• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسئلہ فلسطین – آخر یہ معاملہ ہے کیا؟(پہلا حصّہ)۔۔ غیور شاہ ترمذی

مسئلہ فلسطین – آخر یہ معاملہ ہے کیا؟(پہلا حصّہ)۔۔ غیور شاہ ترمذی

اسرائیل بحیرہ روم کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن اور مغربی کنارہ (ویسٹ بنک) جبکہ جنوب مشرق میں مصر اور غزہ کی پٹی واقع ہیں۔ اسرائیل کے جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر بھی واقع ہیں۔ اسرائیل خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے اور دنیا میں واحد یہود اکثریتی ملک ہے۔ نسلی اعتبار سے اسرائیل میں اشکنازی یہودی، مزراہی یہودی، فلسطینی، سفاردی یہودی، یمنی یہودی، ایتھوپیائی یہودی، بحرینی یہودی، بدو، دروز اور دیگر بے شمار گروہ موجود ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی کل آبادی ایک کروڑ سے کم ہے جبکہ اس کا رقبہ اس قبضے میں موجود علاقہ اور بشمول جزوی خود مختار فلسطینی ریاست مغربی کنارہ ملا کر 27،799 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ اسرائیل کی ریاست چھ انتظامی اضلاع میں تقسیم ہے جنہیں مہوزت کہتے ہیں۔ ان کے نام سینٹر، حیفہ، یروشلم، شمالی، جنوبی اور تل ابیب کے علاقے اور جوڈیا اور سماریا کے علاقے بھی ہیں جو مغربی کنارے پر ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جوڈیا اور سماریا کے علاقے اسرائیل کا حصہ نہیں مانے جاتے۔ اضلاع کو مزید 15 سب ڈسٹرکٹ میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں نفوط کہتے ہیں۔ انہیں آگے مزید 50 حصوں میں بانٹا گیا ہے۔

اسرائیل میں کل 9 یونیورسٹیاں ہیں جو حکومتی امداد سے چلتی ہیں۔ ہیبریو یونیورسٹی آف یروشلم اسرائیل کی دوسری پرانی یونیورسٹی ہے۔ یہاں یہودیت کے موضوع پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ کتب جمع ہیں۔ ٹیکنیون کی یونیورسٹی اسرائیل کی سب سے پرانی یونیورسٹی ہے اور دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہے۔ اسرائیلی سات یونیورسٹیاں دنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسرائیل نے اپنے قیام سے اب تک درجنوں نوبل پرائز جیتے ہیں۔ فی کس آبادی کے اعتبار سے اسرائیل میں سب سے زیادہ سائنسی مقالے چھپتے ہیں۔ ریاضی، طبعیات، کیمیا، کمپیوٹر سائنسز اور معاشیات میں اسرائیلی یونیورسٹیاں دنیا کی 100 بہترین جامعات میں شامل ہیں۔ اسرائیل میں برقی کاروں کی چارجنگ اور بیٹریوں کی تبدیلی کا ملک گیر نظام موجود ہے۔ اس سے اسرائیل کو تیل پر انحصار کم کرنے میں سہولت ملی ہے۔ اسرائیلی خلائی ادارہ اسرائیل بھر میں ہونے والے خلائی تحقیقی پروگراموں کی نگرانی کرتا ہے جس میں سائنسی اور تجارتی، دونوں طرح کے پروگرام شامل ہیں۔ اسرائیل ان 9 ممالک میں شامل ہے جو اپنے مصنوعی سیارے بنانے اور اسے خلا میں بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل دنیا کی 35ویں بڑی معیشت بھی ہے جس کی فی کس آمدنی 33 ہزار ڈالرز سالانہ سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف بہترین ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے والوں کے یہاں زندگی انتہائی کسمپرسی کا نام ہے۔ کثرت اولاد، بےروزگاری، حفظان صحت کے سٹینڈرڈز سے کہیں کم ماحول میں زندگی سسک رہی ہے۔ ان شدید مسائل کے باوجود بھی حماس سے منسلک فلسطینیوں میں اپنی آزادی کے لئے جان دینے کے جذبات لبالب ہیں اور وہ مسلسل کئی نسلوں سے اسرائیل کے خلاف جدوجہد آزادی میں مصروف ہیں۔

فلسطین کے اس بڑے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ اس معاملہ کی بنیاد کیا ہے، جھگڑا کہاں سے شروع ہوا اور اس کا ممکنہ حل کیا ہو سکتا ہے جس پر تمام فریقین راضی ہو سکیں۔ فلسطین کے معاملہ کو سمجھنے کے لئے ہم پہلے اسرائیل کے قیام کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو یہودی لوگوں سے مسائل شروع ہو گئے جنہوں نے برطانوی راج کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا۔ اسی وقت نازی جرمنی میں ہٹلر کے مبینہ ہولوکاسٹ سے بچنے والے لاکھوں افراد اور ان کے خاندانوں نے یورپ میں اپنے تباہ شدہ گھروں سے دور اپنا وطن تلاش کرنا شروع کر دیا تاہم برطانوی حکومت انہیں زبردستی دوسری جگہوں کے کیمپوں میں بھیج دیتی تھی۔ سنہ 1947ء میں برطانیہ نے اعلان کیا کہ وہ کوئی ایسا حل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے کہ جس پر عرب اور یہودی دونوں متفق ہو سکیں، اس لئے وہ اس علاقے سے انخلا کے بارے سوچ رہا ہے۔

مؤرخہ 15مئی سنہ 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے لئے ایک نئی کمیٹی بنائی۔ 3 ستمبر 1947ء کو اس کمیٹی نے رپورٹ پیش کی کہ برطانوی انخلا کے بعد اس جگہ ایک یہودی اور ایک عرب ریاست کے ساتھ ساتھ یروشلم کے شہر کو الگ الگ کر دیا جائے اور یروشلم کو بین الاقوامی نگرانی میں رکھا جائے۔ اس دوران یہودی آباد کار تیزی سے اس علاقہ میں منتقل ہوتے گئے اور انہوں نے مقامی فلسطینیوں سے ان کی زمینیں منہ مانگے داموں خریدنا شروع کر دیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ اس کی زندہ مثال یہودی ہیں کیونکہ جرمنی سے نکالے جانے کے بعد جب وہ سرزمین فلسطین پہنچے تو انہوں یہ بینرز لگاۓ ہوۓ تھے جس میں لکھا ہوا تھا کہ “جرمنوں نے ہمارے خاندان اور گھروں کو تباہ کر دیا (اے فلسطینیوں) تم ہماری امیدیں نہ تباہ کرنا”۔ مقامی عربوں سے ہمدردی بٹور کر اور انہیں پیسے کا لالچ دیے کر یہودی دھڑا دھڑ فلسطین میں داخل ہوئے اور آج صورتحال یہ ہے کہ جن فلسطینیوں نے انہیں پناہ دی، آج وہ انہی پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔

جنرل اسمبلی کمیٹی کی رپورٹ کے تقریباً تین مہینوں بعد 29 نومبر 1947ء کو جنرل اسمبلی نے اس بارے قرار داد منظور کی۔ یہودیوں کی نمائندہ تنظیم جیوش ایجنسی نے اس منصوبے کو قبول کر لیا لیکن عرب لیگ اور فلسطین کی عرب ہائیر کمیٹی نے اسے مسترد کر دیا۔ یکم دسمبر 1947 کو عرب ہائی کمیٹی نے 3 روزہ ہڑتال کا اعلان کیا اور عربوں نے یہودیوں پر حملے شروع کر دئیے۔ ابتدا میں خانہ جنگی کی وجہ سے یہودیوں نے مدافعت کی لیکن پھر وہ بھی حملہ آور ہو گئے اور فلسطینی عرب معیشت تباہ ہو گئی اور اڑھائی لاکھ فلسطینی عرب یا تو ملک چھوڑ کر گئے یا پھر انہیں نکال دیا گیا۔

پھر 14 مئی 1948ء کو برطانوی اقتدار کے ختم ہونے سے ایک دن قبل جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے مملکت اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا مگر اگلے ہی دن 4 عرب ملکوں، مصر، شام، اردن اور عراق کی افواج فلسطین میں داخل ہو گئیں اور سنہ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی۔ سعودی عرب نے مصری سربراہی میں فوجی بھیجے اور یمن نے اعلان جنگ تو کیا لیکن براہ راست شریک نہ ہوا۔ عرب ممالک نے جنگ شروع کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ خون خرابا بند ہو اور یہ ان کے ممالک تک نہ پھیل جائے۔ ایک سال کی جنگ کے بعد جنگ بندی ہوئی اور موجود ویسٹ بینک (مغربی کنارے) اور جنوبی یروشلم پر اردن نے قبضہ کر لیا تھا جبکہ مصر کے قبضے میں غزہ کی پٹی آئی۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اسرائیل سے 7 لاکھ فلسطینی یا تو نکل گئے یا انہیں نکال دیا گیا۔

11 مئی 1949ء کو اقوام متحدہ میں اکثریتی رائے سے اسرائیل کو رکن منتخب کر لیا گیا۔ ابتدائی برسوں میں وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان سیاسی طور پر سب سے نمایاں رہے۔ اسی دوران ہولو کاسٹ سے بچنے والے افراد اور دیگر مسلمان اور عرب ممالک سے نکالے گئے یہودیوں نے بھی اسرائیل کا رخ کیا اور محض دس برسوں میں اسرائیل کی آبادی 8 لاکھ سے بڑھ کر 20 لاکھ ہو گئی۔ اس لئے اس عرصے میں خوراک، ملبوسات اور فرنیچر کی راشن بندی ہوئی تھی۔ اسرائیل آنے والے بعض افراد اس نیت سے آئے تھے کہ انہیں یہاں بہتر زندگی ملے گی۔ کچھ یہودیوں کو ان کے آبائی ممالک میں نشانہ بنایا جاتا تھا جبکہ کئی لوگ صیہونی فلسفے پر یقین رکھتے تھے جس کے مطابق یہودی دنیا بھر کے لوگوں سے افضل ہیں اور انہیں پوری دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان پناہ گزین افراد کو ان کے آبائی وطن کے حوالے سے الگ الگ سلوک کا سامنا تھا۔ یورپ سے آنے والے یہودیوں کو معاشی اور معاشرتی اعتبار سے اہمیت دی جاتی تھی اس لیے انہیں پہلے آنے کا حق دیا جاتا تھا اور عربوں کے چھوڑے مکانات بھی انہیں پہلے دئیے جاتے تھے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے آنے والے یہودیوں کے بارے عام رائے یہ تھی کہ وہ سست، غریب اور مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے پس ماندہ ہوتے ہیں اس لئے انہیں مہاجر کیمپوں میں زیادہ عرصہ انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ انہیں اجتماعی زندگی کے لئے مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ مسائل اس حد تک بڑھے کہ اس پر تصادم شروع ہو گئے جو آئندہ برسوں میں بڑھتے چلے گئے۔

سنہ 1950ء کی دہائی میں اسرائیل پر فلسطینی فدائیوں کے حملے عام بات تھے جن کی اکثریت مصری زیر انتظام غزہ کی پٹی سے آتی تھی۔ سنہ 1956ء میں مصر نے نہر سوئیز کو نیشنلائز کر کے اسرائیلی بحری جہازوں کے لئے اڈث بند کر دیا۔ جس پر سیخ پا ہو کر برطانیہ سے خفیہ معاہدے کے بعد اسرائیل نے جزیرہ نما سینائے پر حملہ کیا لیکن بین الاقوامی دباؤ پر اسرائیل نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور یہ معاہدہ طے پایا کہ اسرائیل کی تجارتی آمد و رفت بحر احمر اور نہر سوئیز سے جاری رہے گی۔

سنہ 1964ء سے عرب ممالک اس خدشہ کا اظہار کر رہے تھے کہ اسرائیل دریائے اردن کا رخ موڑ کر انہیں پانی سے محروم کر دے گا۔ اس خدشہ کے تدارک کے لئے خود اس دریا کا رخ موڑنے پر کام شروع کر دیا جس کی وجہ سے اسرائیل کے شام اور لبنان کے درمیان مسائل بڑھ گئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 1967ء میں اسرائیل نے جب غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تو فلسطین کے پانی کے حقوق پر تنازع کھڑا ہو گیا۔ اس موقع پر عرب قوم پرستوں نے جمال عبد الناصر کی قیادت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کو تباہ کرنے کا اعلان کیا۔ سنہ1967ء میں مسائل اتنے بڑھ گئے کہ عرب ممالک نے اپنی فوجوں کو متحرک کرنا شروع کر دیا تو اسرائیل نے پہل کرتے ہوئے 6 روزہ جنگ شروع کی۔ جنگ میں اسرائیلی فضائیہ نے عرب مخالفین مصر، اردن، شام اور عراق پر اپنی برتری ثابت کر دی۔ اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، ویسٹ بینک (مغربی کنارے)، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیل نے یروشلم کی حدود کو بڑھا دیا اور مشرقی یروشلم کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔

جنگ کے بعد اسرائیل کو فلسطینیوں کی طرف سے مزاحمت اور سینائی میں مصر کی جانب سے جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دیگر گروہوں کی نسبت سنہ 1964ء میں بننے والی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے ابتداء میں خود کو “مادر وطن کی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد” کے لئے وقف کر دیا۔ سنہ 1960ء کی دہائی کے اوآخر اور 1970ء کی دہائی کے اوائل میں فلسطینی گروہوں نے اسرائیل اور دنیا بھر میں یہودی مقامات اور افراد کو نشانہ بنائے رکھا جس میں سنہ 1972ء کے میونخ اولمپکس میں اسرائیلی کھلاڑیوں کا قتل عام بھی شامل ہے۔ جواب میں اسرائیل نے اس قتل عام کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف اپنی خفیہ ایجنسی موساد کے جاسوس قاتلوں کے ذریعہ قتل کی مہم شروع کی اور لبنان میں پی ایل او کے صدر دفتر پر بھی بمباری کی۔ اس مہم کے دوران یہودی یوم کپور کا تہوار 6 اکتوبر 1973ء کو منا رہے تھے کہ مصر اور شام کی افواج نے جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ 26 اکتوبر کو اسرائیل کی فتح پر ختم ہوئی لیکن اسے کافی سخت نقصانات اٹھانے پڑے۔ اگرچہ اندرونی تحقیقات سے اسرائیلی حکومت کی کوئی کمی یا کوتاہی نہیں نکلی لیکن عوامی دباؤ پر آئرن لیڈی کے نام سے مشہور وزیر اعظم گولڈا میئر نے استعفی دے دیا۔

سنہ 1977ء کے انتخابات میں لیکوئڈ پارٹی نے لیبر پارٹی کی جگہ حکمرانی سنبھال لی۔ بعد میں اسی سال مصری صدر انور السادات نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا اور اسرائیلی قومی اسمبلی سے بھی خطاب کیا۔ کسی بھی عرب سربراہ مملکت کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ 11 مارچ 1978ء کو پی ایل او کے گوریلوں نے لبنان سے حملہ کر کے 38 اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا۔ اسرائیل نے جواب میں جنوبی لبنان پر حملہ کر کے پی ایل او کے مراکز تباہ کر دئیے۔ پی ایل او کے گوریلے پسپا ہو گئے لیکن اسرائیل نے لبنان کی فوج اور اقوام متحدہ کی امن فوج کے آنے تک انتظام سنبھالے رکھا۔ جلد ہی پی ایل او کے گوریلوں نے اسرائیل پر جنوبی جانب سے حملے کرنا شروع کر دئیے جس کے جواب میں اسرائیل نے بھی مسلسل زمینی اور فضائی جوابی کاروائیاں جاری رکھیں۔

اسی دوران میں اسرائیلی وزیراعظم بیگن کی حکومت نے یہودیوں کو مقبوضہ مغربی کنارے پر آباد ہونے کے لئے سہولیات دینا شروع کیں تو عربوں اور اسرائیلیوں کے مابین کشمکش اور تیز ہو گئی۔ سنہ 1980ء میں منظور ہونے والے بنیادی قانون کے تحت یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت قرار دیا گیا جو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی فیصلہ ہے اور غربی کنارے پر یہودیوں کی آبادکاری کو بھی بین الاقوامی برادری کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سنہ 1981ء میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا اگرچہ بین الاقوامی طور پر اس فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ البتہ یہ پہاڑیاں ابھی تک اسرائیل کے ہی قبضہ میں ہیں۔

اس کے بعد 7 جون 1981ء کو اسرائیلی فضائیہ نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کیا جو بغداد کے پاس ہی واقع تھا۔ سنہ 1982ء میں پی ایل او کے مسلسل حملوں کے جواب میں اسرائیل نے لبنان میں پی ایل او کے مراکز کو تباہ کر دیا۔ جنگ کے ابتدائی 6 دنوں میں اسرائیل نے پی ایل او کے مراکز کو اردن میں تباہ کر دیا اور شامیوں کو شکست دی۔ اسرائیلی حکومتی تحقیقاتی کمیشن (کاہان کمیشن) نے بیگن، شیرون اور دیگر کئی اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو صابرہ اور شتیلہ کے قتلِ عام کا ذمہ دار قرار دیا۔ سنہ 1985ء میں قبرص میں ہونے والے فلسطینی دہشت گرد حملے کے جواب میں تیونس میں پی ایل او کے صدر دفتر کو تباہ کر دیا۔ اسرائیل اگرچہ سنہ 1986ء میں لبنان کے زیادہ تر حصے سے نکل آیا تھا لیکن اس نے جنوبی لبنان میں حفاظتی بفر زون سنہ 2000ء تک قائم رکھے۔

فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ہونے والی پہلی مزاحمتی تحریک انتفادہ اول کا آغاز سنہ 1987ء میں ہوا اور غربی کنارے اور غزہ میں مظاہرے اور تشدد پھوٹ پڑا۔ اگلے 6 سال تک انتفادہ زیادہ مضبوط ہوتا گیا اور اس کا نشانہ اسرائیلی معیشت اور ثقافت تھیں۔ اس دوران میں 15 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جن کی اکثریت فلسطینی نوجوان تھے جو اسرائیلی فوج پر پتھر پھینکتے تھے۔ شمالی اسرائیل پر پی ایل او کے مسلسل حملوں کے جواب میں اسرائیل نے سنہ 1988ء میں جنوبی لبنان میں کارروائی کی۔ کویت کے بحران کے دوران میں اسرائیلی محافظین نے مسجد اقصٰی میں احتجاجی جلوس پر فائرنگ کی جس سے 20 افراد جاں بحق اور 150 زخمی ہوئے۔ سنہ 1991ء کی خلیج کی جنگ کے دوران میں فلسطینیوں کی ہمدردیاں عراق کے ساتھ تھیں اور عراق نے کئی بار اسرائیل پر سکڈ میزائل سے حملے بھی کئے مگر عوامی اشتعال کے باوجود امریکا کے کہنے پر اسرائیل نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔
سنہ 1992ء میں اضحاک رابن وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کی انتخابی مہم کا اہم پہلو اسرائیل کے ہمسائیہ ممالک سے تعلقات کی بہتری تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply