پاکستانی کا کھتارسس/اٹھ اوئے سنی گئی آ۔۔اعظم معراج

شوکت خانم ہسپتال ،نمل کالج ،عارف علوی کا کراچی ریلوے اسکول گود لینا ،گورنر سرور کے گوروں کے دیس میں ترقی کے قصے ،ولید کی شاعر مشرق سے نسبت، ،ڈاکٹر راشدہ کی انتظامی صلاحیتوں کا شور و غوغا ، ترین کی بدترین زرعی زمین سے پیداگیری کے کارنامے،علی زیدی کے چندے مانگنے کی صلاحیت,ابرار الحق کا چندوں سے ہسپتال، فیصل کی ریڈیو اور جلسوں میں بازاری خوشامدیں اور خان صاحب کی ہر شعبے کے ماہرین کی خفیہ ٹیم جس نے حکومت میں آتے ہی مسائل پر یلغار کر کےچھا جانا تھا۔ اور پی ٹی آئی کے اس طرح کے پرانے ورکروں اور خان صاحب کے حکومت میں آنے سے پہلے کے کام اور حکومتی اور ریاستی وسائل و اخیتارت ووٹوں والوں یا سوٹوں (ڈنڈوں )والوں کے ذریعے قبضے میں آنے کے بعد کی کارکردگی دیکھتے ہوئے۔اپنے ایم بی اے کے کلاس فیلو سلیم خان کا سنایا ہوا لطیفہ یاد آ جاتا ہے۔ بہت ساری ایڈیٹنگ کے بعد حاضر خدمت ہے۔پڑھیں حسب حال لگیں تو قومی فریضہ سمجھ کر شیئر کریں۔

“کوئی صاحب بولنے والی ایک مہنگی طوطی خرید لائے۔ طوطی بولتی تو خوب تھی لیکن ٹک ٹاک گرلز سے بھی زیادہ اخلاق باختہ تھی۔وہ پنجرے میں بند بھی اخلاق باختہ گفتگو کرتی رہتی ۔یہ صاحب تو پریشان ہوگئے کہ یہ کیا مصیبت میں اٹھا لایا ہوں۔انھوں نے ادھر اُدھر دوستوں سے مشورہ کیا  کہ   کیا کرؤں؟ ایک دوست نے   مشورہ دیا کہ کوئی مشکل نہیں ایک دوست کے پاس دو انتہائی شریف مہذب طوطے ہیں۔ہر وقت اچھی گفتگو اور رب کو یاد کرتے رہتے ہیں، یہ طوطی چند دن ان کے ساتھ رہے گی تو بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔طوطوں کے مالک کو مسئلہ بتا کر گزارش کی گئی۔اس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں، طوطی میرے طوطوں کے پنجرے میں چھوڑ دو بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔شام کو وہ صاحب طوطی چھوڑ آئے، صبح ہوئی طوطی نے ایک توبہ شکن انگڑائی لی اور بلند آواز میں خود کلامی کے انداز میں دعوت گناہ دی ۔اسوقت ایک طوطا ابھی نیند سے جاگا ہی تھا اور دوسرا سو رہا تھا، جاگتے طوطے نے سونے والے کو زور سے ٹہوکا دیا اور ہیجانی کیفیت میں بولا
“اٹھ اوئے سنی گئی آ” (اٹھ جاؤ بھئ خدا نے سن لی ہے)۔

خان صاحب اور انکی کی ٹیم بھی لگتا ہے بگلا بھگت بنی اپنے ملک اورمعاشرے کے لئے کئے گئے چھوٹے موٹے کام گنوا گنوا کر طاقت میں آ گئی لیکن ریاست اور حکومت کے وسائل ہاتھ آنے کے بعد انکے صدر، گورنروں ،وزا اعلیٰ، وزیروں ،مشیروں،اور نوکر شاہی کی وہ کارکردگی بھی نہیں نظر آتی جو حکومتی وسائل سے پہلے تھوڑی بہت تھی۔ پاکستان بھر میں کسی ایک سرکاری آفس،ہسپتال،تھانے،اسکول، ریلوے اسٹیشن، یا دیگر حکومتی اداروں میں انکی کارکردگی وہ نظر نہیں آتی جو معمولی انتظامی حکم ناموں سے حاصل ہوسکتی ہے، لگتا ہے۔بس انکے ٹیم ممبران اور وہ اپنے  پیرا شوٹر دوستوں شیدے فوادے اور دیگر ایک  دوسرے کو مبارکبادیں ہی دے اور وصول کر رہے ہیں،اور  اطلاعات دے رہے ہیں۔ اٹھ اُوئے سنی گئی جے ۔۔اعلیٰ  عہدوں پر براجمان ادنیٰ دماغی و کردار کے حامل افراد کے علاؤہ برصغیر کے معاشروں میں بلکہ ساری تیسری دنیا میں ہی کم ظرف لوگ چھوٹے موٹے ٹارگٹ کے حصول میں بھی عموماً یہ رویے رکھتے ہیں۔جیسے ہی وہ بگلہ بن کر کوئی مقصد حاصل کرلیتے ہیں تو اپنے ہم راز حواریوں کو یہ ہی کہتے ہیں۔
” اٹھوں اوئے سنی گئی جے” (اٹھ جاؤ بھئ خدا نے ہماری سن لی ہے۔اور اقتدار کی طوطی ہمیں مل گئی ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور سترہ کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply