روشنیوں کا شہر کراچی ، کرچی کرچی۔۔۔نازیہ علی

کراچی کو اکثر دیہی سندھ یا کراچی کے پسماندہ علاقوں کے رہائشی لوگ کرانچی یا کیراچی کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔کسی کو بھی اس کے غلط نام سے پکارو تو وہ بُرا مان جاتا ہے مگر شہر کراچی کا یہ بڑا پن ہے کہ وہ کرانچی کہنے والے ہوں یا کیراچی کہنے والے سب کو کراچی کہنے والوں کی طرح ہی برابر سمجھ کر اپنے اندر پناہ دیتا ہے۔ کیونکہ اس شہر کراچی میں اس قائد کا مزار بھی ہے جس نے ہمیں پاکستان کا تحفہ دیا۔ کراچی کی مثال اس دیے کی مانند ہے جو دیا خود جل کر دوسروں کو روشنی بخشتا ہے بالکل ویسے ہی کراچی سونے کا انڈا دینے والی وہ مرغی ہے، جس کے انڈے سب کھا رہے ہیں مگر مرغی کی زندگی کی کسی کو پروا نہیں ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب بچپن کے تعلیمی نصاب میں رات کی تاریکی میں روشینوں سے جھلملاتے ایک شہر کی تصویر “روشنیوں کا شہر کراچی” کے نام سے موجود ہوتی تھی۔ شہر قائد جو کہ رات کی تاریکی میں بھی اپنی روشنی اور تابندگی سے جھلملاتا تھا کراچی ایک غریب پرور شہر تھا ایک ایسا شہر جس نے پورے ملک کے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر رکھا جہاں مہاجر، سندھی،پنجابی ،بلوچ اور پٹھان امن اور چین سے جی رہ رہے تھے پھر یہ آخر اتنی نفرتیں کیوں اور کیسے؟

اس کا جواب اگر ہم تلاش کریں تو سیدھاسا ہے مگر اس سے دشمن کی سازش کا صاف پتہ چلتا ہے کیونکہ نہ تو مہاجر دہشت گرد ہیں اور نفرتیں پھیلا رہے ہیں اور نہ ہی سندھی، پنجابی،پٹھان اور بلوچ یا کوئی اور اس طرح کی نفرتیں پھیلا رہے ہیں بلکہ دراصل ملک کے امن دشمن دہشت گرد اس سازش کے پیچھے ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کے لئے یہ سارے کام کررہے ہیں جس سے کراچی کا امن برباد ہو اور دہشت گردی فروغ پائے مگر ہمیں ہر حال میں اس سازش کو ناکام بنانا ہے اور کراچی کو پہلے جیسا پُر امن بنانے کیلئے اپنے حصے کی کوشش ضرور کرنی ہے۔

اب جب بات ہو رہی ہے کراچی کی تو کراچی کے پرانے نام اور پسِ منظر پر تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ  بھی کراچی میں قائم ہے۔کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا۔ جو بعد میں کراچی بن گیا انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کا داخلہ ہوا۔ پاکستان کا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔

1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔ موجودہ نام کراچی سے پہلے اسے مکران “بلوچستان” کے علاقے کولانچ کی ایک بلوچ مائی جو کولانچ سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی کی نسبت سے مائی کولاچی کے نام سے جانا جاتا تھا جس کی تمام تر آبادی بلوچ تھی مائی کولاچی سے بعد میں کولاچی اور بگڑ کر انگریزوں کے دور میں کراچی ہو گیا۔

1772ء کو مائی کولاچی کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے بندرگاہ منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے یہ گاؤں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ یوں مائی کولاچی میں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی بڑھتے ہوئے شہر کی حفاظت کے لیے شہر کی گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں درآمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کی گئیں۔ فصیل میں 2 در تھے ایک در کا رخ سمندر کی طرف تھا اس لیے اس کو بلوچی میں کھارادر کہا جاتا اور دوسرے در کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا اس لیے اس کو بلوچی میں میٹھادر کہا جاتا تھا۔

1795ء تک کراچی “کولاچی” خان قلات کی مملکت کا حصہ تھا۔ اس سال سندھ کے حکمرانوں اور خان قلات کے درمیان میں جنگ چھڑ گئی اور کراچی پر سندھ کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے بعد شہر کی بندرگاہ کی کامیابی اور زیادہ بڑے ملک کی تجارت کا مرکز بن جانے کی وجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ کراچی آہستہ آہستہ ایک بڑی بندرگاہ کے گرد ایک بڑا تجارتی مرکز بنتا چلا گیا۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔1881 میں کراچی کی آبادی 73،500 تک،1891 میں 105،199 اور 1901 میں 115،407 تک بڑھ گئی۔ 1899 میں کراچی مشرقی دنیا کا سب سے بڑا گندم کی درآمد کا مرکز تھا۔ جب 1911 میں برطانوی ہندوستان کا دار الحکومت دہلی بنا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھ گئی۔ 1936 میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔

1947 میں کراچی کو پاکستان کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس وقت شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔کراچی کے بیشمار پہلو ہیں اور آج کس پہلو کا تذکرہ کیا جائے اور کس کا نہیں، سمجھ نہیں آرہا۔جس طرح انسانوں کے نام ان کے مذہب، ثقافت، وطن اور خاندانی پس منظر کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اسی طرح سڑکوں، محلوں، گلیوں اور چوراہوں کے نام بھی وہاں رہنے والوں کے سماجی، نظریاتی، تعلیمی اور نفسیاتی رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔کراچی ان ناموں میں بالکل منفرد دکھائی دیتا ہے۔ جس شہر کی حدودمیں بھی دیہات ، قصبے اور ٹاؤن موجود ہوں۔اسکی مثال ایسے ہے کہ کراچی ویسے تو سب سے بڑا شہر ہے مگر اس شہر میں قصبے بھی ہیں اور ٹاؤن بھی۔ مثلاً قصبہ کالونی، قصبہ موڑ، اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، گڈاپ ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، پتھر ٹاؤن، گولڈن ٹاؤن، گرین ٹاؤن اور بھنگوریہ ٹاؤن پھرسندھی زبان میں ’گوٹھ‘ کے معنی گاؤں یا دیہات ہیں اور بظاہر شہر اور دیہات ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں مگر کراچی ‘شہر’ ہونے کے باوجود کئی گوٹھوں کا مالک ہے۔ مثلاً سہراب گوٹھ، صفورہ گوٹھ، پہلوان گوٹھ، انگارہ گوٹھ، جمعہ گوٹھ، ناتھا خان گوٹھ، بلوچ گوٹھ، یوسف گوٹھ، فقرا گوٹھ، میمن گوٹھ، عبداللہ گوٹھ، ملاعیسی’ گوٹھ، ریہڑی گوٹھ، صالحہ محمد گوٹھ، ابراہیم حیدری گوٹھ اورچنیسر گوٹھ وغیرہ اب ذرا ہجرت کر کے آنے والے بھارتی ناموں کی بات کرتے ہیں ان ناموں کی کوئی تحریری تاریخ نہیں ہے، کوئی روایت بھی زندہ نہیں مگر پھر بھی عشروں سے انہی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

چونکہ کراچی 1947ء کی تقسیم کے وقت ہندوستان سے پاکستان آنے والوں کی اکثریت کا شہر ہے لہذا کچھ نام انہی کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے ہیں۔مثلاً بنارس کالونی، علی گڑھ کالونی۔ کچھ بھارتی/ہندوانہ طرز کے نام بھی ہیں جیسے رتن تلاؤ، رنچھوڑ لائن، گورو مندر، رام سوامی، نانک واڑہ، گاندھی گارڈن ، پٹیل پاڑہ، دہلی کالونی، نارائن پورا، بھیم پورا، ممبئی بازار، دریا آباد، بہار کالونی، یو پی اور یو پی موڑ وغیرہ۔کراچی کی قدیم عمارتیں اور گھنٹہ گھر بھی شہر کا ورثہ ہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نصب 12 گھنٹہ گھروں میں سے نو اب خاموش ہوگئے ہیں۔ یہ گھنٹہ گھر 18 ویں اور 19 ویں صدی کے آغاز میں برطانوی دور حکومت میں بنائے گئے تھے جو طرز تعمیر کے علاوہ مقامی شان و شوکت کے بھی عکاس تھے۔اس وقت کلائیوں پر گھڑی باندھنے کا رجحان عام نہیں تھا اور جب سڑکوں پر نا تو ٹریفک کا شور تھا نا ہی فیکٹریوں کی گھن گھرج، اس لیے ان گھنٹہ گھروں سے نکلنے والی مدہم آواز دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ ان ہی گھنٹہ گھروں کی آواز سے سورج غروب ہونے کے ساتھ چراغ جلتے اور سورج طلوع ہونے کے وقت چراغ گل ہوتے۔

ان ہی کی آواز سن کر لوگ کام کاج پر روانہ ہوتے اور مقررہ اوقات پر گھڑیال کی آواز سن کر گھر کی واپسی کا راستہ اختیار کر لیا کرتے تھے۔آج بھی کراچی کو یہ پرانی اور قدیمی عمارات اور گھنٹے ایک منفرد اور پُرکشش کراچی کا روپ دیتی دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی ایک انتہائی خوبصورت فلاحی و رفاحی شہر ہونے کے ساتھ انسانی زندگی کی سہولیات اور آسائشات کا حامل شہر تھا۔ لیکن جب کراچی کی غیر فطری طریقے سے آبادی بڑھی یعنی پاکستان کے دیگر علاقوں سے حتیٰ کہ بیرون ِ پاکستان سے لوگ کراچی میں آکر آباد ہونے لگے تو کراچی مسائل کا شکار ہوتا چلا گیا۔ان تمام مسائل سے بچنے کیلئے کوئی بہتر لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے حکومتی جانب سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔نہ  اُن کی رہائش ،غذا ، آبی اور دیگر ضروریات زندگی کو پورا کرنیوالی اشیاء کی دستیابی کا بندوبست اعداد و شمار کے ذریعے سے کیا گیا اور نہ ہی آنیوالے لوگوں کی وجہ سے شہر پر بڑھنے والے بوجھ کے تدارک کا کوئی انتظام کیا گیا۔بلکہ اب تو کراچی کا المیہ یہ ہے کہ مردم شماری میں ہی کراچی کے شہریوں کو کم گن کر کراچی کے ساتھ نا انصافی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے گئے۔

کراچی 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پر تشدد واقعات،دہشت گردی، سیاسی اور سماجی ہنگامہ آرائی کا شکار بنا رہا۔ اور جب اس دہائی کی بات کی جائے تو کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے مگر اس کو بے روزگاری،غربت،دہشت گردی،ٹریفک بڑھتی ہوئی آبادی، جرائم ،آلودگی،گٹر اور کچرے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔کراچی ٹریفک کی اگر بات کی جائے تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال 550 افراد ٹریفک حادثوں میں اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔زیادہ ٹریفک کی وجہ سے شہر کو آلودگی کا سامنا ہے اور درختوں کی شدید ضرورت ہے کوڑے کو آگ لگانا اور عوامی شعور کی کمی بھی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔کراچی میں پہلے ہی درختوں کی کمی ہے۔پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح سیاست دانوں اور سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے کھلی جگہوں پر ناجائز تجاوازات تعمیر کا مسئلہ کراچی میں بھی عوام اور آنے والی نسلوں کے لیے پریشان کن ہے اور نعم البدل فراہم کیے بغیر تجاوزات کے نام پر کسی کا روزگار تباہ کر دینا بھی ظلم ہے۔

اسکے علاوہ فراہمی آب اور بجلی کی فراہمی میں تعطل شہر کے دو بڑے مسائل ہیں۔2020 کا تحفہ گیس کی فراہمی میں بھی رکاوٹ کی صورت میں ملا جس شہر کے وسائل بڑھ جائیں اور وہ مسائل کی شکل اختیار کر جائیں اور اسکو مردم شماری میں کم دکھا کر اسکا حق کھا لیا جائے جب بھی وہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا شہر ہو اور پورے پاکستان کو کما کر کھلا رہا ہو تو اگر اتنی نا انصافی سہ کر کراچی کا شہری جب کراچی کے ڈومیسائل پر کبھی سرکاری نوکری سے محروم رہے تو کبھی بہتر روزگار اور روزمرہ کی بہتر اشیاء سے تو پھر تو اس میں مایوسی جنم لینا ایک فطری عمل ہے ایسا شہری خود کو سوتیلا نہ سمجھے تو کیا سمجھے جبکہ کراچی پاکستان کے دوسرے شہروں سے آئے لوگوں کیلئے ہر طرح سے اہمیت کا حامل ہے خواہ وہ سیر و تفریح ہو ، شاپنگ یا پھر اپنے منفرد پکوانوں کے مراکز اور بریانی کی وجہ سے۔

کراچی پاکستان میں خریداری کا مرکز تصور کیا جاتا ہے جہاں روزانہ لاکھوں افراد اپنی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔ صدر، گلف شاپنگ مال، بہادر آباد، طارق روڈ، زمزمہ، زیب النساء اسٹریٹ اور حیدری اس حوالے سے ملک بھر میں معروف ہیں۔ ان مراکز میں کپڑوں کے علاوہ دنیا بھر سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاء حاصل کی جاسکتی ہیں۔ برطانوی راج کے زمانے کی ایمپریس مارکیٹ مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کا مرکز ہے۔ صدر میں ہی قائم رینبو سینٹر سی ڈیز کے بڑے مراکز میں سے ایک ہے۔ دیگر اہم علاقوں میں پاپوش مارکیٹ اور حیدری شامل ہیں۔ ہر اتوار کو لیاقت آباد میں پرندوں اور پالتو جانوروں کے علاوہ پودوں کا بازار بھی لگتا ہے۔کراچی میں جدید تعمیرات کے حامل خریداری مراکز کی بھی کمی نہیں ہے، جس میں پارک ٹاورز، دی فورم، ملینیم مال، ایٹریم مال اور ڈولمین مال خصوصا قابل ذکر ہیں۔ سیر و تفریح کیلئے کلفٹن کے نام سے شہرت یافتہ ساحلی مقام کراچی کا سب سے اہم تفریحی مقام مانا جاتا ہے۔ اس کے بغیر کراچی کی تفریحی گاہوں کا ذکر نا مکمل رہتا ہے۔ یہ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن کنٹونمنٹ کی حدود میں واقع ہے اور کئی حصوں پر مشتمل ہے۔جبکہ سفاری پارک،الہ دین پارک،سند باد اور ایسے بے شمار پارکس مڈل کلاس افراد کے بچوں اور اہل خانہ کیلئے بہترین تفریح گاہیں ہیں۔

درگاہوں کی بات کی جائے تو سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازی رح کا مزار کلفٹن کے مرکزی علاقے میں ایک پہاڑی ٹیلے پر واقع ہے۔ کلفٹن آنے والے اس مزار پر ضرور حاضری دیتے ہیں۔اس مزار کے احاطے میں ایک میٹھے پانی کا چشمہ بھی ہے۔ تاہم یہاں زائرین کے علاوہ نشے کے عادی افراد کا بھی ہجوم رہتا ہے۔ یہ مزار حکومت سندھ کے محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہے مزار کے احاطے میں مارکیٹ بھی واقع ہے جہاں بڑی تعداد میں پکے پکائے کھانوں کی دکانیں موجود ہیں۔ ان دکانوں پر بالخصوص جمعرات کے روز مخیر حضرات کی جانب سے لنگر عام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔لنگر کی اگر بات کی جائے تو شہر قائد کراچی سے جہاں کبھی وفاق ،کبھی سندھ حکومت تو کبھی بلدیات مختلف انداز میں نا انصافی کرتے ہوئے الزام ایک دوسرے پر لگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے وہیں دوسری جانب ہر طرح کے ناگزیر حالات کے باوجود کراچی والے مختلف این جی اوز کی مدد سے روز کراچی شہر میں کھانے کے مختلف لنگر اور دستر خوان کا اہتمام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جس میں سیلانی ویلفیئر اور جے ڈی سی کے دستر خوان امام حسین ع کے ساتھ بیشتر نام نمایاں ہیں جو اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور یہی وہ شہر کراچی ہے جو رمضان المبارک میں سحر و افطار کی رونقیں سڑکوں پر اسطرح سے لگا دیتا ہے کہ کوئی غریب بھوکا نہیں رہتا ۔کراچی میں رمضان اور عید کیلئے باقاعدہ پاکستان کے مختلف شہروں سے فقیر بھیک مانگنے آتے ہیں مگر بھیک ملے یا نا ملے مگر اس عشرے میں شہر میں بھوکوں کو کھانا ضرور مل جاتا ہے۔ایسا ہی حال پورے سال گھر میں کام کرنے کیلئے آنی والی ماسیوں کے روپ میں ہوتا ہے جو کہ پنجاب اور سندھ کے مختلف دیہاتوں سے کمانے کی غرض سے اپنے پورے خاندان کے ہمراہ کراچی کے مختلف علاقوں میں مختلف جوگیوں میں رہائش پذیر رہ کر کراچی کے مختلف گھروں میں جھاڑو لگا کر برتن اور کپڑے دھو کر گزارہ کرتی ہیں۔

کراچی نے جہاں لسانی و فرقہ وارانہ فسادات کا سامنا کیا وہاں قصبہ کالونی جیسے سانحات کے ساتھ ہی دہشت گردی کے کچھ ایسے واقعات ہیں جنہوں نے شہر کو فرقہ وارانہ فسادات کی طرف دھکیلنا چاہا اور کراچی کو لہو لہو کیا بے گناہوں کا لہو بہایا گیا جس میں 12ربیع اول جشن میلاد النبیﷺ 2006 کا بم دھماکہ تھا جس میں علماء سمیت بے قصور لوگ شہید ہوئے اور پھر دسمبر 2009 میں عاشورہ کے جلوس امام حسین ع میں دہشت گردی کے ذریعے بم دھماکہ فائرنگ اور توڑ پھوڑ کی گئی اور 40 سے زائد افراد شہید ہوئے اسی طرح کراچی میں لسانی فسادات کی بات کی جائے تو جب 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا وہ دن کراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب کراچی کے شہریوں کی املاک سمیت قیمتی سامان اور روزگار فراہم کرنے والی دکانوں کو جلایا گیا۔نہ جانے کتنی بہنوں کی عصمتیں پامال کی گئیں وہ دن بھی درحقیقت ایک سازشی عمل تھا جسکے دہشت گرد آج تک بے نقاب نہ ہو سکے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سب چاہے پاکستانی ہونے کے ناطے یا پھر کراچی کے شہری ہونے کے ناتے اس صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار کس طرح ادا کرسکتے ہیں؟ ہم دہشت گردوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم بندوق کے جواب میں بندوق نہیں اٹھا سکتے ہیں۔لیکن نفرتوں کو کم کرنے میں تو ہم اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔آپ سب اور میں ایک کوشش تو کر سکتے ہیں ۔چاہے ہم مہاجر ہیں، سندھی ہیں، بلوچی ہیں، پٹھان ہیں یا پھر پنجابی مگر سب سے پہلے تو ہم یہ عہد کریں کہ جو شر انگیز افواہوں پر مبنی ایس ایم ایس یا واٹس اپ موصول ہوگا جس سے لسانیت یا فرقہ وارانہ تعصب پروان چڑھے اسے بغیر تصدیق آگے نہیں بڑھائیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے کہ ’’ اے لوگو !جو ایمان لائے ہوں اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لیکر آئے تو تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نا دانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اورپھر اپنے کئے پر پشیمان ہو (سورہ الحجرات آیت نمبر 6)۔میرے خیال سے یہ حصہ ہم سب کراچی کو بچانے کیلئے ڈال سکتے ہیں افسوسناک واقعات کا اگر ذکر کروں تو کراچی میں گٹکے اور چھالیہ پر پابندی کے باوجود کراچی کے لڑکے اسکے لئے بے تاب دکھائی دیتے ہیں یہ بھی کوئی خوشی کی بات نہیں جہاں مہنگائی اور بے روزگاری نے کرائم اور خودکشی میں اضافہ کیا وہاں کراچی ریونیو دینے والا سب سے آگے شہر ہر طرح کی نا انصافی سہتا دکھائی دے رہا ہے۔

بلدیاتی اور یہ تمام دیگر مسائل حل ہوئے دکھائی نہیں دے رہے وفاق ہو یا سندھ حکومت یا پھر بلدیاتی ادارے سب کو مل کر کراچی کے ساتھ انصاف کرنا ہو گا ایک دوسرے کی ضد میں کراچی کا حق مت ماریں روشینوں کے شہر کراچی کو تاریکیوں میں ڈبونے کا حق کسی کو نہیں لہذا میری تمام ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ کراچی کی عوام پر رحم کھائیں پسماندہ علاقوں میں جا کر کراچی کے مسائل کو سمجھیں اور کراچی کو کرچی کرچی ہونے سے بچالیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply