اپوزیشن خان صاحب سے سیکھیے۔۔محمد اسد شاہ

کرونا وباء سے دنیا بھر میں کتنے لوگوں ، اداروں ، کمپنیوں، حکومتوں اور حکم رانوں نے کتنے فائدے اٹھائے ، اس پر اگر تحقیق کی جائے تو شاید کئی سال صرف ہو جائیں ، کئی کتابیں لکھنا پڑیں یا ایک کتاب کی دسیوں جلدیں شائع کرنا پڑیں اور جنھیں پڑھنے میں بھی قارئین کو مہینوں لگ جائیں – دور کیوں جائیں ، اپنے ملک کی ہی ایک مثال پہ غور کر لیتے ہیں – عالمی اداروں کی طرف سے حکومت پاکستان کو کرونا وباء کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اربوں ڈالرز امداد ملی ، جسے ایک پیکج کی شکل دے کر استعمال کیا گیا – تقریباً چھ ماہ قبل آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے وزیراعظم کے کرونا پیکج پر اربوں روپے کے اخراجات کا آڈٹ کیا تو انکشاف ہوا کہ ان اخراجات میں چالیس ارب روپے کی کرپشن ہوئی – یہ رپورٹ فائنل ہو گئی – لیکن خاں صاحب کی حکومت نے اس رپورٹ کو جاری کرنے سے انکار کر دیا – یہاں رکیے اور چند باتیں سوچیے – خاں صاحب تو ہمیشہ بہت زور اور شور مچاتے ہیں کہ وہ کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں – یہ کہاں کا جہاد تھا کہ اس رپورٹ کو چھپا لیا؟ اگر اس سکینڈل میں نواز لیگ کے کسی لیڈر کا نام ہوتا تو خاں صاحب کا اندازِ بیان کیسا ہوتا؟ تحریک انصاف کی ساری قیادت کتنی پریس کانفرنسز کرتی ؟ کتنے جلسوں میں کاغذ لہرائے جاتے ؟ کتنی بار چور چور کی گردان ہوتی؟ وفاقی کابینہ کے کتنے اجلاسوں میں خاں صاحب اس سکینڈل سے نمٹنے اور ن لیگ کی پوری قیادت کو آڑے ہاتھوں لینے کی ہدایات جاری فرماتے ؟ سوال یہ ہے کہ خاں صاحب کا وہی رویہ ، وہی لہجہ ، وہی شعلہ بیانی ، ویسی پریس کانفرنسز اور ویسے ریفرنسز اس کرپشن کے خلاف کیوں نہیں ؟ اس طالب علم نے تو پہلے دن سے ہی خاں صاحب کی اس “کرپشن کے خلاف جہاد” والی کہانی پہ کبھی یقین نہیں کیا، اس لیے خاں صاحب کے اس دوہرے معیار سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی ، بل کہ اللّٰہ رب العزت کا شکر ادا کیا کہ جس نے فہم عطا فرمائی – سوال تو ان سادہ لوح عوام کا ہے جنھیں اس رویئے کا اندازہ ہی نہ تھا – ان بے چاروں کا خیال تو یہ تھا کہ ادھر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ آتی ، اور ادھر خاں صاحب کا پارہ ساتویں آسمان پہ جا پہنچتا اور فوری طور پر نیب سے رابطہ کر کے تحقیقات کے لیے کہا جاتا – فواد چودھری ، شبلی فراز ، فیصل واڈا ، اسد عمر ، شہباز گل ، عمران اسماعیل اور دیگر باری باری پریس کانفرنسز کر کے شور مچاتے – اور خاں صاحب تقریروں میں اپنا مشہور عالم ڈائیلاگ دہراتے کہ “این آر او نہیں دوں گا -” لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہایت خاموشی سے این آر او دے دیا گیا – وجہ یہ کہ اس سکینڈل میں مسلم لیگ نواز کے کسی بھی بندے کا نام نہیں تھا – کیا اب بھی اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ خاں صاحب کی مخالفت دراصل کرپشن سے نہیں ، بل کہ صرف ایک شخص اور اس کے خاندان سے ہے – اور ایسی مخالفت کو سیاسی نہیں ، ذاتی کہا جاتا ہے – ورنہ اس رپورٹ کو دبانے کا حکم کیسے جاری ہوتا ؟ وہ تو دعا دیجیے آئی ایم ایف کو کہ جس نے قرض دینے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی رکھ دی کہ اس رپورٹ کو پبلک کیا جائے – یوں یہ رپورٹ سامنے آ گئی – ورنہ بہت سے لوگ آج بھی ہمیں زبردستی صداقت و امانت کے ترانے سنا رہے ہوتے – گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں ایک خبر شائع ہوئی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وزیراعظم کرونا پیکج کے تحت 133 ارب روپے دیئے گئے – آڈٹ رپورٹ کے مطابق اس میں پچیس ارب روپے کی کرپشن ہوئی – اسی پروگرام کے تحت یوٹیلیٹی اسٹورز کو دس ارب روپے دیئے گئے – اس میں پانچ ارب بیس کروڑ روپے کی کرپشن سامنے آئی – نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو بائیس کروڑ روپے دیئے گئے تو اس میں چار ارب اسی کروڑ روپے کی کرپشن سامنے آئی – خبروں کے مطابق وزیراعظم کے اس پیکج کے لیے 30 جون 2020 تک کھربوں روپے مختص کیے گئے لیکن اصل رقم بہت کم دی گئی – مزدور طبقے کے لیے اس پیکج میں دو سو ارب روپے شامل تھے ، لیکن صرف سولہ ارب روپے تقسیم ہوئے – انتہائی غریب خاندانوں کے لیے ایک سو پچاس ارب روپے رکھے گئے لیکن ایک سو پینتالیس ارب روپے خرچ کیے گئے – یوٹیلیٹی اسٹورز کو سو ارب روپے دینے کے دعوے کیے گئے ، جب کہ صرف دس ارب روپے دیئے گئے – غریب طبقے کے لیے بجلی اور گیس کے بلوں میں رعایت دینے کے لیے سو ارب روپے کا اعلان کیا گیا لیکن صرف پندرہ ارب روپے خرچ کیے گئے – آڈٹ رپورٹ کے مطابق چینی حکومت نے کرونا مریضوں کے لیے اڑھائی سو بستروں پر مشتمل جدید ترین انفیکشن سنٹر یا ہسپتال بنانے کے لیے چار ملین ڈالر دیئے – لیکن ایسا کوئی ہسپتال بنایا ہی نہیں گیا – نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے وینٹی لیٹرز مہنگے داموں خرید کر دس لاکھ ڈالرز کا نقصان الگ سے کیا – بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر کرونا پیکج کے تقریباً سات ارب روپے ایسے افراد کو دیئے گئے جو دراصل غریب یا مستحق ہی نہیں تھے – ان میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو ریٹائرڈ سرکاری افسران ہیں اور ماہانہ پنشن بھی لیتے ہیں – اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ یہ افراد تقریباً پانچ لاکھ ہیں جنھوں نے بے نظیر انکم سپورٹ کے علاوہ زکوٰۃ فنڈ سے بھی رقوم وصول کیں – اس رپورٹ میں کرپشن کے مزید بھی بہت سے انکشافات موجود ہیں جن پر 30 نومبر 2021 کو انصار عباسی صاحب نے بھی لکھا ہے – لیکن بہت سے نامور صحافی جو خاں صاحب کے کرپشن کرپشن والے بیانیے کے شدید مداح ہیں ، اب تک خاموش ہیں – سوال پھر یہی ہے کہ خاں صاحب کی شعلہ بیانی اس معاملے میں کیوں غائب ہے ؟ خاں صاحب کی خاموشی کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس سکینڈل میں سابقہ حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے ، اور نہ ہی شریف خاندان پہ اس کا ملبہ ڈالا جا سکتا ہے – کبھی کبھی جب میرے جیسے طالب علم یہ کہتے ہیں کہ خاں صاحب کا مسئلہ کرپشن نہیں ، صرف شریف خاندان ہے تو ہمارے پی ٹی آئی کے دوست ناراض ہو جاتے ہیں – ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ چھ ماہ تک رپورٹ چھپائے رکھنے اور خاں صاحب کی خاموشی کی کوئی اور وجہ اگر ہے تو بتا دیں – اور ساتھ میں یہ بھی بتا دیں کہ گزشتہ سال آٹے کی مد میں غریب عوام سے ہزاروں ارب روپے لوٹے جانے کا جو سکینڈل سامنے آیا تھا ، اور جس پر خاں صاحب نے اپنے قریبی ساتھیوں کو اپریل 2020 میں ہتھ کڑیاں لگوانے کا اعلان کیا تھا ، اس کا کیا بنا؟ چینی مافیا پر ہاتھ ڈالنے کے دعوے کو بھی ڈیڑھ سال گزر گیا – ادویات مہنگی کرنے کے سکینڈل کا کیا بنا؟ راول پنڈی رنگ روڈ سکینڈل کے ملزمان کیوں نہیں پکڑے گئے – صرف کمشنر راولپنڈی کے “تبادلے” پر بات ختم کر دی گئی – کیا اربوں روپے کی کرپشن کے سکینڈل میں کسی سرکاری ملازم کا ایک شہر سے دوسرے شہر تبادلہ کر دینا سزا ہے؟ خاں صاحب کے مشیر خاص زلفی بخاری اور وفاقی وزیر دفاع غلام سرور خان کے نام لیے گئے تھے لیکن پھر ہر طرف خاموشی چھا گئی – کسی قریبی ساتھی کے نجی ٹی وی چینل کے کروڑوں روپے کے واجبات کی وصولی کے بغیر ہی لائسنس بحال کرنے کو بھی این آر او نہیں کہا جائے گا تو پھر کیا کہا جائے گا؟ یا صرف یہی بتا دیں کہ خاں صاحب کیوں کہا کرتے تھے کہ “ملک میں کرپشن تب ہوتی ہے جب وزیراعظم چور ہوتا ہے”؟
خاں صاحب کے چاہنے والوں کو تو شاید ان کے ہر خاموش این آر او پر اطمینان ہو ، لیکن سوچنے والوں کو خاں صاحب کی خاموشی پر بھی افسوس ہے ، اور اپوزیشن کی خاموشی پر بھی – محترمہ مریم نواز ، مولانا فضل الرحمان اور دیگر اپوزیشن لیڈرز کو کبھی خیال آیا کہ اگر خاں صاحب اپوزیشن میں ہوتے تو کتنا شور مچاتے ؟ اس طالب علم کا مشورہ تو یہ ہے اپوزیشن کو خاں صاحب سے سیکھنا چاہیے کہ مخالفین پر شور کیسے مچایا جاتا ہے –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply