پتہ نہیں اب یہ کہانی مڈل سکول کے نصاب کا حصہ ہے یا نہیں لیکن ہمارے تعلیمی دور میں انگلش کی کتاب میں ایک نئی کہانی آئی تھی ” خیال چودھریز ڈریم ۔ خیال چودھری کا خواب۔ یہ کہانی اصل میں بچپن میں پڑھی ہوئی اردو کہانی شیخ چلی کاہی انگریزی چربہ تھی ۔اس وقت مذہبی بنیاد پرستوں کی جانب سے اعتراض اٹھا یا گیا کہ انگریزی کی کتاب میں یہ کہانی کسی مذہبی مضمون کونکال کر شامل کی گئی ہے ۔ ہائی سکول اور کالج کے زمانے میں ہم بھی بڑے مذہبی ہوتے تھے۔ہمیں تقریریں کرنے کا بھی بہت شوق تھا ۔ سکول سے لیکر کالج تک ہر بزم ادب کے پریڈ میں ہماری تقریر ضرور ہوتی تھی ۔سکولوں کے درمیان ہونے والے تقریری مقابلے میں بھی ہماری تقریر ضرور شمار ہوتی تھی ۔ جب یہ کہانی نصاب میں شامل ہوئی تو ہمارے اندر کا انتہا پسند جاگ گیا اور ہم نے بھی اپنی ہر تقریر میں یہ موضوع اٹھانا شروع کر دیا کہ دیکھیں ہمارا ملک سیکولر ازم کی جانب بڑھ رہا ہے ۔انگریزی کتابوں میں مذہبی موضوعات نکال کر خیال چودھری ڈالا جارہا ہے ۔ کالج کے دنوں پر ہم انگریزی کے مضمون میں سے مسٹر چپس کی داستان نکال کر کوئی مذہبی موضوع ڈالنے کا مطالبہ کرتے تھے ۔ اس کی وجہ مذہبی نہیں تھی بلکہ ہمیں اتنی لمبی کہانی یاد کرنے کا مسئلہ تھا ۔ ان دنوں کم علمی پھیلانے کے لئے فیس بک یا سوشل میڈیا نہیں ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود ہم بے خبر تھے کہ اردو یا انگریزی ادب میں مذہبی تاریخ ڈالنا کوئی علم کی خدمت نہیں ہے جس دور میں ہم نے تعلیم حاصل کی ا س دو رمیں تو سائنس کی کتابوں میں بھی تاریخ پڑھائی جاتی تھی ۔ دسویں کی سائنس کی کتابوں میں پہلے باب کا ہی موضوع تھا۔ مسلمان سائنسدانوں کے کارنامے ۔۔ یعنی سائنس جو کہ ایک مکمل تجربات سے سیکھنے والا علم ہے ا سمیں بھی ہمیں تاریخ یاد کرنا پڑتی تھی ۔مطالعہ پاکستان میں ایک بادشاہ کے ٹوپیاں سی کر گزارہ کرنے کے واقعات بھی ہم بغیر کوئی سوال کئے رٹا مار جاتے تھے ۔
لیکن اب اتنے سال بعد سمجھ آئی ہے کہ ہم اس وقت اگرخیال چودھری کی کہانی دھیان سے پڑھ لیتے اور اس پراحتجاج کرنے کی بجائے اس سے گیان لے لیتے ،خیال چودھری کی کہانی کے مرکزی خیال سے استفادہ کرلیتے تو ہمیں اپنے حالیہ وزیر اعظم کے منصوبہ جات کا صحیح ادراک ہوپاتا۔ بچپن میں حاصل کیا ہوا گیان ذہن پر نقش ہوئے کسی نروان سے کم نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے حکومت کی سود ن کی کارکردگی بتاتے ہوئے اور مستقبل کاپلان سمجھاتے ہوئے وہی پلان پیش کیا جو شیخ چلی کا تھا اور جو اس انگریزی کہانی میں خیال چودھری کا تھا ۔ خیر شیخ چلی کی کہانی میں انڈے جمع کرنے ،ان سے چوزے نکالنے اور پھر مزید مرغیاں بناکر ترقی کرنے کا جو نقشہ کھینچا گیا تھا اس پر ہم صرف ہنستے ہی رہے لیکن وزیر اعظم صاحب نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ کبھی بھی کسی بھی علم پر ہنسنا نہیں چاہیے ۔البتہ انہوں نے ایک زیادتی ضرور کی کہ اس کہانی کے ہیرو یعنی شیخ چلی یا خیال چودھری کو کریڈیٹ دینے کی بجائے اس کہانی اور اس پلان کا سارا کریڈیٹ بل گیٹس کو دے دیا ۔یعنی منزل انہیں ملی جو شریک نصاب نہ تھے ۔ لیکن شاید انہیں بتایا نہیں گیا کہ بل گیٹس نے افریقہ میں یہ منصوبہ شروع تو کروایا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوسکا اور کسی ایسے علاقے کی غربت اس منصوبے سے ختم نہیں ہو سکی ۔ لیکن سننے میں آیا ہے کہ بل گیٹ نے دوبارہ آدھے گھنٹے کے لئے وزیر اعظم صاحب سے فون پر بات کی ہے تو ضرور ان کا شکریہ ادا کیا ہوگا اور اپنے تجربے کی ناکامی کا بھی بتادیا ہوگا۔
دیسی مرغیوں اور دیسی انڈوں کی اہمیت کا اندازہ ہمیں پرائمری جماعتوں میں اس وقت ہوا جب شہر سے آنے والے ہمارے اساتذہ ان کی خریداری میں جنون دکھاتے تھے ۔ کچھ ہی دن گزرتے تو ماسٹر صاحب کلاس میں آتے اورہمیں پوچھتے کہ کون ہے جو گاﺅں سے دیسی انڈے خرید کر لائے گا ۔ دیسی انڈے دوکانوں سے نہیں ملتے تھے صرف ان گھروں سے ملتے تھے جن گھروں میں مرغیاں ہوتی تھیں ۔ نالائق طلباءفوراً ہاتھ کھڑا کر دیتے کہ ماسٹر صاحب ہم جائیں گے ۔ان دنوں سکول کے نالائق طلباءدو کام بڑی دلجمعی سے کرتے تھے ۔ایک ماسٹر صاحب کا سائیکل صاف کرنا اور دوسرا ان کے لئے دیسی انڈے ، خالص شہد اور دیسی گھی اکٹھاکر کے لانا ۔ ہمارے ایک ماسٹر صاحب کچھ طلبا ءسے بوہڑ کے پتوں کا رس بھی لانے کا کہتے تھے ۔ انہیں کسی حکیم نے نسخہ بتایا تھا کہ پتاسوں کے اوپر بوہڑ کے پتوں کا رس نچوڑ کر پیا کریں ۔ اب شہر میں انہیں یہ سہولت میسر نہیں تھی ۔طلباءشوق سے اساتذہ کا حکم مانتے اور فوراً ان کے حکم پر دوڑ کھڑے ہوتے اس لئے نہیں کہ وہ بڑے فرمانبردار تھے بلکہ اس لئے کہ اس طرح انہیں سارے دن کی چھٹی مل جاتی تھی ۔ ایک دن ہمارا بھی پڑھائی کرنے کا د ل نہیں تھا تو ہم نے بھی ہاتھ کھڑ اکر دیا ۔ماسٹر جی میں بھی جاﺅں گا انڈے خریدنے ۔ ماسٹر صاحب نے حیرت اور تاسف کے ملے جلے اظہار کے بعد آخر بھیج ہی دیا ۔انڈے خریدنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ ہم لڑکے گاﺅں میں کسی زمیندار کا دروازہ کھٹکھٹاتے اورگھر میں موجود خواتین سے پوچھتے خالہ جی انڈے ہیں ۔ جواب ہاں میں ملنے پر رقم کی ادائیگی کر کے انڈہ خرید لیتے۔ ان دنوں ایک انڈہ ایک روپے کا آتا تھا ۔ میں چونکہ پہلی دفعہ ان کے ساتھ آیا تھا اس لئے مجھے طریقہ کار کا بخوبی اندازہ نہیں تھا کہ کون سے گھر میں پوچھنا ہے اور کون سے گھر میں نہیں۔ میں نے ایک دروازے پر دستک دی تو گھر کی مالکن اپنے شوہر سے جھگڑا کر رہی تھی میں نے بڑے غلط وقت پردستک دی تھی ۔ وہ میری طرف متوجہ ہوئی تو میں نے روایتی انداز میں پوچھا خالہ جی انڈے ہیں ۔ وہ بہت زیادہ ہی بیزار تھی ۔ غصے اور طنز کے ملے جلے جذبات سے جل بھن کر کہنے لگی” نہیں پتر اجے دتے نہیں (یعنی ابھی ہم نے دئیے نہیں ) “مجھے فقرے کی سمجھ نہیں آئی لیکن میرے ایک سیانے دوست نے مجھے فوراً کھینچا کہنے لگا کیوں مار کھانی ہے دیکھ نہیں رہے ان کے گھر میں تو مرغیاں ہی نہیں ہیں ۔ کچھ ایسا ہی جملہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بھی فرما دیا ہے ۔ عمران خان صاحب کے چاہنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ پرچی پڑ ھ کر تقریر نہیں کرتے لیکن پہلی دفعہ حافظ حسین احمد نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ انہیں بعض تقریریں پرچی پڑھ کر کرنی چاہیے جیسا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ” حکومت انڈے دے گی“ ۔ جس پر بہت ہی کنفیوژ ن پیدا ہوگئی ہے کہ اگر حکومت انڈے دے گی تو مرغیاں کیا کریں گی؟
میرے ذاتی خیال میں حکومت کے اس سمال پولٹری انڈسٹری پلان کو سراہا جانا چاہیے۔ اب دیکھتے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔ میرا مطالبہ ہے کہ حکومت جو پچاس لاکھ گھر بنوا رہی ہے ان کے نقشے میں ابھی سے ڈربوں کا اضافہ کر دے ۔ اس سے شہری خواتین کو بہت فائدہ ہوگا وہ جو ہزاروں روپے جم جانے کے لئے خرچ کرتی ہے وہ اپنے گھروں میں رہیں گی ۔ جتنی اچھی ورزش مرغیوں کو ڈربے میں ڈالنے میں ہوتی ہے کسی جم میں نہیں ہو سکتی ۔ دیسی مرغیاں گھر میں ہوں تو ایک مرغا بھی رکھنا پڑتا ہے اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ صبح خیزی کے لئے بھی ایک نعمت سے کم نہیں ہے ۔سارے گھر والوں کو بانگ دیکر جگا دیتا ہے اور اس طرح مسلمانوں میں صبح صبح عبادت کرنے کا شوق بھی زور شور سے پیدا ہوگا ۔ آپ اندازہ کریں جب پچاس لاکھ گھروں میں پچاس لاکھ مرغے ایک ساتھ بانگ دیں گے تو کتنا روح پرور سماں ہوا کرے گا ۔ اتنی کثیر تعداد میں مرغیوں کے انڈے دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ملکی تعلیمی حالت بھی بہتر ہو گی ۔ ٹیچرز کلاس میں بچوں کو سزا کے طور پر مرغا نہیں بنائیں گی ۔ ممتحن بچوں کو ان کے پیپرز میں انڈے نہیں دیں گے ۔ یعنی کوئی بھی بچہ کسی بھی پرچے میں انڈہ یعنی صفر نمبر نہیں حاصل کرے گا اور تو اورکرکٹ میں کوئی بھی کھلاڑی انڈے پر آﺅٹ نہیں ہوگا ۔ مرغی انڈوں کے پراجیکٹ سے ملکی معاشی حالت تو شاید بہتر نہ ہوسکے البتہ دیگرثقافتی پہلو وں کے انڈوں سے چوزے ضرور نکلیں گے اور ہم ایک دفعہ پھر پرانی ثقافت سے روشناس ہو سکیں گے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں