ماں کی چھاتی مت بیچیے۔۔۔ انعام رانا

عرصہ ہوا جب میری پہلی بیگم اور میں نے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تو ایک دن اس نے کہا “اگر زندگی میں تم نے دوبارہ شادی کی تو پلیز اس سے پہلے عورت کے جسم اور نفسیات کے متعلق ضرور جان لینا۔”

مجھے یہ شرمناک حقیقت ماننے میں کچھ عار نہیں ہے کہ باجود 32 برس کی عمر میں شادی اور اعلیٰ  تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود میں عورت کے جسم کے متعلق کچھ جانتا ہی نہیں تھا۔ میں تو اس سماج سے آیا تھا جہاں ماں اور بہنیں حیض میں بھی باقاعدہ سحر و افطار کرتی  ہیں، کہ گھر کے مردوں کے سامنے اس فطری ترین حالت کا حال نہ  کھلے، جن سے انھیں ہر ماہ گزرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں مَیں کیسے جان سکتا تھا کہ ماہواری میں عورت کن “موڈ سونگز” کا شکار ہوتی ہے، وہ روتی کیوں ہے، جھگڑالو کیوں بن جاتی ہے، اسکا جسم اسکی نفسیات پہ کیسے اثر انداز ہوتا ہے۔

صاحبو !یہ واقعی سچ ہے کہ مرد نے عورت کے ساتھ سونا سیکھا ہے، جاگنا ابھی سیکھ رہا ہے۔ اور ہمارے پاکستانی سماج میں تو سیکھنا ہی نہیں چاہتا۔ اور مرد و زن کے تعلق میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عورت اپنی ماہواری کی تکلیف بیان کر دے تو ہماری اقدار خطرے میں پڑ جاتی ہیں، وہ اپنی جنسی خواہشات کو بیان کر دے تو کاری ٹھہرتی ہے۔ حمل اور زچگی کے دوران وہ کن جسمانی اور نفسیاتی کیفیات سے گزرتی ہے، باپ بننے کی خوشی میں ہم ان سے جاہل  رہ جاتے ہیں۔ اور یہ ہی جہالت میاں بیوی کے رشتے میں جانے کتنی ہی غلط فہمیوں کا باعث بنتی ہے۔ سچ پوچھیے تو سب سے پہلا قصور ہماری ماؤں کا ہے۔ بطور ہماری پہلی درسگاہ وہ ہمیں یہ تعلیم نہ  دینے کی مجرم ہیں کہ عورت کا جسم اور اسکی نفسیات کا اسکے جسم سے کیا تعلق ہے۔ گھر سے تعلیم نہیں ملتی اور نصاب بھی اس معاملے میں مکمل خاموش ہے۔ اس مذہب کے پیروکاروں کا ملک کہ جو قرآن و حدیث میں جنس و تولید کے مفصل بیان سے واقف ہیں، وہاں نصاب کی یہ خاموشی فقط جہالت ہی نہیں مجرمانہ  غفلت بھی ہے۔ مرد کو جب تک اسکے اپنے گھر کی عورت تعلیم نہیں  کرے گی، مرد عورت کے متعلق نہ  جان پائے گا اور نہ  ان ایشوز کو سمجھ پائے گا۔

ان ہی معاملات میں ایک ایشو عورت کا بچے کو دودھ پلانا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل میں اپنی والدہ جیسی قابل ِ عزت اور معروف لکھاری محترمہ عفت نوید کا بریسٹ فیڈ پہ ایک پیغام شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا
“بھائی  لوگو، یہ عورت اور بچے کے خوف ناک مسائل ہیں ، آپ پیشاب نہیں روک سکتے ، اور دیوار کی اوٹ  میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن عورت یہ عمل صاف ستھری جگہ ہی کرے گی نا  ۔ اور اگر اسے دیر ہو جائے تو اس کی چھاتی میں ناقابل بیان درد ہونے لگتا ہے ۔ بچے کو ٹائم پر دودھ نہ ملے تو اسے سمجھ نہیں آتی کہ ماں اسے سینے سے لگائے ہونے کے باوجود  دودھ کیوں نہیں دے رہی ۔ پھر سہولت ملتے ہی جب ماں اسے دودھ دیتی ہے ،بچہ ضد میں آکر دودھ نہیں پیتا ، یا سو جاتا ہے ۔ اب چھاتی میں تکلیف خطر ناک حد تک بڑھ جاتی ہے ۔ ۔۔پھر چمچ سے دودھ نکالنا پڑتا ہے ، تاکہ پتھر کی سی سختی جو جان نکال رہی ہوتی ہے اس سے نجات ملے ، یہ بھی خاصا تکلیف دہ عمل ہے ۔ ہم نے یہ تکلیف سہی ہے ،ہم جانتے ہیں ، اب اگر ایک عورت یہ ہمت کر رہی ہے تو کچھ لوگ مسائل کا ادراک کیے بغیرکچھ بھی بول رہے ہیں۔ عورت کو جہاں ، جب بھی موقع ملے بچے کو دودھ پلائے ، وہ ان فیصلہ سنانے والوں سے زیادہ شرم و حیا رکھنے والی عورت ہے ، لیکن جانتی ہے کہاں شرم کرنی ہے کہاں نہیں “۔

صاحبو اس برس اکتالیس کا ہو جاؤں گا۔ ماں کا بڑا بیٹا، صاحبِ  اولاد بہنوں کا بھائی ہونے کے باوجود میں اس سے لا علم تھا۔ اگر صاحبِ  اولاد ہوتا تو شاید پھر بھی سمجھ جاتا مگر میرا گھر اور میرا سماج عورت کی اس تکلیف کو تعلیم کرنے میں ناکام رہے۔ یعنی بطور مرد مجھے ضرورت ہے کہ مجھے تعلیم کیا جائے کہ عورت پہ اس صورت میں کیا گزرتی ہے، اور بچے پہ کیا۔ یہ تعلیم تحریر اور آجکل کے رواج کے مطابق یو ٹیوب وڈیوز کے ذریعے دینا بہت اہم اور ریلوینٹ ہے۔ بریسٹ فیڈنگ ویسے بھی خواتین کے لیے  بھی اہم ایشو ہے۔ چھاتی کی بناوٹ بچانے  کے فیشن میں عورت نے یہ فطری عمل چھوڑا اور کئی مسائل سے دوچار ہوئی۔ چنانچہ پوری دنیا میں ماں کو چھاتی سے دودھ پلانے کی جانب راغب کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی خواتین بلکہ مرد کے لیے  بھی یہ تعلیم بہت اہم ہے۔

حالیہ دنوں میں ایک محترم دوست جو اک محترم دوست کی بیگم ہیں کی وجہ سے یہ قصّہ اُبھرا ہے۔ میں عورت کے چھاتی سے دودھ پلانے کے حق میں ہوں۔ اس کے  سرِ عام چھاتی سے دودھ پلانے کے حق میں ہوں۔ یہ مرد کے پیشاب کرنے جیسا فطری عمل نہیں بلکہ ماں کا وہ عمل ہے جو اس کائنات کی بقا اور تسلسل ہے۔ لیکن  مجھے حقائق کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔ میں پاکستانی اور مغربی دونوں معاشروں کا تجربہ رکھتا ہوں۔ عورت کی چھاتی مشرق و مغرب دونوں جگہ جنسی تلذذ کے ایک عضو کے طور پہ لی جاتی ہے۔ مشرق کیا مغرب تک میں عورت کی چھاتی کی مکمل برہنگی “فحش” کی تعریف میں آتی ہے۔ اسکے باوجود میں مکمل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے پاکستان یا کسی بھی ملک میں فحش کی یہ تعریف کبھی دودھ پلاتی ماں پہ اپلائی ہوتے نہیں دیکھی۔ ماں کا جب جی چاہے جہاں چاہے بچے کو دودھ پلانا شروع کر دیتی ہے اور مرد اپنی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو جو نہ  پھیرے اسے شاید جنسی مجرم سمجھا جائے۔ یہ بھی ذاتی تجربہ ہے کہ خواتین مشرق و مغرب میں سرعام دودھ پلاتے ہوئے  بھی چھاتی کا کچھ پردہ رکھتی ہیں۔ اکتالیس سال کی عمر اور بیس سے زائد ممالک پھرنے کے باجود میں یہ دعوی ٰ سے کہتا ہوں کہ بچے کو دودھ پلاتی عورت سے جنسی تلذذ یا اسے روکتا ہوا مرد پاکستان سمیت کسی ملک میں نہیں دیکھا۔ ہاں ہر ملک کے کلچر کے مطابق اٹھارہ بیس کا فرق عورت کے روئیے میں لازمی موجود تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوئی بھی عورت جو بچوں کو دودھ چھاتی سے پلانے کی تعلیم کرے میں اسکے ساتھ ہوں۔ وہ تصویر یا وڈیو کے ذریعے یہ پیغام دے تو میں اسکے ساتھ ہوں کہ یہ بچے اور خود عورت کے لیے   جدید تحقیق کے مطابق بہتر ہے۔ کوئی مرد یا سماجی و مذہبی اصول اس عورت کو اپنے بچے کو سرعام دودھ پلانے سے روکے تو میں اسکے خلاف ہوں۔ لیکن صاحبو !ماں کا دودھ بہت مقدس ہے۔ اگر آپ “چھاتی سے پبلک دودھ پلائی “ان کٹ” جیسے ٹائٹل لگا کر، “مجھے دودھ پلاتا دیکھیں اور میرا چینل سبسکرائب کریں” جیسی دعوت دے کر مجھے ساتھ ملانا چاہیں تو میں بہت دور ہوں۔ کلک بیٹنگ کے لیے  اور بہت سے موضوع موجود ہیں۔ آپ کے ایسے کلک بیٹنگ رویے  ان عورتوں کے مسائل کو بھی مزاح اور ویوز کی بھوک بنا کر پیش کر دیتے ہیں جن کی آوازیں سسکیاں بن کر اس سماج کے    منہ پہ چیچک کا داغ بن گئی ہیں۔ آپ کا چینل سلامت، آپ کو لاکھوں ویوز ملیں، لیکن میں ماں کا دودھ اور اسکی چھاتی بیچنے میں آپ کے ساتھ نہیں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply