دولے شاہ دے چوہے(2،آخری حصّہ )۔۔علی انوار بنگڑ

درسگاہیں اس بات کی ضامن ہوتی ہیں کہ وہ بچے کی فکری صلاحیتوں کو نکھار یں گی، لیکن ہمارے اسکولوں، مدارس اور جامعات کا کردار اس کے برعکس ہے۔ اساتذہ کو قوم کا معمار کہتے ہیں کوئی بھی قوم کامیاب ہوتی ہے تو اُس کی بڑی وجہ اساتد ہوتے  ہیں۔ اگر قوم اخلاقی، سماجی اور معاشرتی لحاظ سے برباد ہورہی ہے تو قوم کے معمار بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ اساتذہ اور گھر والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچے کو کچھ نیا  سوچنے کی طرف ابھارنا، کائنات میں وقوع پذیر ہونے والی  نت نئی چیزوں کے بارے سوال اٹھانا، سائنسی علوم پر بات کرنا، تحقیق کے جذبے کو ابھارنا اور بچے کے ننھے سے دماغ میں اٹھنے والے خیالات کو سوالات کے روپ میں لے کر آنے کے قابل بنانا۔ لیکن ہماری درسگاہوں میں سوال اٹھانے والے بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ سوال اٹھانا بدتمیزی کے زمرے میں شمار ہوتا   ہے۔ زیادہ تر اساتذہ کرام سائنس کے نام پر اپنا عقیدہ پڑھاتے ہیں۔ وہ بچوں کو سائنسی علوم کی طرف راغب کرنے کی بجائے اپنے عقیدے کے زیرِ  اثر انہیں اس سے باغی کرتے ہیں۔

افسوس کے ساتھ  کہنا پتا ہے کہ ہمارے یہاں زیادہ تر اساتذہ کا  یہی  رویہ ہے۔ ہم سوالات کی اِس خزانے والی  کان کے آگے ڈر اور عقائد کے پتھر رکھ کر اسے ہمیشہ کے لیے بند کردیتے ہیں۔ اس رویہ کے زیر اثر پلنے والا بچہ عقیدت کے ارد گرد ہی گھومے گا۔ وہ تحقیق کی طرف نہیں جاۓ گا۔ کیوں کہ یہ دروازہ تو ہم نے اس پر خود بند کیا تھا۔ ہمارے ارد گرد بہت سی ایجادات اور دریافتیں(جو کسی دور میں ناممکن سمجھی جاتی تھیں ) نت نئے خیالات اور سوالات کے ہی مرہونِ منت ہیں۔ دراصل عقل سے شعور تک کے سفر میں انسان سب سے پہلے خیال کی گاڑی کو پکڑتا ہے اور جواب ڈھونڈنے کے لیے اپنی عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے سوال بناتا ہے۔ اس سوال کے جواب کو حاصل کرنے کے لیے وہ تحقیق کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم عقیدت یا کسی ڈر کی وجہ سے رستے میں ہی ہمت چھوڑ دیں  گے تو جواب تک کبھی نہیں پہنچیں  گے۔ ہمیں عقیدت تو ملے گی لیکن حقیقی منطق نہیں۔ عقیدت سے وقتی سرشاری اور اکثریت کا ساتھ تو مل جاۓ گا۔ لیکن اس کے سہارے ہم کبھی سچ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔

بچے جب اپنے ارد گرد مختلف عوامل وقوع پذیر ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کے وقوع پذیر ہونے کی بابت   ان کے دماغوں میں سوالات جنم لیتے ہیں۔ اصل میں یہ سوالات ہی انسان کی بقا کے ضامن ہیں۔ جنگلوں میں خوراک کے لیے بھٹکنے سے لے کر کھیتی باڑی تک کا سفر ان سوالات کے ذریعے ہی ممکن بنا ہے۔ ہر زمانے میں نت نئے خیالات جو سوالات کی صورت میں ظاہر ہوتے رہے ہیں، نئی ایجادات اور مختلف تہذیبوں کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنتے رہے ہیں۔

جیسے کمرہ ء  امتحان میں سوالات پر مشتمل پرچہ سب طالب علموں کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ لیکن اسے حل ہر کوئی اپنی اپنی قابلیت کے مطابق کرتا ہے۔ یہی حال ہماری زندگی کا ہے۔ بہت سی ان ہونیاں ہمارے ارد گرد وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ یہ ان ہونیاں ہمارے لیے سوالات ہیں یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ان سوالات کے جوابات ہم کیسے ڈھونڈتے ہیں؟ تحقیق کا راستہ اپناتے ہیں یا عقیدت کا تالا مار کر ان سوالات کو بند کوٹھڑی میں دھکیلتے ہیں۔

اسی طرح بچے کا دماغ امتحانی پرچے کی مانند ہوتا ہے۔ جس کے اوپر سوالات درج ہوتے ہیں۔ جن کے جوابات آپ نے اپنی اپنی تیاری کے مطابق دینے ہوتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک جواب عقیدت ہے اور دوسرا جواب ہے تحقیق سے ثابت شدہ سچ۔ آپ بچے کو عقیدت سکھائیں  گے وہ آہستہ آہستہ دلیل کو رد کرنے لگ جائے  گا۔ اس کے لیے عقیدت ہی سبھی کچھ ہوتی  ہے۔ عقل پر مبنی دلیل کو محض عقیدت کے لیے رد کردے گا ۔ اس لیے وہ حق و باطل، نیک و بد اور اچھے برے میں تمیز کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ آپ اسے عقیدت کی جگہ تحقیق کا بتائیں گے تو وہ ایک دن خود سچ کو ڈھونڈ نکالے  گا۔

دیہی علاقوں میں زیادہ تر پنچائتی نظام رائج ہے۔ وہاں پر لوگ زیادہ تر اپنے لڑائی جھگڑوں اور دیگر مسائل کا حل پنچایتوں کے ذریعے ہی نکال لیتے ہیں۔ ایک پنچایت کی تشکیل میں دونوں فریقین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سر پنچ غیر جانبدار ہو۔ جن پنچایتوں میں سر پنچ غیر جانبدار نہیں ہوتے، وہ کسی فریق سے ذاتی تعلق، ایک ہی ذات، مذہب و فرقہ، زبان یا کسی اور تعلق کی وجہ سے طرف داری کرتے ہیں۔ تو ایسے جانبدار سر پنچوں کے فیصلے زیادہ دیر پا نہیں رہتے ہیں بلکہ کچھ عرصے بعد دونوں  فریقین پھر سے لڑ پڑتے ہیں اور اس بار اختلافات زیادہ شدت اختیار کرلیتے ہیں۔ کیوں کہ ناانصافی  کبھی بھی کسی بھی معاشرے میں امن نہیں لا سکتی ہے۔ اس کے برعکس جو فیصلہ کسی غیر جانبدار  سر پنچ سے کروایا جاتا ہے۔ وہ فیصلہ زیادہ دیر پا رہتا ہے۔ یہی کچھ کہانی عقیدت اور دلیل کی ہے۔ ان دونوں کے بیچ سر پنچ عقل ہے۔ اگر ہم نے اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو عقیدت کا روگ نہیں لگنے دیا تو ہماری فیصلہ کرنے کی صلاحیت غیر جانبدار رہے گی۔ اب یہ صاحبِ  عقل پر منحصر ہے کہ وہ عقیدت کا دامن پکڑ کر شعور کی متضاد سمت جانے والے  رستے کا انتخاب کرتا ہے یا منطق کی جستجو میں سچ کی طرف جاتا ہے۔

عقل سے شعور تک کے سفر کے لیے دلیل اور عقیدت دو سواریاں ہیں۔ اگر آپ عقیدت کی گاڑی پکڑیں  گے تو آپ شعور والی منزل کی متضاد سمت جا ئیں  گے۔ لیکن اگر دلیل والی گاڑی پکڑیں  گے تو آپ شعور کی طرف جائیں گے۔ رستے میں آپ کو مختلف نظریات ملیں  گے۔ تحقیق کرنے کی جستجو آپ کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے گی۔ آہستہ آہستہ آپ کے نظریات میں بہتری آنے لگ جاۓ گی۔ کیونکہ آپ انہیں عقل کی کسوٹی پر پرکھ رہے ہوتے ہیں۔ آپ اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ آپ کا نظریہ غلط بھی ہوسکتا ہے اس لیے آپ میں مخالف سمت کے نظریات کو بھی حوصلے سے سننے کی صلاحیت آنے لگ جاتی ہے۔ اس طرح آپ کے نظریات اور خیالات دن بدن ارتقائی عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ لیکن عقیدت میں یہ سب الٹ ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ کا سارا کیس عقیدت پر کھڑا ہوتا ہے۔ عقیدت کی پٹی آنکھوں پر بندھی  ہونے کی وجہ سے بہت سے جائز نظریات کو محض آپ اس لیے رد کردیتے ہیں کیونکہ وہ مخالف گروہ سے منسوب ہیں۔ اور یوں سچ کی طرف جانے کی بجائے انسان عقیدت کا طواف ہی کرتا رہ جاتا ہے۔

جب ہم اپنے اندر اٹھنے والے فطری سوالات پر عقیدوں کی روک لگانے لگ جاتے ہیں۔ ان سوالات کو عقل سے جانچنے کی بجائے غیر فطری تاویلات گھڑنے لگ جاتے ہیں۔ تو ہمارے خیالات بھی جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جو کولہو کے بیل کی طرح منطق سے عاری باتوں کے ارد گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔ اور اسے ہم سچ مان کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بہتر کی تلاش میں ہم میں سے ہر ایک اس ارتقائی عمل سے گزرتا ہے۔ لیکن جب ہم اپنے نظریات کو عقیدت کے ڈھکوسلوں کا سہارا دینے لگ جاتے ہیں۔ تو ہم سچ اور جھوٹ کا فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔ اور ہر چیز کو عقیدت یا تعصب کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔ ہر حقیقت میں سے اپنی من پسند عقائد کی  ہی کھوج کرتے ہیں۔

جیسے جاندار ارتقائی عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ ویسے ہی نظریات بھی ارتقائی عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ بچپن میں بہت سے فطرتی طور پر وقوع  پذیر ہونے والے عوامل کی جو توجیہات ہمیں سمجھائی جاتی ہیں۔ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے ان میں سے آدھے سے زیادہ توجیہات بدل چکی ہوتی ہیں۔ یوں یہ ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس ارتقائی نظام پر روک نہیں لگانی چاہیے۔ جیسے صاف پانی ایک جگہ رک جاۓ تو اس میں آہستہ آہستہ بدبو پیدا ہونے لگ جاتی ہے۔ یہی صورت حال تب ہوتی ہے جب نظریات عقیدت کے رعب میں رک جاتے ہیں۔ جس سے نظریات میں عدم برداشت اور شدت پسندی جیسی بدبو پیدا ہونے لگ جاتی ہے۔ لوگ آپ سے دور جانے لگ جاتے ہیں سوائے آپ کے نظریات کے حامل لوگ باقی آپ سے کنی ہی کتراتے ہیں۔ کیوں کہ عقیدت کو لوگ انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ اس کے خلاف بات برداشت نہیں کرتے ہیں۔ اور یہ ایک معاشرے میں نظریات کے جامد ہونے کی نشانی ہے۔

ہمارا معاشرہ آج عدم برداشت اور شدت پسندی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تحقیق کے حوالے سے ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلکہ پڑھا لکھا نوجوان بھی تحقیق سے ثابت سچ کو ماننے کی بجائے صدیوں سے چلی آرہی گمراہی کو ہی سینے سے لگا کر بیٹھا ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں اس شدت پسندی کا علاج ہو، جدید ایجادات میں ہمارا بھی نام ہو۔ تو ہمیں ایسا ماحول مہیا کرنا ہوگا جس سے گزر کر بچے تحقیق کی طرف گامزن ہو نہ کہ عقیدتوں کے پجاری بنے۔ ہر قسم کے عنوان پر ساز گار ماحول میں مباحثے ہو، مکالمے ہو۔ تاکہ ایک دوسرے کا موقف کا پتا لگے۔ پھر جن اہم نکات پر اختلاف ہو ان پر تحقیق کی جائے۔ تحقیق سے جیسے جیسے آگاہی کے رستے کھلتے جائیں گے لوگوں میں اختلافات بھی کم ہوتے جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس تناظر میں ریاست کو بھی اپنے کردار پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب وہ ہر معاملے میں حقائق کو پس پشت رکھ کر اپنی سوچ مسلط کرے گی۔ تو جو اخلاقی شعور ہمارا چل رہا ہے یہی چلتا رہے گا۔ ہمیں اپنے معاشرے میں موجود جامد فکری رسومات ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
میرے کنی پئی
بانگ نے دسیا
میں کس فقے دا آں
مینوں اسکول چہ
دوۓ مذہب آلیا بارے
نفرت دے پاٹ پڑھاۓ گئے آں
دوئی ذاتاں نو
کمی دس کہ
میری ذات نو معتبر بنایا گیا آں
وراثت چہ
غداری دے فتویٰ
میرے سر منڈھے گئے آں
من مرضی دیاں
تاریخاں پڑھا کے
مینوں منافق بنایا گیا آں
ظالماں دے
ظلم لُکا کے
اوناں نو میرا مسیحا بنایا گیا آں
میرے تو علم دی شمع کھو کے
مینوں غیراں دی
جنگ دا بالن بنا گیا آں
ایتھے ہر کوئی کامیابیاں دا
وارث بن دا اے
ناکامیاں دا طوق وی میرے گل چہ پاگیا آں
میرے تو محبت دے گیت کھو کے
مینوں نفرت دا
پجاری بنا گیا آں
میں کون آں
میں دولے شاہ دا چوہا آں
لوکاں دیاں دتیاں
سوچاں تے پلن والا
میں وا اس معاشرے دا ناسور
میں وا دولے شاہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply