فلسطین (4) ۔ جاگیریں/وہاراامباکر

فلسطین کا علاقہ پسماندہ تھا جس کی آبادی زیادہ تر دیہی تھی۔ آبادی کا بڑا حصہ وسطی فلسطین کے پہاڑی علاقے پر تھا۔سمندری علاقے کے قریب یا مشرقی نشیب میں آبادی کم تھی۔ یہاں امن و امان نہیں تھا اور خانہ بدوش قبائل کے حملوں کا خطرہ تھا۔ عثمانیوں کو یہاں پر کنٹرول رکھنے میں دشواری تھی۔ اٹھارہویں صدی تک ٹیکس اکٹھا کرنے کا طریقہ “داورا” کا تھا۔ یہاں مستقل گورنر تعینات نہیں تھا اور ایک ڈپٹی عسکری دستے سمیت دیہات کے سالانہ دورے پر جاتا تھا۔ عثمانی جھنڈا اور تلوار دکھا کر ٹیکس اکٹھا کیا جاتا تھا۔ بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان ایک ہزار دیہات آباد تھے۔
انیسویں صدی کے آغاز میں یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد اس علاقے سے کپاس برآمد کی جاتی تھی۔
عثمانی سلطنت کمزور پڑ رہی تھی۔ یہاں پر دو جنگجو سردار ابھرے۔ ایک ظہیر العمر تھے جنہوں نے گلیلی علاقے کا کنٹرول لے لیا اور اپنی ریاست بنا لی۔ اس سے شمال میں مصر سے تعلق رکھنے والے آزاد کردہ غلام احمد پاشا الجزار تھے، جنہوں نے صیدا کی بندرگاہ (یہ موجودہ لبنان میں ہے) پر قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کی جو شمالی سیریا تک پھیلی تھی۔ احمد پاشا کے لقب کے معنی قصائی کے ہیں۔ ان کی سفاکی کے قصے آج بھی فلسطین میں مشہور ہیں۔ فلسطینی علاقے کی کپاس بہترین کوالٹی کی تھی۔ فرانسیسی تاجر ان بندرگاہوں پر پہلے اسٹیبلش ہوئے تھے۔ بعد میں دوسرے یورپی آئے۔ ان کی مانگ یورپی ٹیکسٹائل کی صنعت کے لئے کپاس کی تھی۔
ظہیر العمر کپاس کے بدلے ہتھیاروں کی تجارت کرتے تھے۔ منافع سے انہوں نے عکا کے شہر کی تعمیرِ نو کی اور حیفہ کے شہر کی بنیاد ڈالی۔
عثمانیوں کے لئے اب بہت ہو گیا تھا۔ 1775 میں عثمانیوں نے ظہیرالعمر کے خلاف بحری فورس بھیجی۔ اور الجزار سے اتحاد کر لیا۔ ایک وارلارڈ کا دوسرے سے مقابلہ ہوا اور الجزر نے ظہیر کا “مسئلہ” حل کر دیا۔ عثمانیوں نے الجزار کو گورنر بنا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس علاقے کا انحصار کپاس پر تھا جس کے برے نتائج اس وقت نکلے جب عالمی کپاس کی منڈی کریش ہو گئی۔ اس کی وجہ امریکی کپاس کی آمد تھی جس کی امریکہ کے جنوب میں پیداوار ہوتی تھی۔ کپاس کے نرخ نوے فیصد گر گئے۔ یہاں کے زمیندار 1852 میں دیوالیہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کی قسمت کا انحصار عالمی منڈی میں کپاس کی قیمت کے اتار چڑھاوٗ سے رہا۔
مصری گورنر محمت علی نے فلسطین کے علاقے پر 1831 میں قبضہ کیا۔ محمت علی ایک البانوی بحری قزاق کے بیٹے تھے۔ نپولین کے مصر پر قبضے کے بعد انہوں نے برطانوی اور عثمانی مشترک فوج کی قیادت کی تھی اور فرانسیسی فوج کو باہر نکالا تھا۔ اور مصر کو اپنے کنٹرول میں کر لیا تھا۔ محمت نے اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کو شام کے علاقے (جس میں آج کا سیریا، لبنان، اسرائیل، فلسطین اور اردن آتے ہیں) پر قبضہ کرنے کو بھیجا تھا۔
محمت علی کی مصر میں کی گئی اصلاحات کی طرح ان کے بیٹے ابراہیم پاشا نے بھی فلسطین میں جدید ریاست کے کئی ادارے متعارف کروائے۔ انہوں نے زمینداروں کو غیرمسلح کر کے آرمی کا ادارہ بنایا۔ براہِ راست ٹیکس کا نظام بنایا اور مڈل مین کو اس میں سے نکال دیا۔ مشاورتی کونسلز بنائیں۔ سڑکوں اور نہروں کی تعمیر ہوئی تا کہ فصل منڈی تک پہنچ سکے۔
مقامی آبادی میں یہ اصلاحات غیرمقبول رہیں، لیکن وقت کا پہیہ پیچھے کو نہیں جاتا۔
عثمانیوں نے برطانوی مدد کے ساتھ مصری آرمی اور انتظامیہ کو فلسطین سے دس سال کے قبضے کے بعد بے دخل کر دیا۔ یہ جدتیں برقرار رہیں اور ان میں اضافہ ہوا۔
مصری فوج کے انخلا کے بعد طاقتور مقامی لیڈروں میں آپس میں جھگڑے پھوٹ پڑے۔ خاص طور پر یروشلم کے علاقے میں۔ یروشلم کو براہِ راست عثمانی کنٹرول میں لے لیا گیا۔
عثمانیوں نے دیہی علاقوں میں اپنا کنٹرول قائم کیا۔ ٹیکس اکٹھا کرنے میں اور مقامی بااثر لوگوں کی ملٹری پاور توڑنے میں سختی سے کام لیا۔
پہلے پہاڑی اور پھر میدانی علاقوں پر کنٹرول قائم کیا گیا۔ فوجی گیریزن بنے۔ نئی ریلوے پٹری بچھی۔ یہاں کے خانہ بدوش بدو سیٹل کئے گئے۔ جزریل کی وادی میں گندم، باجرہ، جو، سرسوں، تمباکو اور کاسٹر کے تیل کی پیداوار ہونے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس علاقے میں امن کے قیام نے یورپی مہاجرین یہاں آنے لگے۔ جرمن ٹیمپلارز نے 1860 میں گلیلی کے علاقے میں اپنی کالونی قائم کی۔
عثمانی سلطنت میں زمین سرکار (اور سلطان) کی ملکیت تھی۔ اس کو مِری کہا جاتا تھا۔ کسان کے پاس اس پر غیرمشروط حقوق نہیں تھے۔ اس پر کاشت کی جا سکتی تھی اور رہا جا سکتا تھا لیکن اسے بیچا نہیں جا سکتا تھا اور نہ ہی وراثت میں منتقل ہو سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گاوٗں میں چار سے پانچ قبائل ہوا کرتے تھے۔ سربراہ ایک شیخ ہوتا تھا جس کا مکام جھگڑے نمٹانا اور انتظام چلانا تھا۔ ہر قبیلے کو زمین دے دی جاتی تھی اور قبیلے اسے خاندانوں میں بانٹ دیتا تھا۔ ہر دو سال بعد اس تقسیم کو تبدیل کیا جاتا تھا۔ چراہگاہیں، پانی اور جنگل مشترک تھے۔
یہ نظام عثمانیوں کے لئے مسئلہ تھا۔ کون کتنا ٹیکس دے گا؟ اس کے لئے 1858 میں زمین کا قانون متعارف ہوا جس کا مقصد اس سوال کا جواب دینا تھا۔ اس نے زمین کی نجی ملکیت کا نظام شروع کر دیا۔ لوگ اپنے نام پر زمین کو رجسٹر کروا سکتے تھے اور ایسا کرنے کے ساتھ ہی ان پر ٹیکس کی ذمہ داری بھی عائد ہو جاتی تھی۔ ملکیت اجتماعی سے انفرادی ہو گئی۔ زمین خریدی اور بیچی جا سکتی تھی۔ استنبول میں بنائے گئے اس قانون کے غیرارادی نتائج نکلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ یہ قانون گاوٗں کی اجتماعی ملکیت تسلیم نہیں کرتے تھا، اس لئے زمین شیخ کے نام پر رجسٹر ہوئی۔ باقی لوگ اس پر کام کرنے والے بن گئے۔ جو لوگ رجسٹریشن فیس نہیں ادا کر سکتے تھے، ان کی زمینیں قرض دینے والوں کے پاس چلی گئیں۔ زمین رجسٹر کرنے کا مطلب ٹیکس کی ادائیگی کا ذمہ بھی تھا اور جبری ملٹری بھرتی کے لئے بھی خاندان کا نام ریکارڈ پر آ جاتا تھا۔ ان پر کام کرنے والے یہ کام کرنے سے ہچکچانے لگے۔
جلد ہی یہ زمینیں شہر میں رہنے والی اشرافیہ کے پاس چلی گئیں جنہوں نے رجسٹر نہ ہونے والی زمین کو قانونی ملکیت میں لے لیا۔ انیسویں صدی کے آخر تک، اس نے فلسطینی لینڈہولڈنگ کا سٹرکچر تبدیل ہو چکا تھا۔ عہدے سے دولت بنی۔ دولت سے طاقت۔ شہری اشرافیہ نے مقامی فلسطینی سیاست کا مرکزی کردار لے لیا۔ دیہات کی زمینیں بڑے جاگیرداروں کے پاس تھیں جو کبھی اپنی زمینوں پر نہیں گئے تھے۔ یہ محفوظ سرمایہ کاری کے لئے خریدی گئی تھیں۔ بیروت اور دمشق میں رہنے والے ان بڑے جاگیرداروں کو مقامی آبادی یا اپنی زمین پر رہنے والوں سے کوئی لگاوٗ نہیں تھا۔ اور یہ بڑی جاگیریں تھیں۔ مثلاً، بیروت کی سرسوق فیملی کے پاس وادی جرزیل کی ستر مربع میل زمین تھی۔
جب یہودی قومی فنڈ کے نمائندے زمین کا سودا کرنے آئے تو انہیں بیچنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ یہ اچھے منافع کے لئے ہی تو خریدی گئی تھیں۔
آج فلسطین میں ان لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے جنہوں نے اپنی زمینیں فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ان کو بھی جنہوں نے انہیں بیچ دیا تھا۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: ساتھ لگی تصویر 11 اپریل 1909 کو لی گئی۔ یہاں پر 66 یہودی خاندان بحیرہ روم کے ساحل پر جمع ہیں۔ یہاں کے خالی ساحل پر قرعہ اندازی سے ہر ایک کو ایک پلاٹ ملنا ہے۔ آباد ہونے والا یہ شہر تل ابیب تھا جس کا سنگِ بنیاد یافا کے قریب خریدی زمین پر رکھا گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply