مذہب اور ثقافت ۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

ان دو کے مفہوم کا تناسب جدید سماجی علوم میں بطور الجھن سامنے آتا ہے کہ مذہب اور ثقافت میں سے کیا قدیم ہے اور ان کے درمیان تعلق کے کونسے پہلو اہم ہیں ۔
اس موضوع کی بابت محققین کی رائے کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،

ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ ثقافت و تہذیب قدیم ہیں ، ان کے نزدیک چونکہ مذہب درحقیقت انسان کے ذہن ہی کی پیداوار ہے، اسی لئے مختلف خطوں کے مذاہب کی جڑوں میں وہاں کی سماجی زندگی، نفسیات، رسوم و رواج، عقل و دانش کے معیار حتی کہ موسم اور زمینی ساخت جیسے عوامل کا اثر تک نمایاں ہے، ایسے محققین یہ باور کراتے ہیں کہ مذہب درحقیقت عقلی طور پر نابالغ انسان کی تخلیق ہے، جس کا مقصد ایسے مظاہرِ فطرت کی توضیح کرنا تھا جو اس وقت کے انسان کی عقلی حدود سے ماورا تھے ۔

اگرچہ اس بات میں بظاہر وزن ہے، لیکن سامنے کا سوال یہ ہے کہ آج کا جدید انسان مظاہرِ فطرت کی عقلی توضیح کے بعد بھی مذہب پہ اب تک یقین کیوں رکھتا ہے ؟ کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب نہ ہوں گے کہ مظاہرِ فطرت کی توضیح مذہب کا صرف ایک پہلو ہے، فرد کیلئے اس پہلو کے علاوہ بھی مذہب پر یقین کے دیگر اسباب ہو سکتے ہیں ، ویسے بھی آج کا تعلیم یافتہ انسان جو مذہب پر یقین رکھتا ہے وہ خدا کو صرف ناقابلِ سمجھ عوامل کی توضیح کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے ذاتِ حق کو بطور آزاد اور غیر منحصر حقیقت ماننا چاہتا ہے۔
ان افراد کی رائے سے اگر اتفاق کر لیا جائے تو پھر یہ بات درست ثابت ہوگی کہ مزہب بھی ثقافت کے دوسرے پہلوؤں مثلا اخلاقیات، فنونِ لطیفہ، سائنس و سماجی علوم کی طرح صرف ایک پہلو ہے اور اس سے زیادہ کی مذہب کی حقیقت نہیں ۔

محققین کا دوسرا گروہ بالکل متضاد رائے رکھتا ہے، ان کے نزدیک ثقافت کی جڑیں مذہب کی سرزمین سے پھوٹتی ہیں ، چونکہ ثقافت کی بنیاد اقدار و رسوم پر پروان چڑھتی ہے تو ان اقدار و رسوم کا واحد منبع مذہب ہی ہے ، گویا کہ درحقیقت مذہبی نوعیت ہی معاشرے کی روزمرہ زندگی، سماجی و شعوری ادراک، رسوم و رواج اور دیگر تمام ثقافتی امور کی سمت طے کرتی ہے۔ اگر ان محققین کی بات سے اتفاق کر لیا جائے تو پھر ہر حال میں یہ ماننا ہوگا کہ مذہب ہر دور اور ہر خطے کے فرد کی اولین ضرورت رہا ہے ۔

اس نکتے کی تائید میں یہ مشاہدہ بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے کہ گلوبل ثقافت کی طرف بہاؤ درحقیقت مذاہب کی چھانٹی کا نتیجہ ہے، یعنی کہ مذاہب سے جوں جوں خرافات دور ہوتی جا رہی ہیں، ثقافت میں ایک اجتماعیت اور مماثلت ابھرتی نظر آرہی ہے، اس کے برعکس ثقافتیں اگر قریب بھی ہوں تو مذاہب کی دوری کو نہیں مٹا سکتیں۔
خود شعوری کی کوشش ہر انسان میں بالقوہ موجود ہے، اس کوشش کے بیرونی اور اندرونی، دونوں محرکات ہو سکتے ہیں، خود شعوری کے اس سفر میں فرد کی ایک منزل یا مقصد مقرر ہوتا ہے، اگرچہ عدم ادراک کی وجہ سے گاہے فرد خود بھی اس مقصد سے آگاہ نہیں ہوتا، لیکن فرد اپنی فعالیت میں کسی محرک پہ انحصار ضرور کرتا ہے، جو اسے آگے کی طرف دھکیلتا ہے۔

ثقافت فرد کو وہ تمام سہولیات میسر کرنے کی پابند ہے جن کی مدد سے فرد اپنے مقصد کی طرف بڑھتا ہے، ثقافت کا ہر پہلو فرد کو اس کے مقصد کے مطابق ایک آپشن دیتا ہے جسے فرد استعمال کر سکتا ہے، مثلاً ثقافت کا اخلاقی پہلو فرد کو، ضمیر، کے مطابق چلنے کی دعوت دیتا ہے، فنونِ لطیفہ کی سمت میں فرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ، حُسن، کو اپنا مرکز مانے، سیاسیات میں عدل اور علم کی دنیا میں موضوعی رائے، objective opinion، ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

لیکن اس کوشش میں کسی بھی نتیجے کو حتمی قرار دینا ارتقاء کو روکنے کے مترادف ہے، جیسا کہ ضمیر اور حُسن کی تعریف وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے، اسی طرح جدید ثقافت کے ان پہلوؤں اور ان کے سہاروں کے درمیان بھی ایک کشمکش دیکھنے میں آتی ہے، جیسے سیاست اور ضمیر باہم ہم آہنگ نہیں ہو سکتے، اور جدید سائنس گمان یا ادراک پہ انحصار کرنے کو تیار نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسانوں کی بدلتی خواہشات، مقاصد، مختلف نکتہ ہائے نظر اجتماعی ثقافت کو بدلتے رہتے ہیں، مذہب کی بابت معاملہ مختلف ہے، مذہب کو سیاست، فنونِ لطیفہ یا سائنس سے تو آسانی سے جدا کیا جا سکتا ہے، لیکن الجھن یہ ہے کہ مذہب اور اخلاقیات کے درمیان فرق کی بہت باریک لکیر ہے جسے عموما جدا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے کہ مذہب اور اخلاقیات کے مقاصد مختلف ہیں، اور اس سمت ارتقاء کیلئے بنیادی تبدیلی اخلاقیات کے میدان میں دیکھنے میں آتی ہے نہ کہ مذہب میں، ثقافتی ارتقاء میں غیر مذہبی اخلاقیات کا وجود سامنے کی بات ہے، جیسا کہ کنفوشس کی اخلاقیات، اسی طرح غیر اخلاقی مزہبی تصویر بھی ہمارے سامنے ہے جس کی سب سے بڑی مثال یونانی دیوتاؤں کی دیو مالائی کہانیاں ہیں، مذہب کو سمجھنے کیلئے محققین نے ہمیشہ تاریخ کے جھروکوں سے مذہب کی نوعیت کو پرکھنے کی کوشش کی ہے جبکہ اس کے بنیادی وجود کو کنگھالنے کی گنجائش آج بھی موجود ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply