انتشار اور یکسوئی۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

انتشار کا رخ کثرت کی طرف ہوتا ہے اور یکسوئی کا وحدت کی طرف! منتشر خیال ہوناٗ دراصل منتشر حال ہونا ہے ٗاور منتشر حال ہونا افعال اور کردار کو منتشر کر دیتا ہے۔ یہ حال صرف کیف اور کیفیت والا حال نہیں بلکہ زمانے والا حال بھی ہے۔ حال میں انتشار ماضی اور مستقبل دونوں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ ماضی کے اچھے کام یک قلم‘ قلم زد کر دیے جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک بار اپنے صاحب، یعنی صاحبِ حال حضرت واصف علی واصفؒ کی محفل میں بیٹھا تھا، یہ نجی محفل تھی‘ یعنی گلشن ِ راوی کے آفس میں۔ ایک ایسی بات تھی جس پر یہ طالب علم بضد تھا، قال سے توبہ کرتا تھا ، خیال سے نہیں، یعنی خیال بدستور اسی دیوان کے طرف مائل تھا جس طرف جانے سے صاحب ِ اَمر کی طرف سے حکمِ امتناعی جاری ہو چکا تھاـــ باطن میں میری ضد کو دیکھتے ہوئے آپؒ نے جلال میں فرمایا’’ ضبط کر لو اِس کی کتاب‘ اگر یہ باز نہیں آتا تو…‘‘ اس وقت یہ ناچیز ’’پہلی کرن‘‘ کتاب کا مصنف بن چکا تھا، کتاب منظر ِ عام پر بھی آ چکی تھی۔ ( راقم کالم بھیجنے سے پہلے چند دوستوں کو سنایا کرتا ہے، کالم سناتے ہوئے یہاں تک پہنچا تو کامران شاہین نے پوچھا کہ حال کے بدحال ہونے سے ماضی کیسے خیر سے محروم ہو سکتا؟ جواباً عرض کیا ‘ جیسے حال میں حسد کرنے سے ماضی میں کی گئی نیکیاں جل کر راکھ ہو جاتی ہیں۔ اگر حال کا کلمہ ماضی کا کفر مٹا سکتا ہے تو حال کا کفر بھی ماضی کے ایمان پر قلم پھیر سکتا ہے۔ آپؒ فرمایا کرتے :
ع بھریا اس دا جانیے جیدھا توڑ نبھے
بہرطور اس طالب علم کے لیے اس مذکورہ ممنوعہ دیوان کی طرف جانے سے ممانعت میں دیوانگی ہی معاون ثابت ہوئی،وگرنہ اَز خود رک جانا ٗ اس کے بس کی بات ہرگز نہ تھی۔ شکر ہے ٗبال بال بچ گیا، مرشد کا خصوصی تصرف شامل ِ حال ہوا، اور دلِ ناداں طواف ِ کوئے ملامت سے بچ گیا، وگرنہ ایک کتاب ہی کیا، سب کچھ ہی ضبط ہو جاتا۔ یعنی آنے والی کتابیں بھی بحقِ صاحب و سرکار ضبط ہوجاتیں۔ ظاہر ہے‘جب خیال ضبط ہوجاتا تو قلم اور کتاب سب کچھ ہی اٹھا لیا جاتا۔
ظاہر میں نظر آنے والے ضابطے بھی باطن میں مقرر کیے جاتے ہیں۔ باطن میں سرِ مُو انحراف ‘ ظاہر میں سربسر انحراف کا باعث بن جاتا ہے۔دراصل انعطاف بھی ایک درجے کا انحراف ہی ہوتا ہے۔ یہ بات ہے منشور کی! صرف انعکاس ہی روشنی کی حقیقت سے روشناس کرتا ہے۔ بات سمجھنے کی ہےٗ باطن اور ظاہر میں حائل صرف وقت کا حجاب ہوتاہے، جونہی وقت کا پردہ اُٹھتا ہے‘ باطن ظاہر ہوجاتا ہے۔ اس لیے وقت کی وہ حد آنے سے پہلے ہی تہہ دل سے تائب ہو جانا چاہیے۔ اس وقت سے ڈرنا چاہے ‘جب وقت کا پردہ مزید پردہ پوشی نہ کر سکے۔ وقت کے اِس پردے کو مہلت بھی کہہ سکتے ہیں اور اس وقفے کو وقفہ امہال!! کہتے ہیں ٗ گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتاــــ لیکن توبہ وقت کو واپس لے آتی ہے۔وقفۂ امہال گزر جائے تو پھر وقت واپس نہیں آتا بلکہ عبرت بن کر ٹھہر جاتا ہے۔
انتشار اور یکسوئی میں وہی فرق ہے ‘جو موت اور زندگی میں ہوتا ہے۔ انتشار موت ہےـــکسی بھی فکر کی، عمل کی اور پھر کردار کی! یکسوئی سے حیات جنم لیتی ہے۔ فکر و افکار کی جنم گاہ بھی یکسوئی ہے۔ یکسوئی کو انتشار میں بدلنے والی چیز خواہشِ نفس ہے۔ نفس ٗانتشار کا خوگر ہے، روح ٗیکسوئی کی دلدادہ ہے۔ روح جہاں یکسوئی کا آسن دیکھتی ہے‘ مرتکز ہو کر بس وہیں کی ہو رہتی ہے۔ روح کی قوت شاملِ حال نہ ہو تو جسم کا تسویہ نہ ہو سکے۔ کسی مزکّی نفس کی توجہ نہ ہوتو نفس کا تزکیہ نہ ہوسکے۔ ایسا لگتا ہے جیسے روح اپنے لیے جسم خود تیار کرتی ہے۔روح روٹھ جائے تو زندگی روٹھ جاتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ پھول کی پتیوں سے خوشبو برآمد ہوتی ہے یا پھر یہ کہ اِس عالمِ رنگ وبو میں خوشبو اپنے اظہار کے لیے پھول میں پتیوں کی ترتیب خود مرتب کرتی ہے۔
زندگی کیا ہے ‘ عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے‘ اِنہیں اجزأ کا پریشاں ہونا
پنڈت برج نارائن چکبستؔ لکھنوی روح کی تفہیم سے ذرا فاصلے پر رہ گئے۔ عناصر میں ترتیب زندگی کو ظہور میں نہیں لاتی بلکہ زندگی اپنے اظہار کی تڑپ میں عناصر کو محوِ ترتیب کر دیتی ہے۔
خواہش ِ نفس ہماری روحانی قوتوں کو منتشر کرتی ہے اور اسے عالمِ کثرت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ روح سفیرِ وحدت ہے۔ عالمِ اجسام کے اس اجنبی دیس میں روح مضمحل ہوجاتی ہے ـــ اس لیے تازہ دم ہونے کے لیے اسے کبھی نیند اور کبھی موت کی ضرورت پیش آتی ہے۔کثرت میں روح کو وحشت ہوتی ہے۔ اسے وحدت میں سکون میسر آتا ہے۔یکسوئی ‘مائل بہ وحدت ہےـــ انتشار‘مائل بہ کثرت !!
یکسوئی میں مداومت کا نام استقامت ہے۔ استقامت کرامت نہیں ‘ فوق الکرامت ہے۔ جہاں بندۂ استقامت دیکھیں ‘ سمجھیںٗ وہیں کہیں راہِ مستقیم بھی ہے۔ راہِ مستقیم بندہ ٔاستقامت کے پاس خود چل کر پہنچ جاتی ہے۔گویا صراطِ مستقیم استقامت والوں کے قدم بہ قدم ہوتی ہے۔ ایک انعام یافتہ بندے کی راہ ‘راہِ استقامت ہوتی ہے یا استقامت کی راہ اختیار کرنے والوں پر انعام نازل کیا جاتا ہےـــ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔بہر حال یہ مالک کے فیصلے ہیں ‘ جسے چاہے راہِ ہدایت دے، جسے چاہے ہادیؐ کے قدموں کی دھول بنائے اور جسے چاہے راہِ ہدایت کا سنگِ میل بنائے۔
انتشار لغو ہے، یکسوئی خشوع ہے۔ جب دل جھک جائے ‘ مکمل تسلیم کی حالت میں آجا ئے ‘ یعنی تسلیم میں پورے کا پورا داخل ہو جائے‘ تو یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے۔ یکسوئی کسی مراقبے میں مشغول ہونے کا نام نہیں بلکہ اَمر اور صاحب ِ اَمر کی متابعت میں غیر مشروط اطاعت میں ڈھل جانے کے ایک کیف کا نام ہے۔ جونہی انسان حکم عدولی کا ارادہ کرتا ہے ٗ اس کا خیال منتشر ہونے لگتا ہے۔ خود ساختہ ریاضت و مجاہدہ بالعموم نفس کو طاقت ور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ نفس کا شیش ناگ کسی جوگی کا ہنر ہی پکڑ پاتا ہے۔ کوئی بالناتھ میسر آئے تو مجاز سے حقیقت کا رخ سامنے آئے۔ ٹلاں جوگیاں پر یکسوئی کا آسن جمانے والابالناتھ سب رانجھوں کے مقدر میں کہاں!!
مومن یکسو ہوتا ہے، منافق دو مونہہ! مومن اپنے رب کے ساتھ ایک عہد اور پھر اس عہد پر استقامت کی مالا پہنے ہوئے ہوتا ہے۔ منافق در درکی خاک چھانتا ہوا ‘ دربدر ! مومن کا تعلق ذات سے ہوتا ہے، منافق صرف صفات کی مالا جپنے والا موقع پرست!! قیام ذات کو حاصل ہے، صفات رنگ رنگ ہیںـــ متغیر بھی ہیں اور متضاد بھی! دائرہ صفات سے نکل کر ذات کے محور میں داخل ہونے والا زمان مکاں کی گردش سے نکل جاتا ہے۔ ذات ہی ہستی کا محور و مرکز ہے، محور میں گردش تھم جاتی ہے۔ دانۂ گندم ہو ٗیا پھر اسے کھانے والا ٗاگر کیل ( مرکز ) کے اندر داخل ہوگیا تو گردشِ روز و شب کی چکی اِسے پیس نہیں سکے گی۔
انتشار پہلے خیال میں رونما ہوتا ہے‘ پھر عمل میں! خیال میں یکسو ئی عمل میں استقامت کا پیش خیمہ ہے۔ اس لیے اصلاح کے باب میں پہلے خیال کی اصلاح کی بات کی جاتی ہے۔ اصلاحِ خیال نیکی کا ذوق پیدا کرتی ہے۔ اگر نیکی کا ذوق پیدا ہوگیا تو برائی سے اَزخود وحشت ہو جائے گی۔ احبابِ ذی ذوق! برائی کا نام نہ لو! بس نیکی کی بات کرتے جاؤ، خوشبو کی بات کرو، بدبو کے تذکرے سے محفل کو بدمزہ نہ کرو!! پاک محفل ڈھونڈو! پھر اس محفل کا حصہ بن جاؤـــــ اپنی تنہائی آباد کرو، محفل کو اپنی تنہائی تک لے جاؤ! جب تنہائی آباد ہو گئی تو خلوت اور جلوت میں فرق نہ رہے گا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ مومن وہ ہے جس کی تنہائی مومن ہے۔ خوشبودار کا تذکرہ خوشبودار کرے گا، پہلے افکار کو ، پھر کردار کو!!
معصیت انتشار کی طرف لے جاتی ہےـــ معصومیت یکسوئی کی طرف! کسی معصوم صفت ذات کا اَمر ہمیں معصیت سے بچا سکتا ہے۔ معصومیت کے حرم میں معصیت کا داخلہ ممنوع ہے۔ جو خود معصیت سے دُور ہے ٗوہ اپنے چاہنے والوں کو معصیت کے قریب کیسے دیکھ سکتا ہے۔ یکسوئی کا زینہ محبت ہےـــ اور منزل ــــــ کوئی صاحب ِ منزل!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply