بے شمار انسانوں نے اس خا کستری سیارے پہ قدم رکھا اور اپنی بساط کے مطابق تاریخ اور انسانی ذہن کو متاثر کرنے کے بعد خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے کسی انسان کا سب سے بڑا کارنامہ انسانی ذہن کو متاثر کرنا ہے ۔انسان کو اپنے حالات کے تابع کرنا سب سے بڑی فتح ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے نظریات ذہن پذیر اور عالم گیر نوعیت کے ہیں ۔انسانی ذہن کو متاثر کرنے میں کارل مارکس جدید تاریخ میں ایک بڑا نام ہے ۔اس کے مقابلے میں فادر آف کیپٹل ازم ایڈم اسمتھ ہے ۔لیبرل ازم کے بانی جان لاکافلسفہ اب عملی شکل میں ڈھل رہاہے۔ انسانی ذہن کو متاثر کرنیوالے بڑے دماغوں کی فہرست بہت طویل ہے ،عظیم دماغوں کے منظر نامے میں اگر ہم پیغمبر اسلام ﷺکی اثر انداز ہونے والی سیرت کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں انفرادیت کا ایک روشن افق نظر آئے گا، جس پر ہر لحظہ ایک نئی تجلی سے آپ کا نور ِبصیرت جلوہ افروز ہو رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آپ کی سیرت پاک ہر روز ایک نئی کتاب کے ساتھ ایک نئے سبق کے ساتھ انسانی ذہن کو بالکل نئی جہت سے متاثر کر رہی ہے ۔میں یہ تعریف مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہیں کر رہا ہوں ،نہ کسی مذہبی تعصب کے تناظر میں۔ مجھے تو کنفیو شسںاور گوتم بدھ کے خیالات بھی پسند ہیں ۔ مارٹن لوتھرکا اسلوب تقریر ہٹلر کی آتش زیر پا شخصیت اور چر چل کا فتح پر یقین بھی میرے ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
دنیا میں جتنے بھی بڑے دماغ ہوئے ہیںکسی ایک زاویہ نگاہ کی عکاسی کرتے ہیں یا ان کی فکر کائناتی نوعیت کی نہیں ہوتی ۔اس لیے آمادہ بہ زوال رہتی ہے۔لا فانی وہ ہوتا ہے جسے زمانے کا بہائو اور تیز کرے اور ہر دور کا انسان اس سے فیض یاب ہو۔ ایساصرف پیغمبر اسلامﷺ کی عظیم شخصیت میں پایا جاتا ہے۔ ان کی عظمت کے گوشے ابھی پردہ اخفا میں پڑے ہوئے ہیں اگر آپ ﷺ کی صرف تین فضیلتوں، امید ،عزم ،اور حسن مساوات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کسی بڑے سے بڑے لیڈر میں بھی نہیں پائی جاتیں۔ آپ کاکمال یہ ہے کہ آپ نے ان کو اپنے نظر یے میں سمو دیا ہے تاکہ نسل ِانسانی قیامت تک سیراب ہوتی رہے۔ انسانوں کو قدرت کا شکر گزار ہو نا چاہیے تھاکہ اتنی شفیق ہستی کا نزول ہو ا ہے لیکن افسوس نعمت کا احسان مند ہونے کے بجائے ،انسان نے نعوذاللہ،آپﷺ کی گستاخی کی ،مسلمان اگر ہزاروں سال اس پر آنسو بہاتے رہیں تو اس کی تلافی نہیں ہو سکتی
بیا ہم نفس باہم بنا لیم
من و تو کشتہ شان جمالیم
دو حرفے برمراد دل بگوئیم
بپائے خواجہ چشماں بمالیم
ترجمہ ۔ اے ہم دم آ مل کے گر یہ کریں میں اور تو ان کے جمال کے دیوانے ہیں ۔آ دو باتیں دل کی مراد کے مطابق کہیں اور آنکھیں خواجہ یثرب کے پائوں پر مس کریں ۔
پیغمبر اعظم کی عزت کا مسئلہ پوری نوع انسانی کا مسئلہ ہے کیونکہ ایک کا دکھ سب انسانوں کا دکھ ہے۔ اگر کوئی محسوسں نہیں کرتا ہے تو یہ اس کے مردہ احساس ضمیر کاآئینہ دار ہے۔ گساخانہ خاکے یا نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخیوں “نعوذ با اللہ” کے اسباب کا جب تک کھوج نہ لگایا جائے اس گناہ عظیم کا جڑ سے اکھاڑنا نامکمن ہے ۔اسباب کااگر قلع قمع کر دیا جائے تو اس کا تدارک کیاجا سکتا ہے ۔ اس کی پہلی وجہ ملت اسلامیہ کی حالت زار ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یورپین پارلیمنٹ میں 662ممبروں نے پاکستان کے خلاف قراردار منظور کی ۔پورا یورپ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے متحد ہو گیا ۔،مسلم ممالک کی بے حسی دیکھیں کہ کسی ایک نے بھی ردعمل نہیں دیا ۔مذمت کرنا تو بہت دور کی بات ہے اگر یہ حالت بدستور ہتی تو اسلام کی بے حرمتی سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ دوسری وجہ مسلمانوں کی غربت اور کسمپرسی کے حالات ہیں یاد رکھیں بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔لاکھوں مسلمان یورپ میں گرین کارڈ کی بھیک مانگتے ہیں اور مسلم ممالک انگریزوں کی معا شی کالونیاں ہیں ، پہلے وہ بلاواسطہ ہمارے حکمران ۔اب بالواسطہ ہیں ۔مسلمان ایک نئے معا شی کالونیل دور سے گز رہے ہیں ۔
ہم معا شی غلام ہیں اور غلاموں کے جذبات کا کوئی احترام نہیں کرتا ۔سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس غلامی کا شعورامت مسلمہ کو بالکل نہیں۔ یعنی وہ غلامی کے نشے میں مست ہیں۔ آج ایک تحریک آزادی کی ضرورت ہے ۔ایک اور وجہ ،مسلمانوں کی معاشی و سائنسی میدان میں پیدا واری صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اگر اشیاء اپنی ہوں تو ہم دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں ایک گائوں کی مقامی دکان پر بھی انگلش یا فارن کمپنیوں کی اشیاء بڑی مقدار میں پائی جاتی ہیں ۔ ہم فارن اشیاء کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں نہ سو شل میڈیا کو ترک کر سکتے ہیں ۔ہم نعرے لگاتے ہیں لیکن قول وعمل کے تضادکا سخت شکار ہیں ۔ عزیزوآپ اتنے مضبوط ہوں کہ آپ کا اپنا انٹرنیٹ نظام ہو ،اپنی ایپز ہوں ،پروڈکسٹزاپنے ملک کی ہوں آپ کی چیزوں کی اتنی مانگ ہو کہ اہل یورپ ان کے بغیر نہ رہ سکتے ہوں تو سوچیں آپ کا دبائو کتنا موثر ہو گا ۔ اور بھی وجوہات ہیں جن کے لئیے ایک دفتر درکار ہے، کچھ نفسیاتی بھی ہیں اور غیر مسلموں کی جہالت بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔ لیکن میں ایک ایسی وجہ بیان کرنے لگا ہوں جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی سخت ضرروت ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا ترازو ہے جہا ں سونا اور لوہا ایک ہی پلڑے میں رکھا جاتا ہے جس کی ریٹنگ بڑ ھ جائے وہی ہیروہے۔۔ فرض کریں اگر ملائیشیا کی اکثریت کسی دوسرے ملک کے کسی آدمی کے خلاف احتجاج کرے اور سو شل میڈ یا پر اس کا ذکر ہو تو اس آدمی کا اپنے معا شرے میں شہرت کا گراف اوپر چلا جائے گا ۔مختلف کمپنیاں اسے اشتہاردیں گی اور اس کے مالی اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہو گا ۔ اس کو دیکھ کر دوسرے آدمی بھی اس جیسا کام کرنے کی آروزو کریں گے ۔ میری اس بات کو اہل ایماں خوب سمجھ سکتے ہیں ۔
وجوہات کا خاتمہ اس عظیم گناہ کو ختم کر سکتا ہے لیکن ہم اپنے حالات بدلنے کے بجائے دوسروں کے حالات بدلنا چاہتے ہیں۔ اب میں ملت اسلامیہ کے سامنے چند تجاویز رکھتا ہوں ۔
جن کے موثر استعمال سے ان گستاخیوں کا سلسلہ بندکیا جا سکتا ہے ۔سب سے آسان یہ ہے کہ ترکی ،پاکستان ،ایران ،انڈونیشیا ،ملا ئیشیا ،سعودی عرب اور مصر اپنی سفارتی کو ششوں سے روس ،چین کو ساتھ ملا کر اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کریں ۔موقف پرتقاریر اتنی جامع ہوں کہ مخالفین کے پاس رد کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہ رہے۔ اقوام متحدہ میں یہ قرارداد منظور ہو جائے کہ پیغمبراسلامﷺ کے خلاف بات کرنا قابل سزا جرم ہو گا ۔ دوسرا حل بھی مشکل نہیں ہے کہ اسلامی تنظیمیں یورپ کی عدالتوں میں یہ جنگ لڑ یں ۔اگر یورپ کی کوئی عدالت اس کو ، قابل سزا ، جرم قرار دیتی ہے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے تیسری تجویز بہت موثر ہے ۔بلکہ یہی راستہ ہے جو آخرکار مسلمانوں کو اپنا نا ہو گا جو ہمیں منزل کے قریب کر دے گا۔ مسلمانوں کے سب مکاتب فکر مل کر ایک بہت اعلیٰ یو نیورسٹی قائم کر یں ۔ جس میں یورپ ،روس اور چین کی ساری زبانیں پڑھائی جائیں ۔ہر سال ان زبانوں کے سینکڑوں سکالرز فارغ التحصیل ہوں جو اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک ہوں ۔وہ ان ممالک میں اسلام کا عالم گیر پیغام پہنچائیں پھر اسلام طاقت ور اقوام کا مذہب بن جائے گا ۔ہماری اسلامی تنظیموں کو اس مقصد کے لیے پورازور لگا نا ہو گا ۔ تب کہیں جا کر کعبے کے محافظ صنم خانے سے پیدا ہوں گے
کریں گے اہل نطر تازہ بستیاں آباد
مری نگا ہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں