پڑیے گر بیمار تو(7)۔۔فاخرہ نورین

پیسے اس نے مجھے بھیج دیے تھے ،میری تنخواہ بھی آ چکی تھی لہٰذا پیسوں کا تو معاملہ رہ بھی نہیں گیا تھا ۔ کچھ اس غصے میں ویسٹرن یونین سے پیسے وصول کرنے نہیں گئی تھی کہ وہ اپنے پیسے اپنے پاس رکھے۔اگر مجھ سے رابطہ یا تعلق نہیں تو پیسے تو میں خود ٹھیک ٹھاک کما لیتی ہوں ۔
اکڑ اور غصہ، دکھ سب اپنی جگہ لیکن اس کے بیمار ہونے کے امکان نے مجھے توڑنا اور ڈرانا شروع کر دیا تھا ۔ گالیاں اور دھمکیاں دیتی میں اب سوال اور التجا پر آ گئی تھی ۔
تمہیں کیا ہوا ہے زبیر، پلیز مجھے بتاؤ  تم ٹھیک ہو ناں۔ دیکھو جو بھی ہے جو کچھ بھی ہے، بات تو کرو ناں، بتاؤ تو سہی مجھے پتہ تو ہو تم کیسے ہو ۔
میں روتی اور منتیں کرتی ۔
تم جس حال میں بھی ہو، مجھے پتہ ہونا چاہیے یہ میرا قانونی حق ہے ۔تم پابند ہو مجھے بتانے کے ۔
میں اسے دھمکیوں سے گھیرتی۔
ایسے میں ایک دن عمر سیال آ گیا ۔
ڈاکٹر کیسی ہو؟ تمہارا میاں کیسا ہے ۔ اس نے پوچھا ۔
میں نہیں ٹھیک ہوں عمر اور میاں بھاڑ میں جائے وہ کیسا ہے مجھے کچھ نہیں پتہ ۔ اللہ جانے کیا فراڈ کر رہا ہے میرے ساتھ ۔ میں رو پڑی۔
وہ بیمار بھی تو ہو سکتا ہے ڈاکٹر، بہت زیادہ بیمار، تم ایسا کیوں نہیں سوچ رہی ؟ اس نے جس لہجے میں کہا میں چونکنے کے ساتھ ساتھ ڈر گئی ۔

تم کچھ جانتے ہو؟ تم کیا جانتے ہو، کیا ہوا ہے اسے ؟ اس نے تمہیں کچھ بتایا ہے کیا ؟ مجھے کیوں نہیں بتا رہا کچھ بھی ۔
عمر سیال صرف میرا بھائی اور دوست نہیں زبیر کا بھی دوست اور بھائی ہے ۔سو اس کی بات کو میں ہلکا نہیں لے سکتی تھی ۔ وہ کچھ نہ کچھ خبر رکھتا تھا ۔

میں بے بس بھی تھی اور سراسیمہ بھی ۔کوئی ایک جذبہ تو نہیں تھا، کاک ٹیل تھی اور میرے دل و دماغ اس سے لبا لب بھرے پڑے تھے سو میری آنکھیں چھلکنا فطری تھا ۔
دیکھو ڈاکٹر اس نے مجھے تمہیں بتانے سے منع کیا ،بس یہ کہا تھا کہ تمہیں تسلی دوں اور تمہارا دھیان بٹانے کی کوشش کروں ۔ وہ واقعی بیمار ہے اور اینٹی بائیوٹک  لے رہا ہے ۔تم اس کے لئے دعا کرو۔
عمر سیال نے میرے سر پر بم دے مارا تھا ۔
اینٹی بائیوٹک اور وہ بھی زبیر بغیر نخرے اور ضد کے کھا رہا ہے؟ اٹلی میں اینٹی بایوٹک کی دستیابی کا معاملہ ہماری طرح سے تھوڑی تھا ۔اگر ڈاکٹر اسے اینٹی بایوٹک دے رہے تھے تو پھر وہ اتنا بیمار کب اور کیسے ہو گیا کہ ڈاکٹر کے پاس بھی جائے اور اینٹی بایوٹک بھی کھائے۔ کیا ہوا ہے اسے؟ کوئی انفیکشن؟ کوئی حادثہ، کوئی سانحہ؟
میری تکلیف کہیں پس پشت چلی گئی ۔اب میں تھی اور میسج میں منتیں ترلے۔

مجھے بتا دو تمہیں کیا ہوا ہے، کیا تمہارے سارے اعضاء ٹھیک ہیں ۔اینٹی بایوٹک کیوں لے رہے ہو ۔ مجھے بتاؤ جو بھی ہو گیا ہے مجھے بتاؤ۔ تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا ہے؟ کوئی جنسی مسئلہ ہوا ہے؟ کیا تم اس لیے مجھے نہیں بتا رہے ۔یار اگر صرف تم رہ گئے ہو ناں، اور باقی کچھ بھی نہیں رہا تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔ مجھے تم چاہیے ہو، زندہ سلامت ۔تم ہو، اتنا بہت ہے زبیر ۔
میں اسے ہر طرح سے بولنے بتانے پر تیار کر رہی تھی ۔
اس نے کتنے دن سفر کیا تھا تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتا ہے، نیند نہ آ گئی ہو،
کہیں کسی پبلک واش روم سے، کسی ہوٹل کے کمبل سے، کچھ بھی ہو سکتا تھا اور میں اسے کچھ بھی ہوا ہو، بس اس کے ساتھ رہنے کی قیمت کچھ بھی ادا کرنے کو تیار تھی۔
اس نے دو دن کے ترلوں کے بعد میسج کیا کہ اگلے دن بات کرے گا ۔

یہ ایک میسج نو دن کے بعد اس کی طرف سے مجھ سے کوئی گفتگو تھی ۔میں پوری رات جاگی، ہر طرح سے خود کو جانچا پرکھا کہ اگر زبیر کوئی بڑا نقصان کر بیٹھا ہوا تو کیا مجھے کوئی فرق پڑے گا ۔ جواب تھا
ہر گز نہیں ۔
میرے لئے زبیر کی ذات، اس کا ہونا کافی تھا ۔
مجھے اس کی آواز سے عشق ہے، اس کی ناک کا غرور مجھے پسند ہے، اس کی ہنسی میرے دل میں پھول کھلا دیتی ہے، اس سے بات کرنا، اس کے ساتھ چائے یا کافی   پینا ، سفر کرنا یہاں تک کہ سوتے ہوئے کی سانسیں محسوس کرنا میری عیاشیوں میں شامل ہے ۔ جنس ایک اہم ترین عنصر ہونے کے باوجود بھی اس کے میرے تعلق میں واحد رشتہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے درمیان اتنا کچھ ہے کہ اس کی بنیاد پر زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔
بچوں کے بغیر رہ سکو گی؟ میں نے خود کو اپنی واحد محرومی کے حوالے سے جانچنے کی کوشش کی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بچے میرے لئے مقصود بالذات تو کوئی شے نہیں ۔ یہ تو مجھے اس لیے چاہییں کہ میں اسے ایک ساشے پیک میں اپنے ساتھ دیکھ سکوں ۔اس کی موجودگی بصورت دیگر دیکھ سکوں ۔ بچے تو زبیر کی وجہ سے چاہییں، اس کے علاوہ اس کے بغیر تو مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے ہے ۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply