• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جنابِ شان الحق حقی کے ترجمہ کردہ ناول “انجان راہی” پر میرا پسْ لفظ (EndNote)۔۔حافظ صفوان محمد

جنابِ شان الحق حقی کے ترجمہ کردہ ناول “انجان راہی” پر میرا پسْ لفظ (EndNote)۔۔حافظ صفوان محمد

جیک وارنر شیفر Jack Warner Schaefer (1907-1991) کا ناول Shane پہلی مرتبہ 1949ء میں چھپا۔ اِس میں اشاعت سے ساٹھ سال پہلے (1889ء) کی ایک دور دراز امریکی ریاست کی ایک قدرتی وسائل سے مالامال، دور افتادہ بستی کے مکینوں کی باہمی کشاکش اور کشتم کشتا کی ایک تہہ در تہہ کہانی بیان کی گئی ہے۔ اشاعتِ اوّل کے ساٹھ سال بعد بھی یہ ناول ایک اہم تحریر ہے اور گوگل کے مطابق کچھ زبانوں میں اِس کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔

یہ ناول برطانیہ سے شائع ہوا لیکن اِس کا محاورہ اور اسلوب روایتی برطانوی انگریزی کی بجائے زیادہ تر اینگلو امریکن ہے۔ اِس کی ایک وجہ بیان کی گئی کہانی کا ماحول ہے اور دوسری، اہم تر، وجہ ناول کے پیغام کو قارئین کے وسیع تر حلقے میں پہنچانا ہے۔ ناول کا ذخیرۂ الفاظ (Lexis) کئی سطح کے لوگوں کی بولیوں اور عوامی زندگی کے کئی شعبوں کے مخصوص الفاظ و تراکیب اور محاورے و روزمرے کا جامع ہے۔ ناول کا 90 فیصد سے زائد حصہ تجریدی اور منظر نگاری پر مشتمل ہے۔ کچھ خاکے بھی ہیں۔ جملے حسبِ ضرورت چھوٹے، درمیانے اور لمبے ہیں۔ کرداروں کے منہ  سے نکلنے والے الفاظ اُن کی سماجی حیثیت اور پیشہ ورانہ سطح کے مطابق ہیں۔ اِس کی ایک وجہ ناول کے لیے اختیار کی گئی تکنیک ہے یعنی بازگشت (فلیش بیک)، جس میں کہانی سنانے والے ہی کی زبان میں ہر بات ادا ہوئی ہے خواہ وہ دوسروں کے خیالات ہوں یا کئی کئی صفحوں پر پھیلے ہوئے مکالمے۔ کہانی کا بڑا اور اہم تر حصہ لفظوں کے بغیر یعنی بین السطور کہا گیا ہے، اور سچی بات ہے کہ یہ اَن کہی ، کہی سے زیادہ پُر از معنی اور تہہ دار ہے۔

کہانی کہنے والا کردار منظر نگاری کا بادشاہ ہے۔ اُس کا مشاہدہ اور اُس کی قوتِ تخیل حیرت انگیز ہیں اور بیان سہ ابعادی۔ کہانی اٹھاتے میں کہیں کہیں اُس کی باتیں اُس کی عمر سے لگّا نہیں کھاتیں جس کا اُسے خود بھی احساس ہے، اور منظر نگاری کی تفصیلات بھرتی کی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ بظاہر بچپنے میں اور بڑے بھولپن سے مختلف کرداروں سے بہت گہرے سوالات کرتا اور مطلب کی باتیں کہواتا ہے۔ اُس نے ضروری جگہوں پر چابکدستی سے ابہام پیدا کیا ہے۔ وہ ہیرو کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا ہے اور محرمِ راز ہائے زنِ خانہ ہے، لیکن بیان صرف گفتنی کا کرتا ہے اور کہتے کہتے زبان دبا جاتا ہے۔ یہ کہانی کچھ صفائیاں پیش کرنے کے لیے— اور ہیرو کی ذات کے ساتھ اپنے، اپنی ماں اور باپ کے تعلق کی تشہیر کے لیے— واقعاتِ نفْس الامْری کے گزر چکنے کے بہت بعد میں بیان کی گئی ہے۔

ناول کا ہیرو ایک علامتی کردار ہے جو ایک عوامی نمائندے اور جنَتا کا ساتھ دیتا ہے۔ اُس نے ایک ایسے بدنفْس علامتی کردار اور اُس کے ہواخواہ کو ختم کیا جو ریاست کے اندر ایک چھوٹی سی چودھراہٹ قائم کرنے کی کوشش میں تھے— ایسی چودھراٹ جو کل کلا ریاست پر دباؤ ڈالنے کی قوت حاصل کرسکتی تھی۔ جمہوریت کے غیر تحریری آئین کی ایک خاص شق یہ ہے کہ لوگوں کو “حسبِ منشا” آزادی دی جائے نہ کہ کھلے مہار لونڈھار مچانے کی چھٹی۔ چنانچہ اِس کینڈے کے مغربی ناولوں کی طرح اِس ناول میں بھی لاقانونیت، دھما چوکڑی، تشدد اور توڑ پھوڑ کے مناظر وافر ملتے ہیں۔ لیکن اپنے طویل المیعاد مقاصد کے حصول کے لیے اِن سب رویوں کو نہ صرف جائز کیا گیا ہے بلکہ آج کی “جنگ برائے امن” اور “جمہوریت کے تحفظ” جیسی اِصطلاحات کے ہنر مندانہ استعمال کے ذریعے اِنھیں “حق کی جنگ” کے راستے کی چیزیں دکھایا گیا ہے اور اِن پر نوجوان نسل کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی تربیت کا روپہلی ورق لگایا گیا ہے۔ نسلی امتیاز کی لہر بھی پورے ناول میں چلتی ہے اور رنگ دار، انڈین لوگوں کی موقع بموقع شدید تذلیل کی گئی ہے۔ ہیرو لامحالہ سفید فام ہے اور ہر ضروری فن میں طاق، اور اپنی مطلب براری میں معین کارآمد لوگوں سے تعلقات بنانے اور نباہنے میں خاص طور سے مہارت رکھتا ہے۔ وہ لایعنی کاموں میں وقت اور صلاحیتیں کھپانے سے بالکل نفور اور بے حد نپا تلا اور سَمت بند (Object-oriented) آدمی ہے۔ اُس نے اپنے مخالفین کے جتھے میں انتہائی راز داری سے اور بڑی کامیابی کے ساتھ سیندھ لگائی اور اُن میں اپنے مخبر اور حامی پیدا کیے جو بالآخر اُس کی کامیابی کے ضامن بنے۔ وہ عورت مار ہے، لیکن ناول میں اُس کا کردار چونکہ ایک جگ سدھار کا ہے اِس لیے وہ عورت کے ذہنی اور بدنی جذبات کی تسکین ایسی تہذیب سے کرتا ہے کہ سماج کے اِس اہم ستون (Stakeholder) کی وجہ سے پورے سماج (بشمول خاندانی نظام) کی تصویر خراب نہ ہو۔ اُس کے انداز میں بردباری ہے جس کی وجہ سے کھڑا کھیل فرخ آبادی پن پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ گھوڑے پر سوار رخصت ہوتے وقت اُس بچے کو، جو اِس ناول میں ابھرتی ہوئی نسل کا نمائندہ کردار ہے، قطعی الفاظ میں ماں اور باپ دونوں کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتا ہے خواہ اُن کا کردار کیسا ہی ہو۔ یہ اِس بچے کو اُس کی آخری نصیحت اور ناول میں اُس کا آخری مکالمہ (Concluding dialogue) ہے۔

اِس ناول میں صرف ایک نسوانی کردار ہے جو شادی شدہ ہے اور چور لگور۔ یہ ایک بظاہر الھڑ دیہاتن لیکن اصلًا ایک انتہائی شاطر اور خود غرض سفید فام اینگلو امریکن عورت کا نمائندہ کردار ہے جو اپنی ذاتی اور سماجی اغراض کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے، اور تن اور من ہی نہیں بلکہ اپنا سہاگ تک وارنے کا بھی جگرا رکھتی ہے۔ حصولِ مقاصد کے ذریعے سے تکمیلِ عزائم اِس عورت کا یکجہتی منشور (One-point agenda) ہے جس کے لیے وہ سب دستیاب وسائل کو، بشمول ہیرو اور اپنے شوہر، کھلی آنکھوں اور حاضر دماغی سے استعمال کرتی ہے۔ وہ ہیرو کے ساتھ شدید جذباتی وابستگی رکھتی ہے؛ وہ اُس کے لیے کڑھتی اور ہر فورم پر اُس کا دفاع کرتی ہے اور بچے کے کانوں میں اُس کے لیے ایسی محبت سے جچے تلے جملے انڈیلتی ہے کہ وہ بچے کے لیے مثالی کردار (Role model) بن جاتا ہے۔ وہ اپنے شوہر اور ہیرو کی ساکھ، حیثیت اور صلاحیتوں میں کا ناپ تول کر موازنہ کرتی ہے اور پہلے کو نسبۃً ہلکا پاتے ہوئے اُس سے پیچھا چھڑانے اور دوسرے کی ہوجانے پر ذہنًا تیار ہوجاتی ہے۔ اُس کا یہ فیصلہ دور اندیشی، تیز فہمی، حد درجہ غیر جذباتی اور خالصتًا مادّی بنیادوں پر ہے، بالکل یوں جیسے ایک کرسی سے اٹھ کر دوسری کرسی پر بیٹھ جانا۔ اُس کے شوہر کو جو “حق” کا نمائندہ ہے، اپنی بیوی کی دو طرفہ وفا کا نہ صرف علم ہے بلکہ وہ خود کئی کئی روز گھر سے غائب رہ کر اُسے ہیرو سے ملاقات کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اِسی پر بس نہیں، اپنے سیاسی و سماجی عزائم پورا کرنے کے لیے وہ اپنی بیوی کو آشنائی کی ترغیب بھی دیتا ہے اور یہ عفیفہ جو خود بھی، قبلہ یوسفی صاحب کے الفاظ میں، غنیم کے ساتھ ملی ہوئی ہے، جی جان سے آلۂ کار کی اِس حیثیت میں راضی رہتی ہے۔ ہیرو کی ساری کارگزاری اِسی یاریت اور جفتی کھانے کی وجہ سے ہے۔ لیکن یہ لگالگائی اور لگوائی ناول کے متن اور ماحول میں یوں چھپی ہوئی ہے جیسے بدن میں روح، کہ نظر بالکل نہیں آتی اور نہ مادّی وجود رکھتی ہے، بلکہ سرسری مطالعے میں تو محسوس بھی نہیں ہوتی۔ یوں یہ ناول ایک مکمل طور پر “گھریلو” ناول ہے۔ ناول نگار نے یہ کردار دل لگاکر تصویر کیا ہے۔

ہیرو کے دخل در معقولات، دوستوں کے طعنوں اور بیوی، جاگیر اور ساکھ کو ہاتھوں سے پھسلتا دیکھ کر اِس عورت کا شوہر بہت جزبز ہوتا اور پھنکارتا ہے۔ وہ بیوی کی آنکھوں میں ہیرو کی محبت اور ہیرو کو اپنی بیوی کا آئیڈیل بنتا دیکھ کر اپنے اندر تبدیلیاں لانے کی کوشش بھی کرتا ہے، لیکن دل گرفتہ ہوکر بالآخر ہیرو کو اپنی جگہ لینے کا جائز حقدار جانتے ہوئے راستے سے ہٹ جانے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہیرو اپنی گرمیِ جذبات کو معاشرے کے وسیع تر مفاد اور اجتماعی ضروریات پر قربان کرتے ہوئے خود ہی درمیان سے نکل جاتا ہے اور عورت کے منصب (Institution; Office) کو بھی رسوائی سے بچا لیتا ہے، اور خاندانی نظام کا پرچارک ہونے کا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک ڈھیلے، بودے، تُھڑدِلے اور جلد باز سفید فام امریکی مرد کا کردار ہے جس پر قدرت نے زمینی اور سماجی وسائل کی فراوانی کر رکھی ہے اور مخلص بندگانِ بے دام کی صورت میں افرادی قوت بھی عطا کر رکھی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اُسے یہ سب کچھ ایک طویل عرصے تک کی جسمانی مشقت جھیلنے کے بعد ملا ہے۔

یہ ناول اُس وقت لکھا گیا جب وہ بادشاہت اپنا تام جھام سمیٹ رہی تھی جس کی عملداری پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن عام لوگ اور دنیا کے بیشتر ممالک آنے والے دنوں کی بڑی عالمی قوت کی ترجیحات اور عزائم کے بارے میں ابھی زیادہ نہ جانتے تھے۔ امریکی ذہنیت کو، اور جس انداز میں اور جن بنیادوں پر امریکی قوم اپنی نسل اور افرادی قوت کی جسمانی اور روحانی تربیت کرتی ہے، سمجھنے کے لیے یہ ناول آج بھی ایک دکانِ ہمہ سامان (One-Stop-Shop) ہے۔

٭
ناول Shane کا اردو ترجمہ زبانِ اردو کے صحیح مزاج دان جنابِ شان الحق حقی نے کیا جسے 1958ء میں مکتبۂ معین الادب لاہور نے “انجان راہی” کے نام سے شائع کیا۔ اِس کا دوسرا ایڈیشن 1963ء میں چھپا۔ زیرِ نظر (محقَّق) ایڈیشن “انجان راہی” کے پہلے اور تیسرے ایڈیشن (1969ء) اور Shane کے پندرھویں Corgi Book ایڈیشن (1948ء) کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ راقم کو مہینوں کی تلاش کے بعد، بدقت تمام، یہی تین مآخذ ہمدست ہوسکے ہیں۔
اِس (محقَّق) ایڈیشن کو “انجان راہی” کا بہتر ایڈیشن اِس لیے بھی کہا جا سکتا ہے کہ اِس میں وہ تمام سہو ہائے کتابت دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو پہلے اور تیسرے ایڈیشن میں در آئے تھے۔ ذیل میں اِن کی ایک اِجمالی فہرست پیش ہے:

داخلی شواہد کی روشنی میں یہ بات تقریبًا یقینی ہے کہ تیسرے ایڈیشن کی کتابت کے لیے کاتب کے سامنے پہلا ایڈیشن رکھا تھا۔ مذکورۂ بالا دونوں ایڈیشنوں میں پروف کی کچھ غلطیاں رہ گئی ہیں جو سہو، کاتب کی کم فہمی اور پیراگرافنگ تینوں طرح کی ہیں۔ مثلًا پہلے ایڈیشن میں کچھ جملے کتابت نہ ہوئے تھے، حتیٰ کہ ایک پورا صفحہ بھی کتابت ہونے سے رہ گیا تھا، لیکن چونکہ یہ تیسرے ایڈیشن میں موجود ہے اِس لیے یہ بات طے ہے کہ تیسرے ایڈیشن کے لیے (یا دوسرے ایڈیشن میں بھی، جو مجھے ہمدست نہیں ہوسکا) خود حقی صاحب نے پہلے ایڈیشن میں درستیاں لگاکر حوالۂ ناشر/ کاتب کی ہیں۔ کم فہمی کی وجہ سے کئی ایک الفاظ پہلے ایڈیشن کے کاتب نے کچھ کے کچھ لکھ دیے تھے، مثلًا نمدار کو غدار لکھ دیا، وغیرہ؛ تیسرے ایڈیشن میں ایسی غلطیاں تناسب میں کچھ بڑھ گئی ہیں۔ تیسرے ایڈیشن کے کاتب نے، جو کچھ پڑھا لکھا معلوم ہوتا ہے، جنابِ مترجم کو کئی جگہ پر “اصلاح” دینے کی کوشش بھی کی ہے، مثلًا ٹُھنٹھ کو ٹُھنڈ بنا دیا ہے۔ پیراگرافنگ جگہ جگہ سے Shane کے اصل (انگریزی) متن سے مختلف ہے۔ مناظر (Scenes) کی تبدیلی کے لیے بھی کاتب نے کوئی علامت نہیں لگائی جب کہ انگریزی متن میں یہ علامات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں کاتب نے کچھ جگہوں پر اِس طرح نقطے لگائے ہوئے ہیں جیسے کوئی لفظ یا جملہ چھوٹ گیا ہے (جب کہ فی الواقع ایسا نہیں ہے)۔ بعضے صفحوں پر تو یہ نقطے کئی کئی سطروں تک چلے گئے ہیں، جو نری بے سوادی ہے۔ اِس (یعنی تیسرے) ایڈیشن میں گنتی کی چند جگہوں پر پہلے ایڈیشن کے کچھ جملوں کی بندش بھی چست کی گئی نظر آتی ہے جس سے اِس گمان کو مزید تقویت ملتی ہے کہ کاتب کے سامنے ایسا مسودہ رکھا تھا جسے حقی صاحب خود قلم لگا چکے تھے۔ واللہ تعالیٰ اَعلم۔ یہ الگ بات ہے کہ کاتب نے کتنی درستیوں کو متن میں ٹھیک سے لگایا۔

ایک اہم مسئلہ ناول کے اِملاء کا ہے۔ “انجان راہی” کے پہلے ایڈیشن کی کتابت (1958ء) کو آج باون برس ہوچکے ہیں اور تیسرے ایڈیشن کی کتابت (1969ء) کو اکتالیس برس۔ تیسرے ایڈیشن میں اِملاء کا اِرتقا جگہ جگہ محسوس ہوتا ہے، لیکن یہ طے ہے کہ دونوں ایڈیشنوں میں دو مختلف کاتبوں کی روِشِ اِملاء غالب ہے نہ کہ یہ حقی صاحب کی روِشِ تحریر کی ہوبہو نقالی ہیں۔ راقم حقی صاحب کی اِنہی ایام کی تحریروں کے نمونے دیکھنے کے بعد یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔ صرف ایک مثال لیجیے کہ تیسرے ایڈیشن میں بیرونی سرْورق پر کتاب کا نام “انجان راھی” لکھا ہے جب کہ اِس کے پشتے پر “انجان راہی”۔ ایک ہی کاتب (یا خطاط) سرْورق جیسی سامنے کی جگہ پر ہائے کہنی دار اور ہائے دو چشمی میں فرق نہیں کر پا رہا۔ ساری کتاب میں کی روِشِ اِملاء کو اِسی ایک مثال پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ زیرِ نظر (محقَّق) ایڈیشن میں اِملاء کو جدید معیارات کے مطابق اپنایا اور الفاظ کی صورت کو یکساں بنایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں بنیادی طور پر حقی صاحب ہی کی فرہنگِ تلفظ (1993ء) کو راہنما بنایا گیا ہے، جو اُن کے آخری زندگی کے تنہا کیے ہوئے اور خود سے پروف پڑھ کر شائع کیا گیا کام ہونے کی وجہ سے اُن کے روِشِ تحریر اور اِملاء کا نمائندہ کام کہا جا سکتا ہے۔ حقی صاحب کی اوکسفرڈ انگریزی-اردو لغت (2003ء) میں بھی اردو الفاظ کا اِملاء کم و بیش فرہنگِ تلفظ سے ملتا ہوا ہے۔
“انجان راہی” کے پہلے ایڈیشن سے بیسیوں اَسناد “اردو لغت (تاریخی اصول پر)” میں لی گئی ہیں۔ اِس کتاب کی اَسنادی حیثیت متعین ہے۔ چنانچہ اصل ماخذ (Shane) اور دونوں دستیاب طباعتوں کی روشنی میں پورے متن کی درستی کی گئی۔ بے شک یہ کام بہت وقت لے گیا۔

انگریزی نظم و نثر کے اردو تراجم کئی لوگوں نے کیے ہیں جن کی اپنی اپنی اہمیت اور حیثیت ہے۔ چند ترجمے ایسے ہیں جن میں علمی شان بھی پائی جاتی ہے۔ شان الحق حقی اردو کے شاید واحد مترجم ہیں جنھیں نظم ہو یا نثر، اردو کے ناکافی یا تہی داماں ہونے کا احساس کبھی اور کہیں نہیں ہوا۔ “انجان راہی” میں اُنھوں نے دیہاتی زندگی اور زبان، جرائم پیشہ جتھے داروں کی زبان، گوالوں کی زبان، کاشتکاروں کی زبان، لکڑ ہاروں کی زبان، نشانہ باز بندوقچیوں کی زبان، غرض کئی ایک شعبہ ہائے زندگی کی لفظیات، محاورے اور سلینگ کے اردو مترادفات و اِصطلاحات کو جمع کر دیا ہے۔ آپ یہ ناول پڑھ جائیے تو آپ پر کھلے گا کہ اردو میں بالکل سامنے کے کیسے کیسے الفاظ ہیں جو حالانکہ اردو میں نظر نہیں آتے لیکن جنھیں اگر برتا جائے تو تحریر اور گفتگو ہیٹھی نہیں بلکہ بہتر ہوسکتی ہے۔ حقی صاحب نے عوامی گفتگو کے ترجمے کے لیے اردو کے عوامی الفاظ، محاوراتی جملوں کے لیے اردو کے محاورے اور روزمرے، اور انگریزی ضرب الامثال کے ترجمے کے لیے اردو کی بے حد رسیلی کہن کہاوتیں استعمال کی ہیں، اور الفاظ و تراکیب اور محاورے کے غیر ملکی پن کو بطورِ خاص ملکیایا ہے۔ صرف ایک مثال لیجیے کہ Index finger کا ترجمہ وہ “کلمے کی انگلی” کرتے ہیں۔ لیکن اِس سے یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ اُنھوں نے ترجمے کو بالکل “دیسی” بنا دیا ہے یا لفظ بہ لفظ (ad verbum) ترجمہ کیا ہے، یا یہ کہ ناول کے متن سے وفادار رہنے میں کمی کی ہے، بلکہ اِن لسانی پیکروں کو بطورِ نشاناتِ راہ استعمال کرتے ہوئے اور غیر ضروری تفصیلات کو چھانٹتے ہوئے ناول کے ہر ہر سین کے پورے ماحول کو، ماحولیت اور ثقافت کی پوری رنگا رنگی کے ساتھ، شستہ اور رواں اردو میں ڈھالا ہے۔

ذخیرۂ الفاظ کے انتخاب کے ضمن میں یہ صراحت ضروری ہے کہ حقی صاحب نے الفاظ و محاورات کی ٹھونسم ٹھانس کرکے سستی علمیت کی نمائش نہیں لگائی؛ یہ نہ تو اُن کا مزاج تھا اور نہ ذہنی پیچاک۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ ترجمہ کرتے میں اُنھوں نے انگریزی جملوں کی بُنت (sententiousness) سے عمومًا تعرض نہیں کیا، جس کی وجہ سے اردو میں بلاشبہ ایک نیا، تازہ اُسلوب سامنے آیا ہے۔

راقم کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ کسی ترجمے کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ ترجمے کی بجائے ایک طبع زاد تحریر محسوس ہوتا ہے، ایک طنزیہ اور انہدامی تبصرہ ہے۔ “انجان راہی” کے نام سے Shane کا یہ ترجمہ اپنے اُسلوب اور زبانِ اردو کے بے تھاہ خزانۂ الفاظ سے ضرورت کے کچھ برمحل الفاظ و تراکیب اور کہاوتوں کے فنکارانہ انتخاب، کئی ایک شعبہ ہائے زندگی کی پیشہ ورانہ زبان کی لفظیات کی سمائی اور جملوں کی چست، فنکارانہ بُنت کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، اور اِنہی خصوصیات کی وجہ سے انگریزی سے اردو نثری تراجم پر لسانی تحقیق کے لیے ایک قیمتی تجرباتی متن فراہم کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اِس بات کا ذکر کیا جانا، البتہ، ضروری ہے کہ حقی صاحب نے اپنی سوانح “افسانہ در افسانہ” کی آخری قسط (ماہنامہ “افکار” کراچی، جون 1994ء) میں جہاں اپنے سارے کاموں کی قطعی تفصیل سنہ وار اور ایڈیشن وار لکھی ہے اُن میں “انجان راہی” کو ذکر تک نہیں کیا، حالانکہ اِس کے تین ایڈیشن چھپ چکے تھے۔ سیکڑوں صفحات پر پھیلی اِس خود نوشت سوانح میں اُنھوں نے جگہ جگہ اپنے تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کاموں کے حوالے اور اقتباسات دیے ہیں لیکن “انجان راہی” کا کہیں ذکر مذکور نہیں۔ راقم کو افسوس رہے گا کہ حقی صاحب کی زندگی میں اِس کی وجہ پوچھنے کی طرف دھیان نہ جاسکا۔ اب داخلی اور نواحی وجوہات جاننے کے لیے قیاس کے گھوڑے دوڑانے پر پابندی نہیں؛ یاد رہے کہ “انجان راہی” میں گھوڑا ہیرو کا fad (شخصی علامت) ہے۔
٭
“انجان راہی” کے اِس محقَّق ایڈیشن کے لیے کتب کی فراہمی پر کیپٹن شایان الحق حقی (اسلام آباد) کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رؤف پاریکھ (کراچی)، جناب حزیں کاشمیری (لاہور)، جناب محمد تاج (قائدِ اعظم لائبریری لاہور) اور ڈاکٹر شائستہ نزہت (ڈائریکٹر PILAC لاہور) کا شکریہ واجب ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا (لاہور)، برادرم راؤ صفدر رشید (اسلام آباد)، پروفیسر محمد الیاس میراں پوری (ملتان)، بھائی محمد عمیر (ہری پور) اور جنابِ عدنان حقی (کناڈا) کی محبتوں کا بھی بہت شکریہ۔
اَلا لا آلاءَ اِلَّا آلاءَ الالٰہ۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply