• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شولپان سے اضطراری نکاح اور مقرب تاجک کا دھوکہ/ڈاکٹر مجاہد مرزا

شولپان سے اضطراری نکاح اور مقرب تاجک کا دھوکہ/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
میں اور نینا دریا کے ان دو دھاروں کی طرح تھے جو کبھی جھنجھلا کر اپنی اپنی راہ لے لینے کی جانب مائل ہو جاتے تھے لیکن تھوڑی دور کی بیگانگی کے بعد پھر سے باہم ہو جاتے تھے۔
کام لگتا تھا جیسے بالکل تھم گیا ہو۔ کراچی تو بالکل بیگانہ ہو چکا تھا۔

 

 

 

کسٹمز کے مگر مچھوں سے بیر کرنا ندیم کو بہت مہنگا پڑا تھا۔ اندرون سندھ کے کسی تھانے کی پولیس نے کراچی میں آ کر اس کے دفتر پر چھاپہ مارا تھا اور اسے گرفتار کرکے کراچی سے دور کسی شہر کی حوالات میں ڈال دیا تھا۔ شاید کچھ بے جا تشدد بھی کیا تھا۔ الزامات کی نوعیت مبہم تھی۔ وہ ضمانت پر رہا ہو گیا تھا لیکن مقدمے بھگت رہا تھا اور اس کے کام پر بہت بُرا اثر پڑا تھا۔
میں نے چند ماہ مشکل سے کاٹے تھے۔ بینک میں پڑی رقم بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی تھی۔ منیجر مقرب تاجک اور اکاؤنٹنٹ کی تنخواہ، دفتر کا کرایہ اور دیگر اخراجات تو دینے ہی پڑتے تھے۔ْ
ایک ہی امید بچ رہی تھی کہ کاش الماآتا والے رؤف تاتار سے رقم واپس مل جائے تو میں خود جا کر اپنی نگرانی میں فیبرک کا ایک کنٹینر تیار کروا کر لاؤں تاکہ کاروبار کے اونٹ کو کسی کروٹ بٹھایا جا سکے چنانچہ میں نے ایک بار پھر الماآتا کا سفر اختیار کیا تھا اور ایک بار پھر شولپان کے گھر اقامت ۔ اس بار رؤف نے نہ ملنا تھا نہ ملا۔ میں نے سوچا کہ چلو یہیں سے پاکستان چلا جاتا ہوں، وہاں جا کر تیل اور تیل کی دھار کا جائزہ لیتا ہوں۔ اس اثناء میں شولپان نے اصرار شروع کر دیا تھا کہ تعلق کو کوئی شکل دی جائے۔ ایک روز میں نے اکتا کر کہا تھا چلو چلتے ہیں مُلاں کے پاس اور دو بول پڑھوا لیتے ہیں۔ ہم دونوں الماآتا کی مسجد کے امام سے جا کر ملے تھے۔ چگی داڑھی اور مدوّر چہرے والا قوی الجثہ کازخ امام مقامی زبان میں شولپان سے گفتگو کرتا رہا تھا۔ شولپان کا ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا۔ لگتا تھا کہ وہ امام کے سوالوں کا جواب جھلا کر دے رہی تھی اور امام کا لہجہ خشونت آمیز تھا۔ شولپان نے مجھ سے انگریزی میں کہا تھا، ” آؤ چلیں”۔ مسجد سے تھوڑی دور جانے کے بعد اس نے بتایا تھا کہ مُلا کہہ رہا تھا کہ تم اپنی عمر سے بڑے ایک شخص کو کہیں لالچ میں تو نہیں اپنانا چاہتیں؟ جب اس نے نفی میں جواب دیا تو وہ بولا تمہیں کیا معلوم کہ اس شخص کی پہلے سے کئی بیویاں ہوں اور وہ تمہیں دھوکا دے رہا ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ امام اسی طرح کی اشتعال انگیز باتیں کر رہا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ تم نے تب مجھے کیوں نہیں بتایا تھا میں اس کے سوالوں کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا۔ میں یہ کہہ کر کہ میں اس سے جا کر بات کرتا ہوں مڑنے لگا تو شولپان نے میرا بازو سختی سے گرفت میں لے کر کہا تھا کہ مت جاؤ۔ یہاں کے کازخ دراصل کسی غیر قوم کے آدمی سے مقامی لڑکی کی شادی کے مخالف ہوتے ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اس مُلا سے نکاح نہیں پڑھوانا چاہے گی۔

شولپان کے والد موعود بہت بھلے آدمی تھے۔ ان کی گفتگو کا انداز یلسن کے انداز تخاطب سے بہت ملتا جلتا تھا۔ وہ باتوں کو چبا چبا کر بولتے تھے جیسے ان پر زور دینا چاہتے ہوں۔ انہیں چنگیز خان کی براہ راست نسبت پر فخر تھا اور کمیونسٹوں نے ان کے امیر باپ کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس پر شدید رنجیدہ تھے۔ وہ اکثر بتایا کرتے تھے کہ انہیں تب پانچ برس کی عمر میں محض کھانے کی خاطر کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑا تھا۔ اسی طرح کی اور دکھی باتیں بھی سناتے تھے۔ وہ ایک خود ساختہ شخص تھے۔ باوجود بحریہ سے بطور انجینئر ریٹائر ہونے کے مسلسل کام کرتے تھے۔ ہر طرح کے کام کاشت سے لے کر تعمیر تک۔ خوش شکل انسان تھے۔ شولپان کی والدہ کے شوہر بننے سے پہلے ایک یونانی النسل یہودی خاتون کے شوہر رہے تھے جن کے بطن سے ایک بیٹی اور بیٹا تھے۔ بیٹی تو بہت بڑی تھیں جن سے نہیں ملا تھا لیکن بیٹا شولپان سے چند سال بڑا تھا۔ وجیہہ، بلند قامت اور خوش خصال۔ میں اس سے صرف ایک بار ملا تھا۔ شولپان کے والد ملحد تھے مگر شراب نہیں پیتے تھے۔

ایک رات وہ کسی بیاہ کی رسم سے کچھ پی آئے تھے۔ شولپان اور میں جب گھر پہنچے تو وہ میرے ساتھ باتیں کرنے لگے تھے۔ پتہ نہیں کیا کیا کہے جا رہے تھے۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا البتہ شولپان سے ضرور کہا تھا کہ اپنے باپ کو روک لو کہیں میرے منہ سے بھی کوئی الٹا سیدھا جواب نہ نکل جائے۔ ان کا زور اس بات پر تھا کہ وہ نجیب الطرفین ہیں، ایک غیر نجیب الطرفین شخص جان بوجھ کر ان کی بیٹی کو پامال کیے جا رہا ہے۔ ظاہر ہے ان کے منہ سے نشے کے عالم میں وہ سچ نکل رہا تھا جو وہ خوش خلقی کے سبب عام حالات میں نہیں بولتے تھے۔

اب نجیب الطرفین چنگیزی لڑکی سے نکاح کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ اگلے روز میں نے اپنے دوست حافظ رحیم سے بات کی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ پاکستان سے تبلیغی جماعت کے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ ایک دوست کے گھر میں کل نکاح پڑھوا دیتے ہیں۔ یوں شولپان اور میرا نکاح ہو گیا تھا۔ جس دوست کے گھر میں نکاح ہوا تھا اس کے گھر کچھ چھوہارے بھی تھے جو اس نے جو پانچ چھ افراد موجود تھے ان میں تقسیم کر دیے تھے۔

اگلے روز میری پرواز تھی۔ میں نوبیاہتا دلہن کو چھوڑ کر پاکستان چلا گیا تھا۔ اسلام آباد سے لاہور، لاہور سے ملتان، ملتان سے گاؤں اور اس طرح بیس پچیس روز کے بعد میں کراچی پہنچا تھا۔ کراچی میں ایک بار ندیم مجھے اپنے ہمراہ حیدر آباد میں اپنی پیشی کے لیے ساتھ لے کر گیا تھا۔ قدیم زمانے کی عمارت میں عدالت میں موجود کٹہرے میں ندیم نے خود ہی داخل ہو کر کٹہرے کا لوہے سے بنا کوتاہ دروازہ بھیڑ لیا تھا، مجھے یہ منظر دیکھ کر دکھ ہوا تھا۔ البتہ ندیم باہمت تھا۔

اس کے چند روز بعد ندیم نے مجھ سے کہا تھا کہ دیکھو اب میں ایکسپورٹ کے چکر میں پڑنے والا نہیں ہوں۔ وہاں سے جو رقم تم موصول کر سکو وہ تم رکھ لینا۔ میرا جو نقصان ہونا تھا سو ہو گیا۔ مجھے پتہ تھا کہ کوئی رقم وصول نہیں کی جا سکے گی۔

ان ہی دنوں میں ظفر نے مجھے فون کیا تھا کہ بہت گڑ بڑ ہو گئی ہے، آپ جتنی جلدی آ سکتے ہیں آ جائیں۔ استفسار پر بتایا تھا کہ آپ نے اپنی غیر موجودگی میں ضرورت کے وقت استعمال کرنے کی خاطر چند خالی کاغذوں اور چند بلینک چیکس پر دستخط کرکے مقرب تاجک پر اعتماد کرتے ہوئے دیے تھے، اس نے ان کا غلط استعمال کر لیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں چند روز بعد کراچی سے اسلام آباد، اسلام آباد سے الماآتا اور الماآتا سے ماسکو پہنچا تھا تو ظفر نے بتایا تھا کہ مقرب تاجک نے ایک کاغذ پر اپنی تنخواہ بارہ سو ڈالر ماہانہ ہونے کا لیٹر چھاپا ہوا تھا۔ اس کاغذ پر آپ کے پہلے ہی دستخط تھے۔ اس نے دو سال کے باقی ماندہ پیسے بینک سے نکلوا لیے تھے اور جس سرکاری کارپوریشن کو آپ کپڑا بیچتے تھے، اس کے دو افسروں کو آپ کی کمپنی کے ایماء پر ویزا دلوا کر آپ کے ہی خرچ پر کاروباری دورے کے لیے پاکستان لے گیا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply