس کے علاوہ  کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایک دن آتا ہے کہ بچہ گھونسلے سے نکلتا ہے اور سیدھا جا کر کنوئیں کی منڈیر پربیٹھ جاتا ہے ۔آج تک کسی نے ابابیل کے بچے کو کنوئیں میں گر کر مرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس ہمیں بھی اسی نقطے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply