بدن (11) ۔ کھجلی اور گنجے/وہاراامباکر

ایک چیز جو ہماری جلد بہت بار کرتی ہے، وہ کھجلی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات کی آسانی سے وضاحت کی جا سکتی ہے (مثلاً مچھر کاٹنا، پِت نکلنا) لیکن بہت سی ایسی ہیں جن کا علم نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت یہ پیراگراف پڑھتے ہوئے آپ کا جسم میں کسی جگہ کو کھجانے کا جی چاہا ہو، جو اس سے پہلے نہیں تھا۔ اور یہ صرف اس کو پڑھنے کی وجہ سے ہوا ہو۔ ہمیں معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ کھجلی کی طرف توجہ کرنے سے کھجلی کی طلب کیوں زیادہ ہو جاتی ہے۔ دماغ میں کوئی ایک حصہ اس سے مخصوص نہیں، اس لئے اس کی نیورولوجیکل تقریباً ناممکن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کھجلی کا تعلق جسم کی بیرونی تہہ سے ہے اور چند نم علاقوں سے، جیسا کہ آنکھ، گلا، ناک وغیرہ۔ کمر پر خارش سب سے لمبی دیر تک سکون دیتی ہے۔ دائمی خارش کئی وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے۔ اس میں دماغ کا ٹیومر، سٹروک، آٹوامیون بیماریاں ہیں یا کئی ادویات کا سائید ایفیکٹ۔ ایک قسم کی پاگل کر دینے والی phantom itch ہے۔ جسم کا کوئی عضو کاٹ دیا جائے (مثال کے طور پر گینگرین کی صورت میں بازو یا ٹانگ) تو یہ اس جگہ پر ہوتی ہے جہاں پر بازو ہوا کرتا تھا۔ اس تکلیف میں مبتلا شخص کو کھجلی وہاں پر ہو رہی ہے جہاں پر کھجایا نہیں جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کھجلی کا سب سے تکلیف دہ کیس امریکی خاتون “م” کا تھا۔ یہ چالیس سالہ خاتون تھیں اور انہیں shingles (ایک جلدی بیماری) ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہیں ماتھے پر زبردست کھجلی شروع ہو گئی۔ اس قدر زیادہ کہ انہیں نے کھجا کھجا کر اپنی ڈیڑھ انچ قطر کی جلد کو اتار دیا۔ دوائیوں سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ وہ سوتے ہوئے بھی اسے کھجاتی رہتی تھیں۔ اتنا زیادہ کہ ایک بار جب وہ اٹھیں تو ان کے چہرے پر سیربوسپائنل فلوئیڈ تھا۔ انہوں نے کھجا کر اپنی کھوپڑی کی ہڈی میں چھید کر دیا تھا۔
آج بارہ سال کے بعد، وہ اتنا قابو پا چکیں ہیں کہ خود کو سنجیدہ نقصان نہ پہنچائیں۔ لیکن کھجلی کہیں گئی نہیں۔ اس میں بڑا معمہ یہ ہے کہ وہ اس علاقے سے اپنے تمام اعصابی ریشے کھرچ چکی ہیں لیکن پھر بھی کھجلی باقی ہے۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
ہماری بیرونی سطح کا ایک اور بڑا معمہ یہ ہے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہمارے بال کم ہونے لگتے ہیں۔ ہمارے سر پر بالوں کی جڑوں کی تعداد ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔ ہم روز پچاس سے ساٹھ بال گراتے ہیں اور کئی بار یہ واپس نہیں آتے۔ مردوں میں سے ساٹھ فیصد افراد پچاس سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے قابلِ ذکر تعداد میں اپنے بال گنوا چکے ہوتے ہیں۔ بیس فیصد کے ساتھ یہ کام تیس سال کی عمر میں ہو چکا ہوتا ہے۔ اس عمل کے بارے میں ہمیں کچھ خاص معلومات نہیں لیکن ایک بات جس کا علم ہے، وہ یہ کہ ایک ہارمون dihydrotestosterone عمر کے ساتھ تھوڑا سا خراب کام کرنے لگتا ہے۔ یہ بالوں کی جڑوں کو بند کر دیتا ہے اور ناک اور کان کے بالوں کی جڑوں کو زیادہ فعال کر دیتا ہے۔ گنجے ہونے سے بچنے کا ایک معلوم علاج خصی کر دئے جانا ہے (ہم اتفاق کریں گے کہ یہ علاج بیماری سے بدتر ہے)۔
ایک تضاد یہ ہے کہ ہم بال آسانی سے گرا دیتے ہیں لیکن خود بال ایک بڑا مضبوط میٹیریل ہے اور ڈیکے آسانی سے نہیں ہوتا۔ قبروں میں یہ ہزاروں سال پہلے کے بھی پائے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گنج کو دیکھنے کا مثبت طریقہ یہ ہے کہ اگر عمر کے ساتھ ہم نے کسی چیز سے ہاتھ دھونے ہی ہیں تو اس قربانی کے لئے بال زیادہ بری شے نہیں۔ آخرکار، کسی کا بھی کبھی گنجا ہونے کی وجہ سے انتقال نہیں ہوا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply