• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پہلی بار لاہور آمد اور نیشنل کالج آف آرٹس کی سیر۔۔چوہدری عامر عباس

پہلی بار لاہور آمد اور نیشنل کالج آف آرٹس کی سیر۔۔چوہدری عامر عباس

کم و بیش بیس بائیس سال پہلے کی بات ہے مجھے آج بھی یاد ہے گاؤں سے پہلی بار چچا جان کیساتھ لاہور آئے ہوئے وہ میرا تیسرا دن تھا۔ ان تین دنوں میں صبح شام اٹھتے بیٹھتے چچا جان مجھے وقتاً فوقتاً لاہور کے بارے میں معلومات دیتے رہے۔

بہرحال اس دن کالجز سے پراسپیکٹس اکٹھے کرکے دن کے تقریباً ایک بجے میں واپس چاچا جی کے دفتر پہنچا۔ ہر روز دوپہر کا پرتکلف کھانا چاچا جی کے دفتر آ کر ہی کھاتا تھا سختی سے حکم تھا۔
بلاشبہ کھانے پینے میں چچا جی جیسا وضع دار بندہ آج بھی میرے خاندان میں نہیں ہے۔ اس دن انھوں نے چکن والے چاول منگوا رکھے تھے۔ بڑے مزے کے خوشبودار رنگ برنگے چاول تھے۔ کھانے کے دوران چاچا جی نے بتایا کہ اسے سندھی بریانی کہا جاتا تھا۔ ساتھ رائتہ بھی وافر مقدار میں تھا۔ کھانے کے بعد چاچا جی اپنے دفتر کام میں مصروف ہو گئے اور میں دفتر کی بالکونی میں بیٹھ کر اونگھنے لگا جہاں سے این سی اے کا صحن صاف نظر آتا تھا۔

پہلے دن سے ہی این سی اے کے بارے چاچا جی نے اس سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ گویا میرے لئے یہ ایک “شجر ممنوعہ” تھا۔ میں بھی ابن آدم تھا معمولی سرکشی میری سرشت میں تھی۔ ماحول دیکھ کر اندر کے پینڈو نے پھر سے انگڑائی لی۔ نیند اڑ چکی تھی اور دل نیشنل کالج آف آرٹس اندر سے دیکھنے کو مچلنے لگا۔ نظر بچا کر میں پراسپیکٹس لینے کیلئے این سی اے کے گیٹ پر جا پہنچا۔

گیٹ سے اندر جانے لگا تو سکیورٹی گارڈ نے اندر جانے سے منع کر دیا اور کہا کہ پراسپیکٹس وہ سامنے سٹال سے ملے گا۔ منع کرنے کے باوجود میں نے اندر جانا چاہا تو گارڈ نے  مجھے  کالر سے پکڑا اور    کھینچ کر سائیڈ پر لیجا کر پراسپیکٹس کاؤنٹر پر لیجا کھڑا کیا اور کہا “ایتھے مر، اندر تیرا کیہہ کم اے؟”۔

میں نے با دل نخواستہ پراسپیکٹس خریدا اور واپس آ کر گارڈ کے منتیں ترلے کرنے لگا کہ قصور کے بہت دور افتادہ علاقے سے آیا ہوں مجھے ایک بار اندر جانے دو۔ داخلہ کے متعلق کچھ معلومات لینی ہیں۔ بہت مشکل سے گارڈ کو منایا۔ جنت نظیر وادی کی سیر کی خوشی میں پھولے نہیں سما رہا تھا۔ تمام ڈاکومنٹس لیکر گیٹ پر میرے نام کا اندراج کرکے بالآخر مجھے اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
کالج کیا تھا واقعی جنت کا ٹکڑا تھا۔ سبزہ اور انواع اقسام کے پودے اور درخت ماحول کو مزید رومانٹک بنا رہے تھے۔ رنگ برنگے پھول آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے۔ چہل قدمی کرتی نوجوان لڑکیاں لڑکے کالج کے ماحول کو چار چاند لگا رہے تھے۔ لڑکوں کی نسبت لڑکیاں بہت زیادہ تھیں۔

تھوڑا آگے گیا تو ایک لڑکے سے کینٹین کا پوچھا لیکن وہ جواب دیے  بغیر آگے بڑھ گیا۔ پھر جینز شرٹ میں ملبوس ایک لڑکی سے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ یہاں چائے کہاں سے ملے گی؟ اس نے بڑی دھیمی آواز سے سمجھایا کہ وہ سامنے کیفے ٹیریا ہے۔ میں نے کہا “نہیں مجھے کنٹین پر جانا ہے”۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا “ہاں جی وہیں سے چائے، برگر، سموسے اور ہر چیز ملے گی”۔ میں کیفے ٹیریا کی طرف بڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اگر یہی پتہ میں نے اپنے گاؤں کی کسی خاتون سے پوچھا ہوتا تو اس نے تھاپا لے کر میرے پیچھے پڑ جانا تھا۔ پورے گاؤں میں جو بدنامی ہونی تھی وہ وکھری۔

خیر کنٹین۔۔۔ اوہ سوری کیفے ٹیریا پہنچا۔ چائے کا آرڈر دیا۔ ایک سائیڈ پر میز کرسی لگی تھی وہیں بیٹھ گیا۔ ساتھ والی میز پر ایک لڑکی اور لڑکا بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ تیکھی نگاہوں سے انھیں حسرت بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔ وہ وقفے وقفے سے میری طرف دیکھ کر ہنستے تو مجھے شرمندگی سی محسوس ہوتی۔ خیر چائے آئی تو ایک نواں کٹا کھل گیا۔ اب وہ ایک ہی کپ میں پانی اور دودھ الگ الگ نظر آ رہا تھا ساتھ ہی ایک تعویذ نما پڑیا رکھی تھی(مجھے اس وقت بالکل بھی علم نہیں تھا کہ سیپرٹ چائے بھی کوئی چیز ہوتی ہے)۔ ساتھ بیٹھے جوڑے کیلئے بھی وہی چائے آئی۔ انکی طرف دیکھ کر چائے بنانے لگا۔ ٹی بیگ نچوڑ رہا تھا کہ چائے کے کچھ قطرے میری گود میں گر گئے۔ یہ سب ماجرا وہ جوڑا بھی دیکھ رہا تھا اور دونوں ہنس بھی رہے تھے۔ لڑکی نے لڑکے کو کچھ کہا۔ لڑکا اپنے ٹیبل سے اٹھا اور اس نے اپنی چائے والا کپ میرے آگے رکھ دیا اور میرے والا کپ اٹھا کر اپنے پاس لے گیا۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ دونوں جیسے بھی تھے لیکن کتنے اچھے تھے۔ بدمزہ سی چائے پی کر کنٹین والے کو پیسے دے کر آگے بڑھا۔

ادھر اُدھر گھوم پھر کر دیکھا کہ جا بجا لڑکے لڑکیاں گروپس کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ چارٹس پر تصویریں بنا رہے تھے، کچھ گروپس میں پڑھائی چل رہی تھے۔ کچھ گروپس میں گانوں کا مقابلہ چل رہا تھا، کچھ گروپس میں لڑکے لڑکیاں گٹار بجا بجا کر گانے گا رہے تھے۔ دنیا مافیہا سے بےنیاز عجب خوشگوار اور تخیلاتی ماحول تھا۔ یہ ایک نئی دنیا تھی جہاں آ کر بندہ باہر کی دنیا کو بھول جاتا ہے۔

گھڑی پر نگاہ ڈالی تو وقت کافی گزر چکا تھا لہذا بادل نخواستہ واپسی کا قصد کیا۔ کالج سے نکلنے کو بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ وقت تھم جائے اور میں کالج میں ہی رہ جاؤں۔ گیٹ سے آ کر اپنے ڈاکومنٹس اور پراسپیکٹس لی اور چچا کے دفتر کی طرف چل دیا۔ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ اچانک بجلی کی طرح دماغ میں خیال کوندھا کہ اگر چچا جان نے این سی اے کی پراسپیکٹس دیکھ لی تو ایویں میرا تماشا بن جائے گا۔ سوچنے پر ایک آئیڈیا آیا۔ میں نے اپنی قمیض کے اوپر والے بٹن کھولے اور پراسپیکٹس قمیض کے اندر بنیان میں ڈال کر پیٹ کے اوپر رکھ لی۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر بعدازاں مجھے ایف سی کالج میں داخل کروا دیا گیا۔ این سی اے میں تو داخلہ نہ لے سکا لیکن عملی زندگی میں نیشنل کالج آف آرٹس سے فارغ التحصیل بہت سے لوگ میرے کولیگ اور اچھے دوست بھی بنے۔ بہت سے اساتذہ کیساتھ اچھا رشتہ استوار ہو گیا۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ پاکستان کی میڈیا اور شوبز انڈسٹری این سی اے کے بغیر ادھوری ہے۔ ففتھ جنریشن وار اور دشمن کی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کیلئے پورے ملک میں ایسے اداروں کی ازحد ضرورت ہے۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ نیشنل کالج آف آرٹس نے بہت بڑے بڑے نام اس میڈیا انڈسٹری کو دئیے۔ ہر پروڈکشن ہاؤس، انفوٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ چینل میں نیشنل کالج آف آرٹس کے ٹرینڈ خواتیں و حضرات اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہے ہیں۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply