لوگوں کا کیا۔۔ادریس آزاد

یہ غالباً 2006 کا واقعہ ہے۔ میں اور عبدالقادر ناظر، راولپنڈی سے خوشاب جارہے تھے۔ ہم بس کی ’دووالی‘ سِیٹ پر بیٹھے،باتیں کرنے کے ہم دونوں شیر تھے، سو ایک ایسی بحث چھڑگئی جو خوشاب پہنچ کر بھی ختم نہ ہوئی۔
عبدالقادر کا مؤقف تھا کہ،
’’لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ کوئی کچھ کہتاہے، کہتا رہے۔ ہمیں وہ کرنا چاہیے جو ہمارا دل کہتاہے۔لوگوں کو کون راضی کرسکتاہے؟ زندگی کو جیناہے تو اپنے دل کی مانو! اور لوگوں کی مطلقاً پروا چھوڑ دو۔‘‘

میرا مؤقف تھا کہ،
’’لوگوں کو راضی کرکے جینا سنتِ رسالتمآب صلی للہ علیہ والہ وسلم ہے۔ اور یہ کہ جتنے لوگ آپ سے راضی ہوں گے، آپ کا اعمالنامہ اُتنا زیادہ حَسین ہوگا۔‘‘

میں غالباً اپنی کتاب، ’’عورت، ابلیس اور خدا‘‘ کے زمانے سے اس بات کا قائل ہوں کہ ’’لوگوں کا کیا؟ وہ تو باتیں کرتے ہیں‘‘ یوں کہنا ، فی الاصل ’’افادیت پسندی‘‘ اور’’مادہ پرستی‘‘ کو اختیار کرناہے۔اگرچہ میں نے خواص و عوام کی ایک بڑی تعدادکو عبدالقادر کے مؤقف کا حامی دیکھاہے، لیکن اُس مؤقف کے حامیوں کے دلائل میں کبھی اتنا وزن نہیں دیکھ پایا کہ اس مؤقف کو اختیار کرسکوں۔

انسان سماج میں رہتاہے اور سماج ایک ایسی اجتماعی وحی کے ذریعے چل رہاہوتا  ہے ،جو کسی باغ میں اُگنے والے نباتات کی وحی جیسی خودکار ہے۔ ایک درخت کی کسی شاخ پر کوئی ٹہنی کہاں سے پھوٹے گی، کون بتاسکتاہے؟ کوئی سائنسدان بھی نہیں۔ یہ ہے درخت کو ملنے والی وحی۔ یہ وحی پورے باغ کو میسر ہے اور باغ میں پھولوں، پودوں اور سرووسمن کے ساتھ ساتھ جھاڑ جھنکار بھی اُگتی ہے۔

سماج کے باغ کے مالی رہبرانِ قوم ہوا کرتے ہیں۔ ایسے رہبر جوافرادِ قوم کے علم و عمل کی اصلاح کرتے ہیں، اور یوں گویا وہ باغ کو باغ بناتے اور اُس میں سے جھاڑجھنکار اور آکاس بیلیں صاف کرتے رہتے ہیں۔

اس کے برعکس افادیت پسندی کوئی اجتماعی سماجی وحی نہیں جو فطرت کی طرف سے نازل ہوئی ہو ، بلکہ عقل کے ذریعے کی گئی کاوش ہے جس کا سب سے مشہور نعرہ ہے، ’’عظیم ترمفاد‘‘ کا انتخاب۔

آپ کے سامنے دو مفادات ہیں، ان میں سے وہ مفاد جو نسبتاً عظیم ہے، آپ کو اختیار کرلیناچاہیے، یہ ہے نظریۂ افادیت پسندی۔یہ نظریہ مغرب میں پھیلا اور بالقوہ نافذکیاگیا۔ نتیجتاً  یورپ کی فلاحی ریاستیں وجود میں آئیں۔ یا کسی حدتک امریکی سماج پر اس نے اثرات ڈالے۔ میں اس نظریہ کے مخالفین میں سے ہوں لیکن یہاں اس مخالفت کی تفصیلی بحث کا مقام نہیں۔ میرے متعدد مضامین البتہ ان دلائل پر مشتمل، نیٹ پر موجود ہیں۔‘‘

یہاں، آج نظریہ افادیت پسندی کا ذکر فقط اس حدتک مقصود ہے کہ موضوعِ زیربحث یعنی ’’لوگوں کا کیا؟‘‘، دراصل اِسی نظریہ سے برآمد ہونے والا ایک نکتۂ ناحکیمانہ ہے۔ آپ اپنی زندگی اپنی مرضی اور دل  کی خواہشات پر عمل کرتے ہوئے گزاریے، لوگوں کا کیا ہے؟ وہ تو باتیں بناتے ہیں اور بناتے رہیں گے۔ یہ وہ خیال ہے، جو عام طورپر کہا اور سنا جاتاہے۔ خواص سے لے کر عوام تک یہ خاصا مقبول خیال ہے اور ایسا پُراثر کہ جب بھی ، جہاں بھی کسی کو بطوردلیل پیش کیا جائے، وہ اپنے جذبات کی رَو میں فی الفور بہنے لگتاہے اور اِسے قبول کرتاہوا دکھائی دیتاہے۔گلبہاربانو بھی اپنی مشہور غزل میں گاتی ہیں،
چاہت میں کیا دنیا داری ، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری

حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال سماج میں رہنے والے فرد کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ اس کی اپنی انفرادی زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور معاشرے کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہے۔ اس کے برعکس یہ خیال کہ ہمیں لوگوں کی پروا کرنی چاہیے اور اگر ہماری کوئی بات یا کوئی عادت لوگوں کو ناپسند ہے تو وہ  ہمیں ترک کردینی چاہیے، کسی بھی فرد یا معاشرے کے لیے بہترین حکمتِ عملی ہے۔ اسی کو قرآن کی اصطلاح میں ’’معروف عمل‘‘ کہاجاتاہے۔یعنی وہ عمل جو لوگوں کی بڑی تعداد کے نزدیک اچھا سمجھا جاتاہو۔رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیثِ مبارکہ ہے کہ، میری امت کے لوگوں کی اکثریت بُرائی پر کبھی متفق نہ ہوگی۔ دراصل فرد سے فرد ملتاہے تو جیسے چراغ سے چراغ جلتاہے اور یوں کسی سماج میں اخلاقی چراغاں ہوتاہے۔ لوگوں کی اکثریت برائی پر متفق نہیں ہوتی، اس لیے لوگ جب آپ کی کسی عادت کو ناپسند کرتے ہیں تو دراصل وہ سماج کی اجتماعی وحی کے ذریعے آپ کو کی گئی تادیب ہوتی ہے کہ ایسی حرکت سے باز آجائیں جو سماج کو تباہ کرسکتی ہے۔

رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چالیس سال تک اپنے صادق اور امین ہونے کا لوہا منوایا۔ اور ہرہر موقع پر اس بات کا خیال رکھاکہ لوگوں کی اکثریت آپ کو پسند کرے۔ آپ کا نام محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بھی اسی معنی کا حامل ہے، یعنی’’وہ جس کی سب تعریف کریں‘‘۔مدنی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مدینے کی گلی میں جارہے تھے کہ پاس سے ایک شخص گزرا۔ آپ نے تھوڑا آگے جاکر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ ، ’’تم یہاں رکو! میں ابھی آتاہوں‘‘۔ یہ فرما کر آپ واپس پلٹے اور جو شخص پاس سے گزر ا تھا، اس کے پاس پہنچ کر اس سے  فرمایا، ’’یہ جو خاتون میرے ساتھ ہے، یہ میری بیوی عائشہ ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ شخص کانپ گیا، اور پریشانی سے بولا، ’’یارسول للہ ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں نے تو کچھ نہ سوچا، ایسا ویسا‘‘۔ اس پر رسول للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، ’’ میں نے پھر بھی مناسب سمجھا کہ تمہیں بتادوں، یعنی وضاحت کردوں تاکہ کوئی غلط فہمی باقی نہ رہے۔ (نوٹ: یہاں میں نے یہ واقعہ اپنے الفاظ میں درج کیا ہے۔اصل روایت کے الفاظ مختلف ہوسکتے ہیں لیکن واقعہ یہی ہے۔)

قطر میں مفتی منصورصاحب سے ایک روایت سنی تھی کہ،
قیامت کا دن ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ایک گناہ گار شخص کے حق میں یہ فیصلہ فرمائیں گے کہ اسے جہنم میں ڈال دو! جب فرشتے اس شخص کو جہنم کی طرف لے جانے لگیں گے تو لوگوں کی ایک جماعت بول اُٹھے گی اور کہے گی کہ، ’’یااللہ ، یہ تو اچھا انسان تھا۔ آپ اسے جہنم میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ لوگوں کی بات سن کر اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ بدل دیں گے اور کہیں گے، اچھا چلو! اِسے جنت میں بھیج دو!‘‘

مختصرمدعا یہ ہے کہ جب آپ کسی کی پروا نہیں کرتے تو دھیرے دھیرے یوں ہوتاہے کہ کوئی آپ کی بھی پروا نہیں کرتا۔ یا یوں کہہ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ جب آپ صرف اور صرف اپنے لیے جینے لگ جاتے ہیں تو یہ بات دوسروں کو اس لیے اچھی نہیں لگتی کیونکہ کسی نہ کسی شکل میں دوسرے آپ کے لیے بہت کچھ جی رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے آپ سے مایوس ہونا شروع ہوجائیں تو آپ اکیلے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ سب سے پہلے انسان اپنے خاندان کو دوسروں سے الگ کرلیتا ہے ، پھر اپنے گھر کو، اور آخر میں اپنے آپ کو اپنے گھروالوں سے بھی الگ کربیٹھتاہے۔ یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوجاتاہے اور کسی ہسپتال میں اکیلا مر کر گمنام دفنا دیا جاتاہے۔’’تمہارے ہاتھ اور زبان سے کسی کونقصا ن نہ پہنچے‘‘ سے حقیقی مراد یہی ہے کہ آپ دوسروں کے لیے کسی بھی قسم کا خطرہ نہ ہوں۔ جب آپ دوسروں کی پروا ہ ترک کرتے ہیں تو آپ دوسروں کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جاتے ہیں۔ہماری پیشانی پر آجانے والی سلوٹوں سے لے کر ہمارے، خشک رَوی کے ساتھ ہاتھ ملانے تک، ہر ہر ادا میں دوسرو ں کو خطرہ محسوس ہوتاہے۔یہ لوگوں کی یعنی ہم انسانوں کی حیوانی جبلت ہے جس سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔

آپ نے کبھی غورکیا؟ ہمارے ہاں لڑکوں کو شادی کے لیے لڑکیاں نہیں ملتیں اور یورپ و امریکہ میں لڑکیوں کو شادی کے لیے لڑکے نہیں ملتے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی بنیادی وجہ افادیت پسندی ہے۔مغرب میں گھر بسانے کا تصور معدوم ہوتے ہوتے آخری کنارے سے آلگا ہے تو اس کی وجہ فقط یہی ہے کہ لوگ اپنی زندگیوں کو اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کے مطابق جینے لگ گئے ہیں۔ہرکسی کے سامنے مفادات میں سے بہتر مفاد کے چناؤ کا اختیار موجود ہے۔ ہر کوئی اپنی ذاتی زندگی کو آسانیوں سے مالامال کردینے کا فیصلہ کرتاہے اور دھیرے دھیرے اکیلا ہوتا چلاجاتاہے۔اگر ایسا ایک آدھ صدی مزید ہوتا رہا تو وہ معاشرے جنہوں نے افادیت پسندی کو پروان چڑھایا ہے، واپس اسی حیوانی سطح پر گرجائیں گے جس سے ہزاروں سال پہلے انہوں نے اپنے اپنے سماجوں کا آغاز کیا تھا۔

میں کہا کرتاہوں کہ اعمالنامہ اور کچھ نہیں۔ اعمالنامہ آپ کے وہ سماجی معاملات ہیں جو آپ مرنے کے بعد پیچھے چھوڑجاتے ہیں۔ اگر آپ مرجائیں اور مرنے کے بعد آپ کی تعریف کرنے والوں کی تعداد آپ کی تنقیص کرنے والوں سے زیادہ ہو تو آپ کا اعمالنامہ وزنی ہوگا اور آپ جنت میں عیش کریں گے۔ اس کے برعکس اگر آپ کے مرنے کے بعد آپ کی تعریف کرنے والوں کی تعداد آپ کی تنقیص کرنے والوں سے کم ہوگی تو آپ کا اعمالنامہ ہلکا ہوگا اور آپ ایسے جہنم میں جائیں گے جہاں آگ بھڑک رہی ہے۔ آپ کا اعمالنامہ لوگوں کی زبان اور ان کے عمل پر لکھاہے۔ آپ بڑے آدمی ہیں تو آپ کو اور زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسی صورت میں آپ کو جاننے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور اسی تناسب سے آپ کے مرنے کے بعد آپ کی تعریف و تنقیص کرنے والوں کی تعداد کا تناسب بھی بہت بڑھ جاتاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہرحال مضمو ن لمبا ہوگیا ہے لیکن میرے ذہن میں ابھی بے شمار دلائل موجود ہیں،اس بات کے حق میں کہ ہمیں ہمیشہ لوگوں کی پروا کرنی چاہیے۔ سوچ رہاہوں کسی وقت باقی دلائل کو جمع کرکے ایک بڑا مضمون بنادوں۔ جزاکم للہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply