• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انسانی حقوق اور امریکہ کا حقیقی چہرہ۔۔ثاقب اکبر

انسانی حقوق اور امریکہ کا حقیقی چہرہ۔۔ثاقب اکبر

دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار امریکہ ہے اور دنیا میں انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پامال کرنے والا بھی امریکہ ہی ہے۔ دنیا میں انسانوں کا سب سے زیادہ قتل عام امریکہ ہی نے کیا ہے۔ انسانوں کے قتل عام کے لیے وحشت آفریں ہتھیار امریکہ نے ہی بنائے ہیں اور امریکہ ہی نے بیچے ہیں۔ امریکی معیشت کا سب سے زیادہ انحصار ہتھیاروں کی فروخت پر ہی ہے۔ اپنی کامل اطاعت نہ کرنے والی قوموں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے سب سے زیادہ پابندیاں امریکہ نے ہی لگائی ہیں۔ انسانی حقوق کا ایک عنوان امریکہ کے نزدیک جمہوریت ہے۔ آمروں اور بادشاہوں کا سب سے بڑا دوست اور محافظ امریکہ ہی ہے۔ امریکہ ہی دنیا میں جوہری ہتھیار نہ بنانے کی تحریک چلائے ہوئے ہے لیکن یہ امریکہ ہی ہے، جس نے ایٹم بم برسا کر جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ و برباد کر دیا اور لاکھوں ہنستے بستے گھروں کو وحشیانہ طریقے سے زمین بوس کر دیا۔

دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار امریکہ ہی کے پاس ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے اور ایران جس کی قیادت ایٹمی ہتھیار بنانے کو جائز ہی نہیں سمجھتی، اس پر تاریخ کی بدترین پابندیاں اس مفروضے کی بنیاد پر لگا رکھی ہیں کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس کی فوجی مشینری پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ تمام براعظموں میں اس کے بہت سے فوجی اڈے موجود ہیں۔ اُس کے بحری بیڑے قوموں کو ڈرانے کے لیے مختلف علاقوں میں تعینات ہیں۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس نے 11/9 کے بعد القاعدہ کی موجودگی کا بہانہ بنا کر افغانستان میں اپنی فوجیں اتاریں اور بیس برس تک افغانستان کے قصبوں اور شہروں پر بم برسائے اور افغانیوں کا قتل عام کیا۔

بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ نے پاکستان پر طرح طرح کی پابندیوں کا آغاز کر دیا، جبکہ دوسری طرف بھارت کی نازبرداری شروع کر دی اور اس کے ساتھ مختلف ناموں سے ایٹمی معاہدے کر لیے۔ یہ امریکہ ہی ہے، جس نے دنیا کے مختلف ممالک کے شہری علاقوں میں ڈرون حملے کیے اور بے گناہ نہتے شہریوں کو قتل کیا۔ امریکہ اور برطانیہ نے کہا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ اس بہانے سے انھوں نے عراق پر حملہ کر دیا۔ ایک لاکھ پینسٹھ ہزار فوجی عراق میں تعینات کر دیے اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور پھر تحقیقاتی اداروں نے اعلان کیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں ہیں۔ عراق میں امریکی افواج کے اترنے کے بعد سے لے کر اب تک تقریباً دو ملین عراقی قتل ہوچکے ہیں۔ ملک کا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے لیکن امریکہ وہاں سے اپنی افواج نکالنے کا نام نہیں لیتا، جبکہ عراقی پارلیمنٹ اتفاق رائے سے امریکہ سے مطالبہ کرچکی ہے کہ وہ اپنی افواج عراق سے نکالے۔

گذشتہ دنوں قم میں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ کے کردار کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا، جس میں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر کا کہنا تھا کہ امریکہ نے انسانی حقوق کے تمام معاہدوں اور کنونشنوں کی خلاف ورزی کی ہے اور اس ملک کی تہذیب کی بنیادیں سیاسی اور مادی حقوق، مفادات کے حصول اور دنیا کے بے گناہوں کے قتل اور نسل پرستی پر مبنی بنائی گئی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ بین الاقوامی میکانزم اب تک انسانی حقوق کے معیاروں کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں سے نمٹنے میں ناکام رہا ہے اور فلسطین کے مسئلے جیسے متعدد مسائل میں بین الاقوامی اداروں نے سامراجی طاقتوں کے جرائم کی بھی حمایت کی ہے۔ خود اپنے بارے میں انھوں نے بتایا کہ میں اسلام قبول کرنے اور عراق اور افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی مذمت کرنے کے جرم میں سات سال سے زیادہ امریکی جیلوں میں قید رہا ہوں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کی بنیاد ہی اس کا انسانی حقوق کا چارٹر ہے، جبکہ امریکہ نے اقوام متحدہ کو اپنی لونڈی بنا رکھا ہے اور عالمی اداروں کو وہ اپنے مفادات کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دنیا کے کئی اہم راہنماء جن میں ملائیشیاء کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد بھی شامل ہیں، انسانی حقوق کے بارے میں مغربی ممالک کے دوہرے معیار اور طرز عمل کے خلاف آواز بلند کرچکے ہیں۔ ایک موقع پر انھوں نے اقوام متحدہ کے منشور پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ بدلتے ہوئے حالات اور نئے عالمی حقائق کے پیش نظر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو ازسر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے ایک نامور صحافی رعایت اللہ فاروقی نے امریکہ میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال کے زیر عنوان تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق وہ تین سیاسی ہتھیار ہیں، جن کے دم پر امریکہ دنیا بھر کے غیر مطیع ممالک کے خلاف پہلے میڈیا ٹرائل کے ذریعے عالمی سطح کی بدنامی کا اہتمام کرتا ہے اور پھر اس میڈیا مہم کے ذریعے پیدا کردہ ماحول کا فائدہ اٹھا کر ایسے ممالک کو یا تو بلیک میل کرکے اطاعت پر مجبور کرتا ہے، اگر ایسا نہ ہوسکے اور ٹارگٹ ملک عالمی سطح کی یتیمی کا شکار ہو تو پھر فوجی حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے، لیکن اگر ٹارگٹ ملک پر دیگر عالمی پلیئرز کی حمایت کے سبب حملہ ممکن نہ ہو تو پھر اقتصادی و سفری پابندیاں عائد کرکے اس ملک کی ترقی کا سفر روک دیتا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان مقاصد کے لئے امریکہ ہر سال کے آغاز پر ’’انسانی حقوق‘‘ کے حوالے سے رپورٹ جاری کرکے ٹارگٹ ممالک کو نامزد کرتا ہے۔ مگر یہ حقیقت اب دن بدن آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے کہ امریکہ اب نہ تو پہلے جیسا عالمی اثر رکھتا ہے اور نہ ہی وہ داخلی طور پر کوئی مستحکم ملک ہے۔ وہ داخلی انتشار کے حوالے سے اس وقت دنیا کا سب سے بدتر ملک بن چکا ہے۔ دوسروں کو جمہوریت اور جمہوری اقدار کے لیکچر دینے والے اس ملک میں اب پارلیمنٹ بھی سیاسی مخالفین کے حملوں سے محفوظ نہیں اور یہ حملے کوئی اور نہیں بلکہ خود امریکی صدر کراتا پایا گیا ہے۔

پاکستان کی ماضی کی حکومتیں امریکہ کی فرمانبرداری میں اپنے ملک کا بہت نقصان کرچکی ہیں۔ انہی تجربات کی روشنی میں موجودہ وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کا پاکستان میں فوجی اڈے فراہم کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ ایک امریکی صحافی کے جواب میں کہا گیا ان کا یہ جملہ پوری دنیا میں شہرت اختیار کر گیا ہے: ’’Absolutely Not‘‘۔ اس کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر پابندیاں لگانے کے لیے راہ ہموار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں اپنی بعض دستاویزات میں پاکستان پر بعض انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات لگانا شروع کر دیے ہیں۔ FATF کی گرے لسٹ میں پاکستان کو باقی رکھنے کے مقاصد کو بھی پاکستان کی قیادت سیاسی فیصلہ قرار دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی وزیر خارجہ کے بیانات ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔

دوسری طرف خود امریکہ کا یہ حال ہے کہ اس نے انسانی حقوق کی کئی عالمی دستاویزات اور معاہدوں پر دستخط نہیں کیے۔ مثال کے طور پر چند معاہدوں کا ذکر ہم ذیل میں کرتے ہیں:
1۔ بچوں کے حقوق کا کنونشن
2۔ اقتصادی، اجتماعی اور ثقافتی حقوق کا کنونشن
3۔ جبری گمشدہ کیے جانے والے افراد کی حمایت کا بین الاقوامی کنونشن
4۔ انسانی حقوق کا بین الاقوامی کنونشن
5۔ عورتوں سے امتیازی سلوک کا کنونشن
یاد رہے کہ ایسے 45 بین الاقوامی کنونشنز اور معاہدے ہیں جن پر امریکہ نے دستخط نہیں کیے یا ان کی توثیق نہیں کی بلکہ امریکہ تو جب چاہتا ہے دستخط کیے ہوئے معاہدوں سے بھی یک طرفہ طور پر نکل جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ہی کنونشنز یا قراردادوں کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر امریکہ اپنے مقابلے پر آنے والے، یا مخالف ممالک پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرتا رہتا ہے بلکہ ان سے بڑھ کر بعض ممالک پر فوجی یلغار سے بھی نہیں چوکتا۔ وقت آگیا ہے کہ امریکی ماہیت کو دنیا پر آشکار کیا جائے۔ جب ہم امریکہ کے خلاف بات کرتے ہیں تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہم امریکی عوام کے خلاف بات نہیں کر رہے ہوتے کیونکہ ان کی اکثریت تو خود مظلوم ہے۔ ہم امریکہ پر مسلط ظالمانہ انسان دشمن سرمایہ دارانہ بے رحم نظام سے نفرت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا کہ جب دنیا اور امریکہ کے عوام ظلم کی تاریک رات سے نجات پائیں گے اور عدل الٰہی کا روشن سویرا نمودار ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply