ماسٹر جی دُھنیں پرانی ہو گئی ہیں ۔۔۔۔نذر محمد چوہان

ایک نئی ابھرتی ہوئی  گلوکارہ نے موسیقار کو کہا کہ  اسے گانوں کا چس نہیں آ رہا ، لگتا ہے دُھنیں پرانی ہو گئی  ہیں ۔ ماسٹر جی نے فرمایا ، “بیٹا دُھن تو ایک ہی ہے ، کبھی پرانی نہیں ہوتیں  ، کیا ہے ، کہ  ساز مستقل بجانے سے ٹیوننگ سے باہر ہو جاتے ہیں”
طبلہ سے لے کر ستار ، دنبورہ ، ہارمونیم ، سب کے سب ٹیون کرنے پڑتے ہیں ۔ یہ موسیقی کی دنیا دراصل ہے ہی قدرتی کھیل ۔ یہ کائنات میں resonance یا گُونج پیدا کرتی ہے ۔ اس کا کوسموس نے اپنی ٹیوننگ کے ساتھ میچ کرنا فرض رکھا ہوا ہے ۔ میں صبح جب اٹھتا ہوں تو کھڑکی سے پرندوں کے چہکنے کی آوازیں آتی ہیں ، اتنے سارے پرندے ایک وقت میں چہک رہے ہوتے ہیں لیکن کیا زبردست ملاپ کیا سُر کیا موسیقی ۔ جب کسی کمرشل مال میں بہت سارے لوگ بول رہے ہوتے ہیں تو میں کان بند کر لیتا ہوں اور جب کتا بھونکتا ہے تو وہ ہمارے اندر کے شیطان کو منفی گونج سے ڈرا رہا ہوتا ہے ۔ یہ ساری کائنات ہے ہی گونج ، ایک rhythm، اور ایک وائبریشن والا معاملہ ۔ ہر چیز ہر چیز سے جُڑی ہوئی  ہے ، منسلک ہے ۔

رچرڈ لیویٹن ایک بہت مشہور امریکی روحانی لکھاری ہے ۔ کوئی  ۱۱۴ کتابیں لکھ چُکا ہے ، یہی بات ثابت کرنے کے لیے کے پوری کائنات ایک موسیقی میں جُڑی ہوئی  ہے ۔ کیا زبردست ریسرچ ، کیا عالی شان بیانیہ ، کیا روائتی قصوں یا myths کی تشریح ۔ سائنس کا بیانیہ ہے کہ  جو چیز دیکھی نہیں اور ثابت نہیں ہو سکتی اسے myth سمجھا جاتا ہے اور قرآن پاک میں سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالٰی ہے کے “غیب پر ایمان لاؤ” حضرت بلال کا تپتی ریت پر بھاری بھرکم پتھروں کے تلے جلتے بدن سے اللہ اکبر کہنا بھی myth ہے جس پر ہم سب کا ایمان محکم ہے ۔

رچرڈ نے ۲۰۰۲ میں اسٹارٹ ہی اپنی زبردست کتاب The Galaxy on Earth سے کیا ۔ کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کے کاش یہ کتابیں پاکستان میں نصاب کا حصہ ہوتیں ۔ کیا خوبصورت بیانیہ ہے اس میں حجر اسود کا ۔ رچرڈ کے نزدیک یہ جنت یا ایڈن کا پتھر ہے جو حضرت آدم ساتھ لے آئے تھے اور اپنے کعبہ میں نصب کیا ۔ اُس کے بعد یہی پتھر جبرائیل نے حضرت ابراہیم کو دیا اور موجودہ کعبہ میں لگوایا ۔ یہ پتھر سفید رنگ کا نیلم یا sapphire تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیاہ ہو گیا ۔ کچھ قصوں کے مطابق حیض والی عورتوں کے چُھونے سے اور کچھ میں گناہگاروں اور پلیت روحوں کے چُھونے یا بوسہ دینے سے ۔ کہا جاتا ہے کہ  پاکستانی حکمرانوں میں نواز شریف نے سب سے زیادہ اس پتھر کو بوسہ دیا اور آج جناح ہسپتال کی گائنی کی وارڈ میں پڑا مر رہا ہے ۔ پتھر کو بہت لوگ اپنی نیگیٹو انرجی دے جاتے ہیں ۔ رچرڈ کی ریسرچ کے نزدیک اس طرح کے ۱۲ پتھر مختلف جگہوں پر دنیا میں نصب تھے اور یہ دنیا کا magnetic field کنٹرول کر رہے ہیں ۔ باقی گیارہ اپنی جگہ سے اکھاڑ لیے گئے لیکن وہ اپنی طاقت اور انرجی ان جگہوں پر چھوڑ گئے ہوئے ہیں جہاں سے ان بارہ Ouroboros lines کنٹرول ہوتی ہیں ، جسے آپ ساری کائنات کا Aura بھی کہہ سکتے ہیں ۔
رچرڈ اس کتاب میں دنیا کی کوئی  پچاس اس اعتبار سے مقدس جگہوں کا بھی تذکرہ کرتا ہے جن میں پانچ اس وقت بھی اسلامی ممالک میں واقع ہیں ، دو مصر میں، ایک ترکی میں، ایک ایران میں اور ایک ازبکستان کا شہر ثمر قند ۔ رچرڈ اسلامی فلاسفر اب العربی کا بہت بڑا مداح ہے اور تیمور کے پوتے محمد ترگی آل بیگ کو بہت سراہتا ہے جو ۱۴۲۰ سے ۱۴۳۷ تک ثمرقند کا حکمران رہا ۔ بیگ نے اس وقت ثمرقند میں ایک بہت بڑی آبزرویٹری بنائی  ۔ یہ ایک مدرسہ میں تھی اور ساٹھ سے زیادہ اسکالر دن رات ستاروں کے بابت معلومات اکٹھی اور درج کرتے ۔ کاش بیگ کا بیٹا اس کو قتل نہ کرتا اور آبزرویٹری کو تباہ برباد نہ کرتا تو آج مسلم دنیا میں آسٹرولوجرز اور آسٹرونومرز کی کمی نہ ہوتی ۔ رچرڈ کہتا ہے کہ  بیگ نے اس آبزرویٹری سے وہ کچھ دریافت کیا جو مغرب میں دو سو سال بعد جا کر کیپلر نے کیا ۔ محمد بیگ کا دادا تیمور لین بہت ظالم تھا لیکن وہ بھی علم کا بہت شیدائی ۔ جس ملک کو بھی فتح کرتا حکم دیتا کے یہاں کے عالم فاضل لوگ ، شاعر اور ادیب ، مدرسہ اور لائبریریاں بلکل اسی طرح رہیں گیں ۔ شاید کسی حد تک ٹھیک بھی کہتا تھا باقی لوگ تو نواز شریف اور زرداری کی طرح اس دھرتی پر بوجھ ہی ہیں ۔ تیمور قران پاک کا حافظ بھی تھا ۔ اور علماء سے بہت کچھ سیکھتا اور سکھاتا ۔ ثمر قند کو تین اشخاص نے باری باری فتح کیا ، پہلے سکندر اعظم بعد میں چنگیز خان اور آخر میں تیمور ۔ اسکندر اعظم بھی عالم فاضل لوگوں کا شیدائ تھا بلکہ ارسطو اس کا استاد رہا اور ارسطو نے اپنے استاد افلاطون کے آئڈیلزم کو چھوڑ کر دنیاداری کی تبلیغ کی اور اسکندر کو بھی سکھائی  اور برباد کر دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رچرڈ ثمرقند پر اولگا کھاریتیدی کی کتاب کا بھی حوالہ دیتا ہے ، یہ بھی بہت دلچسپ کتاب ہے ۔ اولگا کہتی ہے کے ثمرقند دنیا کے آئینہ کے طور پر مشہور ہے اس لیے نہیں کے تیمور ادھر بلند و عالیشان عمارات بنانا چاہتا تھا ، اس لیے کے یہ ایک روحانی اعتبار سے مقدس جگہ ہے ۔ ثمرقند اولگا کے نزدیک کائناتی آئینہ کے دونوں رخ دکھاتا ہے ، ایک وہ جو دریا Oxus اور Jaxartes کے درمیان اور دوسرا ٹائگرس اور فرات جو اب عراق میں ہے ۔ اولگا یہ بھی کہتی ہے کہ  یہاں کے دورہ سے ہمارے نفس کی صفائی  بھی ممکن ہوتی ہے ۔ ہمارے اندر کے شیطان یا daemon اس ثمرقند کے انرجی فیلڈ میں آ کر مر جاتے ہیں ۔ ہماری روح کی صفائی  ہو جاتی ہے ۔ اور وہ مزید کہتی ہے کہ ۔۔
Alexander and Genghis cruelties were easy to be healed here.. just have to reboot our energies through lucid
رچرڈ یہاں پھر انسان کا دھرتی سے لنک پر ابن العربی کا بینایہ دہراتا ہے ؛
“The earth which was created from what remained of the clay of Adam”
رچرڈ کہتا ہے کے ابن العربی ؛
Believed that there remained the surplus of leaven of the clay from which Adam was made ..
he believed there was
اسی لیے تمام عقیدوں اور مذاہب میں دھرتی کو ماں دھرتی کہا جاتا ہے ۔
دکھ ہوتا ہے کے مسلمانوں کا جلایا ہوا یہ چراغ چند مطلب پرستوں نے بجھا دیا ۔ اور اب اسے مغرب کے رچرڈ جیسے لوگ جلائے ہوئے ہیں ؛
“For five centuries since Renaissance, we in the west have been held captive by the mistaken idea that the material world is all that is real “
اب مغرب مانتا ہے کے ہم سے بھول ہو گئی  ہم کا معافی دے دو ۔ اور یہ انقلاب یا evolution اب امریکہ سے اٹھ رہا ہے ۔ ان پچاس جگہوں میں دس جگہیں امریکہ میں ہیں ، اور آج بھی ایک پاکستانی خاتون اس وقت بھی ایریزونا ریاست کے شہر سیڈونا جو مغرب کا متبرک شہر سمجھا جاتا ہے وہاں پاکیزگی کا چلہ کاٹ رہی ہے ۔
کچھ جگہوں پر لوگ اپنی نیگیٹو انرجیز بھی چھوڑ جاتے ہیں جیسا کہ  بہت سارے پاکستانی مزاروں پر ۔ ان کی صفائی  بھی لسی نیک روح کا وہاں پہنچ کو چلہ کاٹنے سے ہوتی ہے ۔ شاہ عبد لطیف بھٹائی  کے مزار پر میں نے بہت سکون پایا ۔ ایک ہارورڈ سے تائیوانی خاتون ان پر پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور فارغ ہونے کے بعد وہاں ایک خانقاہ اور مدرسہ بنانے کی خواہش مند ہے ۔ عمران خان کو ایسے لوگوں کو اسپانسر کرنا چاہیے ۔ پاکستان میں ایسے مدرسوں کی ضرورت ہے نہ کہ  نمل وغیرہ جیسے جہاں کے لیے باہر سے فیکلٹی ہی آنے کو نہیں مانتی ۔ پھر ایک دفعہ ہو جائے ، فقیروں اور صوفیوں کا دور ، جب فرسٹ لیڈی بھی پیرنی ہے تو پھر ڈر کیسا ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply