• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فوجی عدالتیں-مجوزہ ترمیمی بل ، اے پی سی اور دہشتگردی و انتہا پسندی

فوجی عدالتیں-مجوزہ ترمیمی بل ، اے پی سی اور دہشتگردی و انتہا پسندی

شاگرد : اپنا حق مانگنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر حقوق کی جدوجہد کرنے والے اسلحہ اٹھا کر لڑنا کیوں شروع کر دیتے ہیں ۔
استاد : تم نے کبھی کسی بند کمرے میں بلی کو پکڑنے کی کوشش کی ہے ۔
شاگرد : نہیں
استاد : کسی بند کمرے یا جگہ پر بلی کے فرار کے تمام راستے بند کر کے کبھی اسے پکڑنے کی کوشش کرنا ،وہ بے ضرر سی بلی فرار کے تمام راستے بند پا کر ایک خطرناک چیتے کی طرح تم پر جھپٹ پڑے گی اور اسکا نشانہ تمہاری گردن ہوگی ۔۔ تمہاری شہہ رگ۔ اگر تم اپنے دفاع میں کامیاب نہ ہوئے تو وہ اپنے دفاع میں تمہیں جان سے مار دے گی ۔
شاگرد : مگر ہم تو بلی کو صرف پکڑ رہے ہیں مارنے کی نیت تو نہیں ۔
استاد : نہ تم بلی کے اندر اتر کر اس کی نیت جان سکتے ہو نہ بلی تمہاری ۔وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ اسکے لیئے تمام راستے بند کردیےگئے ہیں اس کے بعد وہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتی ہے ۔
شاگرد : مقصد اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو جب ہم بند گلی میں پہنچا دیتے ہیں اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں تو وہ تشدد کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں ۔
استاد : ہاں ، مگر ایسا یکدم نہیں ہوتا یہ سوئچ آف یا آن کا کوئی میکنزم نہیں ہے کہ کسی ریاستی یا حکومتی عمل پر فوری طور پر کوئی گروہ یا قوم ردعمل کا اظہار کرئے یہ ایک مسلسل اور نہ ختم ہونے والی سیاسی ، سماجی اور معاشی استحصال کی المناک کہانی ہوتی ہے۔ سماج میں پائی جانے والی ایسی نا ہمواریاں جب مستقل حیثیت اختیار کرلیں اور تبدیلی کی امید لگائے انسان نا امید ہونا شروع کر دیں تب اس نا امیدی سے بہت محدود سطح پر مزاحمت کا آغاز ہوتا ہے اور اس مزاحمت کو جب مکالمہ کے بجائے طاقت سے کچلنے کی کوشش کی جائے تو یہ محدود سا کینوس بڑا ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔
شاگرد : کیا اس مزاحمت کو غداری کہا جائے گا ۔
استاد : اس حوالے سے طرفین کا بیانیہ ہمیشہ متضاد ہی رہا ہے اور رہے گا ۔حکومت اور ریاست کیلئے افراد کی مزاحمت ہمشہ غداری اور بغاوت ہی کہلائے گی مگر مزاحمت کرنے والے خود کو فریڈم فائٹر ، حریت پسند اور اپنی جدوجہد کو جدوجہد آزادی سے موسوم کرینگے ۔
شاگرد : مقصد وہ جدوجہد جس کا نقطہ آغاز بنیادی ضروریات زندگی کا حصول، بنیادی انسانی حقوق ، وسائل اور مادی ضروریات سے ہے نا امیدی کے نقطہ عروج پر پہنچ کر علیحدگی پسندی کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔
استاد : بیشک جہاں نسلی تعصبات کا رنگ گہرا ہو ، مذہبی منافرتیں عروج پر ہوں ، وسائل کی تقسیم اس حد تک غیر منصفانہ ہو کے پسماندگی اور ترقی کے درمیان علاقائی توازن دور دور تک نظر نہ آتا ہو وہاں احساس محرومی مختلف خطوں میں اپنے اپنے مزاج کے مطابق مختلف اوقات میں مزاحمت کے رنگ بدلتا رہتا ہے ۔
شاگرد : اپنے اپنے مزاج سے کیا مراد ۔
استاد : تہذیب و ثقافت بھی لے سکتے ہو مگر یہاں مراد شعور اور تعلیم سے ہے پسماندہ علاقوں میں تعلیم اور تعلیم سے حاصل ہونے والے علمی شعور کی نہایت کمی ہوتی ہے جو زمینی حقائق کی بہتر تشریح سے بے بہرہ ہونے کے سبب جدوجہد کے دستیاب آپشن کو نظر انداز کر کے بہت جلد پرتشدد مزاحمت کی جانب راغب ہونے کا سبب بنتی ہے ,جبکہ کچھ بہتر اور ترقی پذیر علاقوں میں جہاں تعلیم کی شرح بلند ہو افراد با شعور ہوں وہ بہت آخر تک قانونی ، دستوری اور اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے پرامن جدوجہد جاری رکھتے ہیں بلکہ انکا فکری شعور پسماندہ علاقوں میں جاری حقوق کی جدوجہد کو بھی حیات نو دیتا ہے اور انکی کوشش سے بہت سے پرتشدد گروہ مکالمے کی جانب آ جاتے ہیں ۔
شاگرد : اپنے حقوق کیلئے کی جانے والی جدوجہد اور انتہا پسندی و دہشت گردی میں کس طرح فرق کیا جا سکتا ہے ۔
استاد : یہ تو ایک وسیع کینوس ہے یہاں تو محدود سطح پر حقوق کی جدوجہد کرنے والوں اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کو راکٹ سائنس سمجھا جا رہا ہے اور ایسی تنظیموں ، جماعتوں اور تحریکوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے جن کے خدوخال کسی صورت انتہا پسندی یا دہشتگردی سے ہم آہنگ نہیں ۔محض گراس روٹ لیول پر ایک قلیل مقدار میں جرائم پیشہ افراد کو ان میں شامل کر کے یا از خود شمولیت کو جواز بنا کر چند سو افراد کی بے راہ روی کو کروڑوں انسانوں پر منطبق کر کے کسی بھی قوم کے ماتھے پر غداری کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے ۔ تاہم جس وسیع کینوس کی بات تم کر رہے ہو کہ حقوق کی جدوجہد کرنے والی ایک تنظیم یا جماعت اور انتہا پسندوں ودہشت گردوں میں کیسے فرق کیا جائے تو بڑی آسان سی بات ہے کہ حقوق کی جدوجہد کرنے والے کبھی قومی دھارے سے کٹتے نہیں ۔وہ تمام دستیاب جمہوری راستے اختیار کرتے ہیں۔ حتی الامکان مکالمے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ انتہا پسندوں کے پاس مکالمہ کرنے کو کچھ نہیں ۔ان کے پاس صرف ایک نکاتی ایجنڈا ہوتا ہے کہ “تم اور تمہاری سوچ غلط ہے اور جو ہم کہہ رہے ہیں وہی سچ ہے اور اس سچ کو مانو”اسے منوانے کیلئے اسکے نفاذ کیلئے وہ جبر کا ،طاقت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔وہ بنیادی ضروریات ، معیار زندگی یا مادی وسائل کیلئے نہیں صرف اور صرف اپنی تکفیری سوچ کے نفاذ کیلئے انسانیت کو تاراج کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ انھیں حقوق کی جدوجہد کرنے والے سیاسی اور سماجی گروہوں سے ہر صورت الگ رکھنے کی ضروت ہے ۔
شاگرد : کیا فوجی عدالتوں کیلئے مجوزہ ترمیمی بل میں یہی نقطہ وجہ نزع نہیں بنا ہوا ۔
استاد : بیشک ایسا ہی ہے۔ اول تو ایک جمہوری سوچ رکھنے والے انسان کیلئے فوجی عدالتوں کا تصور ہی وہ کڑوا گھونٹ ہے جسے اگر بحالت مجبوری پینا ضروری ہی ہے تو پھر ہر جمہوریت پسند اور انسانیت پر یقین رکھنے والے شخص کا موقف یہی ہوگا کہ سیاسی و سماجی سطح پر حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو انتہا پسندی ، دہشتگردی کے ساتھ مدغم نہ کیا جائے اور انتہا پسندی و دہشت گردی کی ایک واضح تعریف کر دی جائے ۔حکومت سابقہ بل میں جو ترمیم کرنا چاہتی ہے وہ ایک بڑا واضح ابہام پیدا کر رہی ہے جس کی تشریح کرنا بل کی منظوری کے بعد نہایت دشوار ہو جائے گا ۔لہٰذا اس حوالے سے قبل از وقت ایک آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز خوش آئند ہے جہاں اس بل کے ہر پہلو پر غور کرلینا چاہئے ۔
شاگرد : حقوق کی جدوجہد کیلئے جن لوگوں نے مایوس ہو کر اسلحہ اٹھایا ہے ان سے مکالمہ کی بات کی جاتی ہے تو پھر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے مکالمہ کی بات کرنے پر مخالفت کیوں کی جاتی ہے ۔
استاد : حقوق کی جدوجہد کرنے والے لڑ رہے ہیں اپنی زندگی کیلئے بنیادی ضروریات کیلئے وسائل کیلئے اپنے مساوی حق کیلئے ان سے بات کرنا انھیں منانا اس لئے ضروری ہے کہ انکا گلہ جائز ہے طرز عمل بیشک بعض مقامات پر قابل گرفت ہے مگر یہاں ریاست کا فرض ہے کہ وہ ماں بن کر سوچے۔ اسکے اور مزاحمت کرنے والوں کے طرز عمل میں فرق ہونا چاہئے ۔مگر وہ انتہا پسند جو دہشت گردی کر رہے ہیں جو نا آپ کے دستور کو مانتے ہیں نا نظام کو نا آپ کے وطن کو مانتے ہیں نہ آپکی مذہبی تشریحات کو ۔جن کے پاس صرف یہی ایجنڈا ہے کہ سب ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور اپنی من چاہی تشریحات کو مذہب کا نام دیکر جو لاکھوں بے گناہ افراد کو بے دردی سے ذبح کر چکے ہیں ان سے مکالمہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ ان سے صرف ہتھیار ڈالنے کا کہا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ سرنڈر کرنے کا کہا جا سکتا ہے یا ان سے جنگ کی جا سکتی ہے ان سے بات نہیں کی جا سکتی ۔
شاگرد : مختصر طور پر ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کیا تعریف کر سکتے ہیں ۔
استاد : کوئی بھی ایسی سوچ جسے طاقت کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی جائے اور کسی فرد ، افراد یا گروہ کی جانب سے اسکے لیئے مسلح جدوجہد کی جائے بے گناہ انسانوں کی جان ومال ،عزت وآبرو کو خطرے میں ڈالا جائے ،قومی املاک و تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہلائے گی۔ اور اسکی حمایت کرنے والا اسکے لیئے سہولت فراہم کرنے والا سب اس تعریف میں شامل ہونگے۔ اس حوالے سے ہم گذشتہ کسی نشست میں دہشت گردی کی ایک جامع مساوات ( equation) بھی اخذ کرچکے ہیں کہ
انتہا پسندی + طاقت = دہشت گردی

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، انسانیت ہی اسلام کا اصل اور روشن چہرہ انسانیت ہی میرا مذہب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply