کتابی باتیں۔۔۔ معاذ بن محمود

جمہوریت عوامی نمائیندگی کا نام ہے، کم از کم کتابوں کی حد تک۔ جن کتابوں نے جمہوریت کی یہ تعریف کی ہے وہی کتابیں ایکجمہوری ریاست کی تعریف بھی کرتی ہیں۔ یہی کتابیں اس ریاست کو ریاستی طاقت جیسی قوت کا امین بناتی ہے تاکہ عوام کےحقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ یہی طاقت انصاف کی بنیاد پر مستعمل رہتی ہے۔ انصاف کی بنیاد عمل ہوا کرتی کے ناکہ پہچان۔

لیکن یہ سب کتابوں کی حد تک ہے۔

میرا نام معاذ بن محمود ہے۔ یہ میری پہچان ہے۔ ریاستی طاقت کے آگے جوابدہ ہونے کے لیے مجھے ایسا عمل کر گزرنا ہوگا جو انکتابوں کے تحت جرم ہو جن کتابوں نے ریاست کو کوئی مبینہ جرم سرزرد ہونے کے نتیجے میں مجھ سے جواب طلبی کی اجازت دیہے۔ جرم کیا ہے؟ ہر ایسا عمل جو فرد کے حق پر بالواسطہ یا بلاواسطہ چوٹ لگائے۔ پھر سے دوہراتا ہوں۔ جرم، ہر وہ عمل ہے جوفرد کے حق پر بالواسطہ یا بلاواسطہ چوٹ لگائے۔ میرا نام میرا جرم نہیں۔ میرے باپ کا نام میرا جرم نہیں۔ میری تاریخ پیدائشمیری جائے پیدائش میرا جرم نہیں۔

رضوان بھائی میرے پہلے مینیجر تھے۔ یہ قریب ۱۵ برس پرانی بات ہے۔ اب یہ میرے بھائی ہیں۔ ایک لمبے عرصے بعد مجھے ڈی ایچاے لاہور سے لینے آئے۔ دوسرے الفاظ میں محبت اور عزت و تکریم دینے آئے۔ میں ان کا مہمان تھا۔ ایک خاندانی شخص کےنزدیک مہمان کو عزت دینی بنتی بھی ہے۔ گاڑی میں بٹھا کر کھانا کھلانے لے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک عدد فوجی چوکی موجودتھی۔

فوج میری حفاظت کی ضامن ہے۔ مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی عار نہیں کہ فوج کا وجود مجھ سمیت پورے خاندان کے لیے تحفظ کیعلامت ہے۔ اس ضمانت کے لیے فوج کو طاقت کی نمائش سے لے کر استعمال تک کا حق حاصل ہے۔ یہ حق انہی کتابوں کےذریعے تفویض ہے جن کتابوں کے تحت اس حق کی بنیاد میری یعنی فرد کی حفاظت ہے۔ فوج کا یہ حق سر آنکھوں پر۔

چوکی پر ایک فوجی ادھیڑ عمر اہلکار گاڑی روکنے کا اشارہ کرتا ہے۔ بطور میرا محافظ ہونے یہ اس کا حق بھی ہے اور بطور تحفظ کاضامن فرض بھی۔ یہ حق اور یہ فرض بھی سر آنکھوں پر۔ گاڑی روک کر اہلکار رضوان بھائی سے میری جانب اشارہ کر کے میراتعارف کروانے کا کہتا ہے۔ میرا نام معاذ بن محمود ہے۔ یہی معلومات فوجی اہلکار کو بھی فراہم کر دی جاتی ہے۔ کسی بھی وجہ سےیہ شناخت کافی نہیں۔ اہلکار مجھ سے پوچھتا ہے کہ میں کہاں رہتا ہوں۔ میں بتاتا ہوں کہ ابو ظہبی میں۔ یہ معلومات بھی ناکافی ہیں۔ممکن ہے وہ جس زاویے سے معاملات دیکھتے ہوں اس دشا میں اندھا ہوں۔ مجھ سے میری شناخت کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔ میںاپنی ریاست جس کا میں شہری ہوں اور اس ریاست کا جس کا رہائش پذیر، دونوں کے شناختی ثبوت اہلکار کے ہاتھ میں رکھ دیتاہوں۔ یقیناً یہ میرا فرض ہے۔

لیکن یہ ثبوت بھی ناکافی ہیں۔

شناختی کارڈ دیکھ کر مجھے بتایا جاتا ہے کہ میں ایک ایسی جگہ کا شناختی کارڈ رکھتا ہوں جس کا نام خیبر پختونخواہ ہے۔ اتفاق سے یہمعلومات میں ابھی تک بھولا نہیں سو میں ہاں میں جواب دیتا ہوں۔ یہاں یاددہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ خیبر پختونخواہ بہرحالپاکستان کا حصہ ہے، نیز امید ہے کہ انشاءاللہ رہے گا بھی۔ میں اثبات میں سر ہلاتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے گاڑی سے اتر کر سو میٹرپر واقع ایک چوکی میں اپنی دونوں شناختی علامات دکھانے کا حکم نامہ دیا جاتا ہے۔

یہاں سے آگے مجھ سے جواب طلبی کا یہ مرحلہ فقط میری جائے پیدائش کی بنیاد پر شروع کیا جاتا ہے۔ میرا مبینہ جرم ایک مخصوصمقام پر پیدائش ہے جس پر میں حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میرا کوئی اختیار نہیں تھا۔

چوکی میں مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ مجھے کیوں روکا گیا۔ جواب دیتا ہوں شاید شناختی ثبوت پر خیبر پختونخواہ کے لفظ کے باعث۔ میںمزید کہتا ہوں کہ اگر اللہ پاک نے مجھے لاہور میں پیدا کیا ہوتا تو میں اس وقت آپ کے قیمتی پانچ وقت کے ضیاع کا مؤجب نہیںبنتا، سو میں اوپر والے کے اس کارنامے پر آپ سے شدید معذرت خواہ ہوں۔ جوان مجھے آگاہ کرتا ہے کہ اس کا وقت ضائع نہیںہوا کیونکہ یہ اس کا معمول کا فریضہ ہے۔ اس پر میں جوان کو اپنے پانچ منٹ ضائع ہونے کا مسکراہٹ بھرا مژدہ سناتا ہوں۔

شناختی ثبوت پر چونکہ خیبر پختونخواہ لکھا ہے لہذا میری بات کا یقین کرنا نامناسب سمجھا جاتا ہے۔ میری دستیاب کردہ معلومات کویقینی بنانے کے لیے میرا شناختی ثبوت دستیاب نظام کے تحت ایک عدد پرکھا جاتا ہے۔ مجھے آگاہ کیا جاتا ہے کہ میرے شناختیثبوت سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں۔ سرکاری نظام کے اس سقم پر میں اپنی حفاظت پر متعین جوان سے معذرت کا طلب گار ہوتاہوں کیونکہ یقیناً اس میں غلطی میری ہی ہے۔ ساتھ ہی میں ایس او پی کے تحت کاروائی کی درخواست کرتا ہوں تاکہ جوان کا کامآسان ہوجائے۔ شاید اب کی بار جوان کو میری فراہم کردہ معلومات کے ساتھ میرے ایس او پی کی پابندی کے مشورے پر بھییقین نہیں رہتا لہذا میری فراہم کردہ معلومات پھر سے چیک کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مزید کچھ دیر میں کسی طرح میری شناختیموجودگی ثابت ہوجاتی ہے اور مجھے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

رضوان بھائی کے چہرے پر افسوس کے آثار واضح تھے۔ رضوان بھائی مہمان کو جو عزت دینے کے لیے کوشاں تھے، ریاستی اہلکاراسے صفر سے ضرب دے چکے تھے اور اس کی وجہ میری شناختی دستاویز پر ایک علاقے کا نام تھا۔

مجھے خیبر پختون خواہ کے شناختی کارڈ کی بنیاد پر بہت چھوٹی سی سزا دی گئی تھی۔ میرے جرم کا تعلق میرے کسی عمل سے نہیںبلکہ میری شناخت سے تھا۔ بہرحال یہ ایک چھوٹی سی سزا تھی۔

ساشا بیرن کوہن ایک بہترین اداکار ہے۔ یہ مضمون لکھنے سے پہلے ساشا کی نئی فلمشکاگو سیوندیکھنے کو ملی۔ یہ ۱۹۶۹ میں ویتنامجنگ کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے والے سات افراد کے خلاف مقدمے پر مبنی ہے جس میں طاقت کے آگے ریاستی مشینریکو استعمال کرتے ہوئے سات افراد کو سزا ہوتے دکھایا گیا ہے۔ ساتوں افراد کا جرم بھی ان کے کسی بھی عمل سے ہٹ کر ان کیشناخت ان کی پہچان تھی۔ یہ تمام افراد ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال کے باغی تھے۔ ایک رسمی قانونی کاروائی کے ذریعے انسات افراد کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ ان افراد کا جرم بھی ان کی شناخت یا وجہ شہرت تھی۔

جمہوریت عوامی نمائیندگی کا نام ہے، کم از کم کتابوں کی حد تک۔ جن کتابوں نے جمہوریت کی یہ تعریف کی ہے وہی کتابیں ایکجمہوری ریاست کی تعریف بھی کرتی ہیں۔ یہی کتابیں اس ریاست کو ریاستی طاقت جیسی قوت کا امین بناتی ہے تاکہ عوام کےحقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ یہی طاقت انصاف کی بنیاد پر مستعمل رہتی ہے۔ انصاف کی بنیاد عمل ہوا کرتی کے ناکہ پہچان۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن یہ سب کتابوں کی حد تک ہے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply