میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(18)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

 

گزشتہ اقساط پڑھنے  کے لیے لنک پر کلک کیجیے

https://www.mukaalma.com/author/gohar/

قسط 18

کوئی  امید بَر نہیں آتی

تین جولائی  کو شملہ معاہدے کے بعد یہ اُمید ہوچلی تھی کہ اب ہندوستان میں پھنسےشہری اور فوجی قیدیوں کی رہائی  کے لیے کچھ اقدامات ہونگے لیکن وقت گزرتا گیا، کچھ پیش رفت نہ ہوئی  ۔ بلکہ دبے پاؤں سرکتے وقت کے ساتھ اب ریڈیو سے اس کے متعلق خبریں بھی آناختم ہوگئیں ۔ لاؤڈاسپیکر کے اطراف ہمہ تن گوش خبریں سننے والے پُرامید قیدی یاسیت اور مایوسی میں ڈوبتے چلے گئے۔خاص کر ابّی جو معاہدے کے بعدبہتر ہورہے تھے اب بتدریج واپس اپنی ذہنی بدحالی پہ لوٹنے لگے۔ رہائی  کی اُمید سےہونے والا اضطراب اور ہیجان کا طوفان اب بظاہر سکوت میں تھا۔ کچھ لوگ خبریں سن لیتے اور کبھی ایک دوسرے سے معاملہ کی بابت پوچھ لیتے۔ اور بس اللہ اللہ خیر صلّا۔اس طرح اگست کا مہینہ امیدوں پہ اوس کا پڑنا ثابت ہوا تھا۔

مایوس کُن خبریں اور پھر میونخ اولمپکس کا آغاز۔۔ ادھر ڈوبے اُدھر نکلے

ستمبر ۱۹۷۲ء کے مہینے میں میونخ اولمپکس نے قیدیوں کے خون کی گردش میں ایکبارپھر روانی اور توانائی  پیدا کردی۔ سب کی توجہ مایوس کُن خبروں سے ہٹ کر اولمپکس کی جانب مبذول ہوگئی۔ ۱۹۶۸ء کے اولمپکس میں ہاکی کے گیم میں پاکستان آسٹریلیا کوشکست دے کے ورلڈ چیمپئن شپ کا اعزاز جیت چکا تھا۔ لہٰذا اب سب کی نظریں اس اولمپکس پہ تھیں۔ ایک گہما گہمی سی تھی خاص کر جب سیمی فائنل میں پاکستان کامقابلہ ہندوستان سے ہُوا۔ایک سخت سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان نے میچ جیت لیا تھا۔ یقیناً  ہاکی کے  میدان میں  اس فتح مندی نے میدان جنگ میں ہونے والی شکستگی  ہزیمت کا اثر  زائل ہونے  میں ضرور  معاونت کی ہوگی۔گو ہم فائنل میچ جرمنی سےہار گئے تھے لیکن ہندوستان کو ہرانے کی خوشی شکست کے اس احساس پہ حاوی تھی۔

اب سردیوں کی شروعات تھی ۔ خاص کر میرٹھ میں سردی کچھ زیادہ ہی پڑتی ہے۔انڈین آرمی کی طرف سے گرم کپڑوں کی فراہمی شروع ہوگئی۔ جو ان کے فوجیوں کے ہی پرانے کپڑے تھے۔جو ناپ کے نہ ہونے کے سبب کچھ بڑے کچھ چھوٹے کپڑے تھے۔ بارہ تیرہ سال کی عمر میں میرا سائز تو ویسے ہی چھوٹا تھا۔ میرے کپڑے ڈھیلے ڈھالے ہی ہوتے۔ گرم کپڑوں کے انتظام کے ساتھ کمبل بھی تقسیم ہورہے تھے۔ سردیوں کےلوازمات کے انتظام کے بعد ماہ رمضان کا آغاز ہوا۔ اکتوبر کی نو تاریخ کو رمضان کاپہلا روزہ تھا۔

رمضان میں ویسے تو کوئی  خاص تبدیلی نہیں ہوئی  لیکن کھانے کے اوقات ضرور بدل گئے۔ رات کے کھانے کا وقت سحری اور دوپہر کا کھانا افطاری میں تبدیل ہوگیا ۔ اکثریت باقاعدگی سے روزے رکھ رہی تھی ۔ روزے اور نمازوں میں وقت کٹ جاتا۔ جوں جوں عیدقریب آرہی تھی خوشی کے بجاۓ بے سروسامانی، بےبسی اور محرومی کا احساس قیدیوں کے دلوں میں گھر کرتا جا رہا تھا۔ ہاں البتہ سات نومبر کو عیدالفطر کی باجماعت نماز اور انتظامیہ کی جانب سے خاص کھانے کا اہتمام ضرور ہوا۔

رمضان اور عید کے بعد بقرعید بھی دبے پاؤں گذر گئی۔لیکن پھر وہ دن بھی آیا کہ جوحزن و ملال کی یادوں کو تازہ کرگیا یعنی سولہ دسمبر ۱۹۷۲ء ، بنگلہ دیش کی سالگرہ کا دن۔انڈین فوج کی جانب سے کیمپ میں بنگلہ دیش کی آزادی کا دن منایا گیا۔ اس خوشی میں کیمپ میں مٹھائی  تقسیم کی گئی تھی لیکن اس دن  سب قیدیوں کے دلو  ں میں   تکلیف دہ یادوں کا دفتر سا کھول دیا تھا۔ کیمپ میں کسمپرسی کے عالم میں پڑےلوگوں کو یقیناً بنگلہ دیش میں بیتے خون آشام واقعات اور جان بچا کے نکلنا یاد آگیاہوگا۔ ان واقعات کے سیاسی اور منطقی تجزیے سے قطع نظر ، ایسے میں یہ جشن آزادی جذباتی طور پہ کیا معنی رکھتا ہوگا۔اس کا سوچنا محال ہے۔ ہر شخص کی اپنی کہانی تھی اور ہر کہانی میں بہت کچھ کھونے کا عنصر مشترکہ تھا۔ اپنے پیاروں کی جانوں، مال و متاع اور اس زمین کو کھونے کا دکھ جہاں ان کے وجود نے جنم لیا ، اس کی گود نے ان کو پروان چڑھایا اور پھر اسی دھرتی کی مٹی نے ان کے پیاروں کا خون چوسا۔ انسانی جانوں کی پامالی نوحہ کناں دیکھی۔ گو یہ کریہہ عمل جو یکطرفہ نہیں دوطرفہ تھا ، تاریخ کی اس حقیقت کا اعادہ کرتا ہے کہ انسان کے اندر کا درندہ کتنی آسانی سے آزاد ہوکر ایک دوسرے کر پچھاڑ کھاتا ہے۔

جنگی قیدیوں کی رہائی  کے  بعد بنگلہ دیش کا اصرار ۱۵۰۰ پاکستانی فوجی افسران کوان کی تحویل میں دینے کا تھا تاکہ ان پہ انتقامی مقدمہ چلے اور ان کی گردن زنی ہوسکے۔وہ اس سے پہلے کہ ہماری رہائی  کا پروانہ جاری ہو، پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو قبول کرنے اور یو این او میں شمولیت کے خواہشمند تھے۔لیکن ہماری رہائی  کےیکطرفہ فیصلے کا محض انڈیا ہی مجاز نہ تھا۔ جنگ اور اسکے بعد کی صورتحال دونوں ممالک کے باہم اقدامات کا نتیجہ تھی۔ لیکن بھٹو صاحب جو اس وقت پاکستان کےمنتخب اور مقبول لیڈر کے طور پہ ایسے کسی فیصلے  کو نہیں ماننا چاہتے تھے جو اس نازک اور حسّاس وقت میں ان کی ہر دلعزیزی کو زک پہنچاۓ۔ لہٰذا انہوں نے دونوں شرائط ماننے سے انکار کردیا۔ اور یہ ہی وجہ قیدیوں کی رہائی  میں مانع آرہی تھی۔

دو ممالک کے درمیان اس چپقلش اورکشمکش میں ہماری زندگی کے ماہ  وسال کی بربادی ہورہی تھی۔ انتظار کی گومگو کیفیت کے اثرات جسم اور ذہنوں پہ واضح طور پہ مرتب ہورہے تھے۔اور ہر گذرے دن کے ساتھ صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا۔ سردیوں کا زور دن بدن بڑھ رہا تھا اور لاؤڈ اسپیکر کے قریب جاکر خبریں سننے کی خواہش دم توڑ رہی تھی۔ ایسے  میں سن ۱۹۷۳ء شروع ہوگیا۔ ساری دنیا سال نو کاجشن منارہی تھی لیکن کیمپ کی فضا نئے  سال کی امنگوں اور آرزؤں کے بجاۓ ناامیدی کی کیفیت سے آغشتہ تھی۔ گفت وشنید کا سلسلہ مکمل بند ہوچکا تھا۔ کہیں سے کوئی  ذکر کوئی  خبر نہیں آتی۔ قید سے رہائی  ایک ایسا باب تھا جو گویا ہمیشہ کے لیے مقفل ہوگیا تھا۔

اس موقع  کی مناسبت کے حوالے سے مجھے ۱۹۷۰ء میں مقبول ہونے والے گانے کے بول یاد آرہے ہیں، جسے فلم بازی کے لیے حبیب ولی محمد نے گایا تھا۔

آشیانہ جل گیا گلستاں لُٹ گیا ہم قفس سے نکل کر کہاں جائیں گے

اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے  ، اب رہائی    ملے گی تو مر جائیں گے

تمام تر مایوسی کے باوجود بھی شاید امید کی کہیں دبی ہوئی  چنگاری ہمیں جینے کی کچھ توانائی  ضرور دے رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply