جناح نے جن کھوٹے سکوں سے بے زاری اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ وہ انہی لوٹے اور نام نہاد الیکٹیبلز کے آباؤ اجداد تھے۔ انگریز استعمار کے پروردہ جاگیرداروں، وڈیروں، نوابوں اور سرداروں کے استحصالی جتھے اپنے طبقاتی اور ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے انگریز استعمار کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے۔ آزادی کی تحریکوں کو کچلنے اور عوام کا بے رحمی سے خون بہانے میں استعماری قوت کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ ہی طبقے ملک کو ایک جمہوری، خوشحال، ترقی پسند اور روشن خیال ریاست اور سماج بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے۔ یہ طبقے انگریز کی پروردہ سول بیوروکریسی اور فوجی جرنیلوں کی آمرانہ حکومتوں کو قائم کرنے میں ایک موثر آلہ کار بنتے رہے ہیں۔
غلام محمد کی سول آمریت ہو یا جنرل ایوب خان کی فوجی آمریت، جنرل یحیٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے سیاہ آمرانہ ادوار ہوں، سیاسی لوٹے اور نام نہاد ایلیکٹیبلز ہی آمروں کا سہارا اور ستون بنے رہے۔ اب الیکشن سے قبل سیاسی لوٹوں اور جناح کے کھوٹے سکوں کے وارثوں نے سلیمانی فرشتوں کے اشارے پر ایک مخصوص سیاسی پارٹی میں ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے نئے حامیوں سے سیاست پر گفتگو کریں تو ان کے پاس ماسوائے جمہوری سیاست اور سیاستدانوں کو گالیوں سے نوازنے اور آمروں کے گن گانے کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ انکا لیڈر تخت اسلام آباد کے لالچ میں بغیر کسی لگی لپٹی کے بڑی ڈھٹائی سے جمہوری سول بالادستی کے خلاف بر سر پیکار ریاستی قوتوں کے موقف کی حمایت کر رہا ہے۔
پاکستان کی کمزور جمہوریت طالع آزما ڈکٹیٹروں کی بوٹوں تلے مسلی جاتی رہی۔ جاگیراروں، وڈیروں،سرداروں اور نوابوں کے گھر کی لونڈی بنی رہی۔ ریاست کے کار گزاروں نے عوام کو جمہوریت اور جمہوریت کو عوام سے دور رکھا۔
قیام پاکستان کے 23 سال کے بعد 1970 کے الیکشن میں عوام کو پہلی بار ووٹ کا حق استعمال کر کے اپنے نمائندے اور حکمران منتخب کرنے کا موقع ملا۔ ان انتخابات میں عوام نے انگریز استعمار کے پالتو الیکٹیبل جاگیراروں، وڈیروں، نوابوں اور انکے حواری ملاؤں کا دھڑن تختہ کر دیا۔ عوام نے جمہوری ریاست، معاشی و سماجی انصاف اور انسانی برابری کی ترجمان سیاسی قوتوں کے حق میں فیصلہ دیا۔
آج کے حالات اور 28۔ جولائی 2018 کے انتخابات کا 1970 کے حالات اور انتخابات سے موازنہ کرنا مناسب نہ ہو گا۔ مگر آج گلی گلی اور گاؤں گاؤں عوام میں یہ بات زیر بحث ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو کامیاب کروانے کے لئے راہ ہموار کر رہی ہے۔ ہر جانب قبل از الیکشن دھاندلی کا شور سنائی دے رہا ہے۔ غیر جانبدار مبصرین بھی زبان کھولنے پر مجبور ہیں کہ سب سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں برابر کے مواقع فراہم نہیں کئے جا رہے۔
ان حالات کے باوجود جمہوری قوتوں کو عوامی شعور اور طاقت پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔ الیکشن مہم کے آخری دنوں میں کپتان نیازی کے جلسوں میں عوام کی گھٹتی تعداد انکی گرتی مقبولیت کی طرف واضح اشارے ہیں۔ جمہوریت کے خلاف خفیہ ہتھکنڈے نہ صرف عوام کے سامنے بے نقاب ہو تے جا رہے ہیں، ساتھ ہی عوام سلیمانی قوتوں اور انکی پالتو کٹھ پتلیوں کے تماشے سے سخت بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ امید کی جانی چاہے کہ عوام الیکشن میں لوٹے الیکٹیبلز اور اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی سیاسی قوتوں کو شکست فاش سے دوچار کریں گے ۔ عوام ریاست پر جمہوری سول بالادستی قائم کرنے والی قوتوں کو منتخب کرکے آئین اور قانوں کی حکمرانی، جمہوری عمل اور جمہوریت کو مستحکم کریں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں