پڑیے گر بیمار تو(1)۔۔فاخرہ نورین

باہر لے ملخ “میں زیادہ دیر قیام اگلے پچھلوں کو خراب کرتا ہے ۔پچھلے اگر بھائی ہوں تو بوسکی کے کپڑے اور” باہر لے” پرفیوم لگا کر دارے میں چوڑے ہو ہو بیٹھتے ہیں، دو دو ہاتھ لمبے فون ہاتھ میں پکڑے یوٹیوب پر منصور ملنگی کو سنتے اور ویہلے دوستوں میں گھرے “بھائی ہوراں” کی “یورپاں وچ “لگی موج اور عیاشی کے من گھڑت قصے سناتے ہوئے ،اس وقت کے انتظار میں خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں جب وہ خود بھی انھی “یورپوں” میں گوری میموں اور ولایتی شرابوں کی موج میں مست ہو جائیں گے ۔ زلفے مصلی اور دتو کمہار، بگے نائی اور بشیر موچی کو ایسے ہی لمبے لمبے نوٹ دے سکیں گے جیسے “وڈے بھائی ہوری” دوسال میں ایک بار آمد پر دیتے مگر اگلے دو سال گاؤں کے چوک، کھیتوں کی وٹ اور دارے کی بیٹھکوں میں اس دیالو پن کے قصے گونجتے رہتےہیں ۔ وہ بھی ایک دن” یورپاں” سے آمد پر “سنگھاری “ہوئی کار میں سارے ویہلے رشتے داروں کے جوان اور بے روزگار لڑکوں کے جھرمٹ میں ائیر پورٹ سے لائے جائیں گے اور ہر کوئی “باہر لے “پرفیوم اور آئی فون کا منتظر انھیں ملنے بھاگا آیا کرے گا ۔ان کا آنا خبر بن کر پورے گاؤں میں پھیلے گا اور لوگ باگ، لڑکے بالے انھیں مل کر یورپوں کی جادوئی اور خوابوں کی مرکز دھرتی کی کہانیاں سننے ان کے دارے میں چارپائیوں پر بیٹھیں گے اور وہ کرسی پر بیٹھے نہائے دھوئے چمکدار نئے کپڑوں پر یورپی کوٹ پہنے معتبر سے بنے سوچ سوچ اور سہج سہج بولیں گے تو کتنے معزز، کتنے سمجھدار آدمی لگیں گے ۔ پھر وہ بھی پیسے وصول کرنے والے نہیں پیسے بھیجنے والے بن جائیں گے ۔تب وہ” بھائی ہوراں “کو کوئی کام نہیں کرنے دیں گے، ” بھائی ہوری” پھر دارے میں اور وہ یورپاں میں اپنا اپنا آرام اور کام کریں گے ۔چونکہ جیسے ہی ان کا ویزہ لگا بس پھر بھائی ہوراں نے آرام کرنا اور نوٹ ہی وصول کرنے ہیں اس لیے ابھی وہ کام اور وہ خود آرام کرلیں کہ آگے ایک لمبا پینڈا پڑا ہے ۔

بہنیں ہوں تو ان کے گیتوں میں وڈی کار چلاتے بھائی ان کے لئے آئے بہتر رشتوں کے شایانِ شان جہیز اور زیور چڑھانے کے انتظامات کرتے ،شریکوں کو آگ اور سسرالیوں کو آگے لگاتے نظر آنے لگتے ہیں ۔جاپانی گھڑیاں، استریاں اور سپین کے کمبل خود بخود گیتوں میں کڑھے ہوئے سرہانوں، کروشیے کی جھالروں اور ڈبی والے کھیسوں کی جگہ لے لیتے ہیں ۔
ماں باپ کو ساری زندگی کے آشیانے اچانک تنگ اور “ڈھارے ڈھپرے”لگنے لگتے ہیں اور “چھوہر تیرا یورپاں وچ اے تو ہن پیر تھلے کتھے لاؤنا ایں” کی دھن پر سر دھنتے والدین تک “چھوہر “سے گلے ملتے ہی “چھٹی کنی آں، واپس کدوں جانا ای “جیسے سوال کرنے لگ جاتے ہیں ۔

پچھلے اگر رشتے دار ہیں تو وہ باہر لے رشتے دار کے رہن سہن اور وقت سے اوقات اور آمدنی کے گوشوارے مرتب کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ “اینھاں نو اللہ دی خیر اے ” لہذا رشتے داروں کی مالی مدد اور ناک اونچی رکھنے میں معاونت کرنا ان کا فرض عین ہے۔

باقی رہ گئی بیوی تو شروع شروع میں تو تنہا راتوں اور اداس دنوں کا حساب کتاب رکھ لیتی ہے لیکن آخر کب تک؟ راتوں کی تعداد اور دنوں کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پھر وہ حساب کتاب کے لئے قابلِ پیمائش معاملات کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے ۔ کتنے تولے سونے کا سیٹ، کتنے وزنی کڑے اور کس برانڈ کی کس لاگت کا سوٹ پہنا جائے تو اس کی شان اونچی اور ناک برقرار رہے گی ۔ سال دو سال کے بعد ایک ڈیڑھ مہینے ازدواجی ساتھ کی قیمت باقی سارے سال میں کھاڈی، کیسریہ، بریزے اور جے ڈاٹ کے مہنگے کپڑوں اور زیورات کی فرمائشوں کی صورت وصول کرنے کی عادی ہو جاتی ہیں ۔چنانچہ ایک ڈیڑھ مہینہ دن میں دو دو بار نہاتے اسے یہ علم اور بعض اوقات تسلی رہتی ہے کہ نہانے کی یہ وجہ ، موقع اور مصیبت سالانہ تہوار کی طرح اگلے سال ہی آئے گی ۔ اس آوت جاوت اور پروہنے پن کی عادت صرف اسے ہی نہیں سب گھر والوں کو ایسی ہو جاتی ہے کہ پھر پردیسی کی وطن مستقل واپسی کی خبریں انھیں پریشان کر دیتی ہیں ۔

اگلوں میں صرف وہ پردیسی ہے جو ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے بالکل ہی “باہرلا “سمجھ لیا جاتا ہے ۔ وہ خود کو عیسیٰ کی طرح مسیحا سمجھتے ہوئے اپنی مشقت اور ذلت کی کہانیاں چھپا کر محض سامع بن جاتا ہے جسے دوسروں کے دو غزلے سن کر صرف داد ہی نہیں کھاد بھی فراہم کرنی ہے ۔اپنے سہہ غزلے جنہیں فون پر سنانے کا وقت اس لیے نہیں ملتا کہ دوسری طرف ہمیشہ کوئی مجبوری کوئی تقاضا بہرا بنا صرف اپنی کہے جاتا ہے ۔ سامنے آنے پر بھی وہ دیوان کھولنے کا موقع اس لیے نہیں مل سکتا کہ سامعین اب ناظرین اور متاثرین میں تبدیل ہو کر پردیسی کو قابلِ رشک کلمات کے بوجھ تلے دبا دیتے ہیں ۔ایسے میں خود باہر لے پردیسی بھی بڑے خراب ہوتے ہیں ۔

زبیر بھی پردیسی ہے، باہرلا ہے، لہذا خراب بھی ہے۔ اس کی خرابی میں دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ اضافی نفری بھی شامل نصاب ہے۔ اسے صاف پانی، وقت کی پابندی، قانون کی پاسداری اور خالص رویوں کے علاوہ خالص گھی کی عادت بھی ہو جاتی ہے ۔بھلا یہ سب میں اسے پاکستان میں کہاں سے لا کر دوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply