چار دن کا شور پھر نیند کا وہی دور۔۔اقصیٰ اصغر

بے خبری میں بھی کوئی خبر مل جائے تو لاپتہ ذہن کو ایک پتا مل جاتا ہے۔نیند میں اکثر آوازیں کم سنائی دیتی ہیں ،سنائی  دے بھی جائیں تو دل پہ دستک دیے بغیر کہیں گم ہو جایا کرتی ہیں۔تو پھر دل کیسے  اس جنگ کا حصہ بنے ،اگر اسے نیند کی آغوش میں قید کر لیا جائے۔ہمیں یہ نیند ، اس قدر پیاری ہےکہ ہم ایمان کے سب سے نچلے درجے کو بھی چھوتے ہوئے کتراتے ہیں۔اگر کہیں بہت شور برپا ہو جائے تو کچھ آہیں ہمارے ضمیر کو جگا دیتی ہیں  ۔تو پھر ہم دل اور زبان دونوں کا استعمال کرتے ہیں مگر ایک تسلسل کے بغیر۔
ہم ایسے شور برپا کرتے ہیں جیسے ہم آج ہی ظلم کو مٹا دیں گے مظلوم کو انصاف دلادیں گے اس دھرتی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
مگر افسوس یہ سب کام ہم کرتے تو ہیں لیکن محض ٹویٹ کی حد تک ، علاؤہ ازیں اگر سوچا بھی جائے تو ہم اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں ،ٹوئٹر پر چار دن کا ٹرینڈ بنانے کے علاوہ ہمارے بس میں ہے ہی کیا۔ کیونکہ ہم کمزور دل کے مالک ہیں۔

ایسے ہی کچھ عرصہ قبل ہم نیند کی آغوش میں بے خبر تھے کئی آوازیں ہمیں پکار رہی تھیں مگر ہم اپنی ہی دنیا میں کہیں اور ہی گم تھے، گمنامی کی وادیوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ،خود سے بھی بے خبر تھے۔ اچانک سے ایک شور برپا ہوتا ہے ،آہ و پکار کے بادل ٹوٹ کر برستے ہیں، بجلی کی طرح ایک گونج ہر اک کو چھو کر گزرتی ہے ،بیت المقدس میں نمازیوں پر حملہ ،دھماکوں کے سائے میں پڑھی  فلسطینیوں نے نماز ۔اس گونج کی لرز نے ہر اک کو ہلا دیا۔کئی دنوں تک نیند نے اپنا لبادہ اتار دیا۔ہر کوئی سہم گیا ،بیت المقدس پہ دشمن نے پھر سے وار کیا، مگر اس بار دشمن نے وار فلسطینیوں پر نہیں روئے زمین پر بسنے والے ہر مسلمان کے جگر پر کیا تھا ، ان کے قبلہ اوّل  کو  اپنی لپیٹ میں لیا  تھا۔ ہر اک کا ایمان جاگا۔ زبانوں کے زنگ آلود تالوں کو توڑا گیا۔ اپنی استطاعت کے مطابق  ہر شخص نے سوشل میڈیا کی اس جنگ میں حصہ لیا۔ یتیم تو پہلے بھی بہت سے فلسطینی بچے ہوا کرتے تھے مگر اس بار ان کی یتیمی کا ماتم ہم سب نے مل کر منایا۔ کئی  دنوں تک غزہ میں ڈرونز نے اپنے ساز سنائے ۔

ایسے ایسے کرتب دکھائے کہ ان دھنوں نے دلوں کو لرزا ڈالا، آنکھوں نے موتیوں کا ریلا بہا دیا۔ہر دیکھنے والی آنکھ نے بدن کو اتنا جھنجھوڑ ڈالا کہ ہر اک نے سڑکوں کا رخ کیا۔الغرض پر ذی روح نے اس ظلم کے خلاف با آواز بلند ، اظہار یک جہتی کیا۔
باقی سب کچھ ایک طرف لیکن سلامتی کونسل نے اپنا فرض بخوبی نبھایا۔انسانی حقوق کی پامالی کی بھرپور مذمت کی۔مگر محض زبان کی حد تک ، چونکہ ہمارا اختیار اور ہمت یہیں تک محدود تھا۔
اور پھر عملی طور پر زور آزمائی کے لیے تو ویٹو پاور کی شرط بھی عائد کر دی جاتی ہے۔ ہم میں کہاں  جان۔۔
مظلوم کے کونسے حقوق ہیں جو اسے دیے جائیں۔ حقوق تو انسانیت کے ہوتے ہیں بے جان جسم کو بھلا کون حقوق دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے اس موقع پر کہا تھا کہ
“اگر دنیا میں کوئی جہنم ہے تو وہ اس وقت غزہ کے بچوں کی زندگی ہے”

اس سے ہم اسرائیل کی شفقت اور محبت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آواز اٹھائی مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں، ہم چاہتے ہیں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے مگر ایسا ہو نہیں سکتا۔کیونکہ متحد ہوکر پہلے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا سانپ مارنا ہے یا لاٹھی بچانی ہے۔

حقیقت پسند ہونا کچھ غلط نہیں میں بھی اس حقیقت کو مانتی ہوں ہم تنہا کچھ کرنے کے قابل نہیں، ہمت تو ہے ہم میں ،مگر سرکار کی دشمنی ہمیں گوارہ نہیں۔ وہ بھی ان حالات میں ، جب ہمارے ملک میں پانی ، کھاد ، پھل ، پھول ، بجلی ، الغرض ہر اشیاء خوردونوش کے لیے ہمارا بھکاری بننا طے ہے۔
مگر تصویر کا دوسرا رخ کچھ اور ہی منظر دکھاتا ہے اگر مسلمان تعاون تنظیم کے 57 ممالک آپس میں متحد ہوجائیں تو ہم ناصرف ان معصوم فلسطینیوں کو آزادی دلوا سکتے ہیں بلکہ کشمیر کو بھی آزاد کروا سکتے ہیں، جسے ہم تہتر سالوں سے نعروں اور ریلیوں کی بدولت آزادی حاصل کرنے کی جدو جہد میں مستغرق ہیں ۔کب تک ہم خیالی چھکے مارتے رہیں گے ایک دن تو ہمیں میدان میں اترنا ہی ہوگا۔

دشمن کا آمنا سامنا کرنا ہی ہوگا ۔تو پھر انتظار کس بات کا ؟کب تک ہم مسیحا تلاش کرتے رہیں گے، ہم خود متحد کیوں نہیں ہوجاتے۔ جو ہمارے ہاتھ میں ہیں ہم وہ انفرادی طور پر کیوں نہیں کرتے۔کیوں مسلمان آج کمزور ہیں؟ کیوں غیر مسلم کا آج سکہ چل رہا ہے؟ کیوں ہم تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود ترقی کی صف میں سب سے پیچھے کھڑے ہیں؟ کیوں غیر مسلم تعداد میں آدھے سے بھی آدھے ہونے کے باوجود ترقی کی صف میں سب سے آگے ہیں؟

کیوں سپرپاور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے؟کبھی بے خبری کی وادیوں سے باہر نکلیں تو ان سب سوالوں کے جواب ملیں۔۔ کب تک چار دن کا شور مچا کر پھر سے خود کو نیند کی آغوش میں دھکیلتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیوں اب ہم خاموش ہوگئے ہیں ؟ کیا اب فلسطینی یتیم نہیں ہو رہے ؟کیا وہ دھنیں انہیں سونے دے رہی ہیں؟ کیا وہ اب ہماری طرح زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا اب کشمیری بھی آزاد ہیں؟ ان کے گھروں میں اناج ہیں؟ اب تو کوئی کچھ بھی کشمیر کے لئے نہیں کہتا ،لگتا ہے اب وہاں محبتوں کا ہی   پہرہ رہتا ہے ۔ تبھی تو کوئی خبر وہاں سے آئی ،
کب تک ہم بےخبر رہیں گے ان بے خبری کی وادیوں کو جنت بنا کر اس میں ٹہلتے رہیں گے۔
“وہ جنت جس میں اپنے علاوہ کوئی نہ ہو وہ دوزخ سے بدتر ہے”
بے خبری کی وادیوں میں ٹہلتے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لئے واصف علی واصف شاہ کا یہ پیغام کافی ہے۔
کیوں نہ ہم آج سے عہد کریں ہم انفرادی طور پر ایمانداری سے اپنا حق ادا کریں گے۔ اپنے معصوم بہن بھائیوں کو آزادی کی فضا میں جینے کا حق دلوائیں گے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہم میدان جنگ میں جا کر لڑیں۔ہم اس ترقی کی دوڑ میں شامل ہو کر دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جس دن مسلمان قوم نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنا سکہ منوا لیا۔ اس دن بہت سے معصوم لوگ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔

Facebook Comments

Aqsa Asghar
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کی طالبہ ہوں۔اور ساتھ لکھاری بھی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply