عرب ممالک اور رمضان کی روایات۔۔منصور ندیم

رمضان مسلمانوں کا ایک ایسا مذہبی تہوار ہے، جو پورے ایک ماہ ایک پوری تہذیبی شکل اختیار کرلیتا ہے، جس کے مذہبی پہلو تو بہرحال یکساں رہیں گے، مگر پوری دنیا کے مختلف ممالک کے مسلمان اسے مختلف رنگوں اور کیفیتوں کے ساتھ مناتے ہیں، عرب ممالک میں بھی رمضان کا اپنا ہی ایک الگ رنگ ہے۔ یہاں رمضان کا استقبال باقی اسلامی دنیا سے مختلف ایک خاص ماحول میں کیا جاتا ہے۔ رمضان کے دن اور راتیں یہاں دنیا کے دیگر ممالک سے یکسر مختلف ہیں۔ ماہ صیام میں پورا عرب معاشرہ رمضان میں ڈھل جاتا ہے۔ سحر و افطار میں عرب ممالک میں بھی رمضان میں مختلف رسم و رواج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی کچھ تفصیل یہ ہے۔

 

سعودی عرب :

سعودی عرب حجاز کی روایات کا امین ہے ، کرونا کی آمد سے پہلے یہاں کثرت سے حکومتی یا مقامی فلاحی اداروں کی جانب سے باقاعدہ بہت بڑے بڑے اور بہترین انتظامی ترتیب سے افطار کیمپ لگائے جاتے تھے، اسکے علاوہ پورے سعودی عرب میں رمضان میں مارکیٹس کو رمضان کے استقبال کے لیے جھنڈیوں، قمقموں اور فانوسوں سے سجانے کی روایت رہی ہے، جدید ترین بازاروں کے علاوہ شہروں کے قدیمی اور تاریخی بازاروں کے بھی نئے رنگ ہوتے ہیں، شہروں میں جدید طرز کے شاپنگ مالز اور مختلف سپر مارکیٹس کے باوجود قدیم رہائشی ان بازاروں سے رمضان کی شاپنگ کرنے کے عادی ہیں۔ یہ روایت سعودی عرب کے تمام شہروں میں ہے جہاں ایک مخصوص مارکیٹ رمضان کی شاپنگ کے لیے ضرور مختص ہوتی ہے۔

سعودی عرب کے مشرقی ضلعے میں الاحساء قدیم ترین شہروں میں سے ہے اور یہاں رمضان کا ایک رواج قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے، جس پر آج بھی اس پر عمل ہو رہا ہے۔ اسے مقامی زبان میں ’النقصۃ‘ کہا جاتا ہے، یہ قدیم عوامی رواج سعودی عرب سمیت خلیج کے متعدد ملکوں میں رائج ہے۔ النقصۃ رواج کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنے پکوان یا افطار دسترخوان سے کچھ حصہ اپنے رشتے داروں یا پڑوسیوں کو تحفے کے طور پر پیش کرتا ہے گویا اس طرح اس کے دسترخوان کے پکوانوں کا کچھ حصہ کم ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے النقصۃ کہا جاتا ہے۔

اس رواج کا مرکز بچے ہوتے ہیں۔ افطارسے کچھ پہلے بچے رمضان کی لذیذ ڈشیں لے کر اپنے ہمسایوں اور آس پاس رہائش پذیر رشتہ داروں کو پہنچاتے ہیں۔ افطار سے قبل رمضان میں پکوانوں کا تبادلہ خلیجی ممالک کی قدیمی رسم ہے۔ اب بھی اس پر عمل ہورہا ہے۔ تازہ کھجوروں کا تحفہ بھی اس موقع پر پیش کیا جاتا ہے۔ ماضی میں سب پڑوسی مل کر رمضان کے دوران افطار کے وقت مختلف پسندیدہ ڈشوں کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ جنہیں بچے ایک گھر سے دوسرے گھر پہنچاتے تھے۔ یہ رواج اب بھی موجود ہے لیکن اب اس کی وہ رونق نہیں جو ماضی میں ہوتی تھی۔کھانے کی ڈشز میں مقامی کھانے الھریس، الجریش، اللقیمات، الشعیرہ اور الثیرد تبادلے میں شامل ہوتے تھے۔ الحساء میں ڈھول کی آواز پر سحری میں اٹھانے کا رواج بھی موجود ہے۔

یوں تو پورا سعودی عرب ہی رمضان میں خاص کیفیت میں رہتا ہے مگر اللہ کے حبیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ منورہ میں ایک خاص مقام پر پیدل چلنےوالوں کے لیے ایک خاص راستہ بنا یوا ہے جو مسجد نبوی اور مسجد قبا کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ عام حالات میں رمضان سے لے کر حج تک ایک انتہائی معروف راستہ ہے ، لیکن رمضان کے مہینے میں اس راستے کی خصوصیت اس لحاظ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہاں کئی خاندان اکٹھے ہو کر رمضان کے ماحول سے لطف اندوز ہونے اتے ہیں۔ اسے ” جادہ قبا” اور ‘قبا فرنٹ’ کہا جاتا ہے، تین کلو میٹر طویل اس پیدل راستے کو خاندان سمیت آنے والوں کے لیے اس رمضان میں خصوصی طور پر سجایا گیا ہے۔

اس راستے پر اشیائے خوردونوش کی فوڈ گاڑیاں موجود ہیں، جو مخصوص اوقات کے لیے مصنوعی شاپنگ سٹورز بنائے گئے ہیں۔ قبا فرنٹ یا جادہ قبا کا یہ علاقہ رمضان میں رنگین قمقموں سے سجایا جاتا ہے ہے جہاں لوگوں کے بیٹھے کے لیے بھی جگہ مختص ہے، اس جگہ بہت سے مقامی خاندان اپنے گھروں سے مخصوص اشیا تیار کر کے بھی لے آتے ہیں۔ اور یہاں پر ۱۲۰ سے زیادہ خاندانوں کو ان اشیاء کو فروخت کے لیے جگہ فراہم کی گئی ہے۔یہ جگہ مدینہ منورہ کی انتظامیہ کی زیر نگرانی ہے، اور یہاں پر ہر عمر کے افراد کے لیے کچھ خاص ضرور ہے جو انہیں لطف اندوز کرتا ہو، یہاں پر فیملیز کے لیے ایک منظم اور خوبصورت ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ یہاں یہ ماحول فراہم کرنے کے لیے کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس سے قبل ٹریفک کے باعث ہم لوگ اس علاقے سے کم گذرتے تھے۔اب مدینہ منورہ کے مقامی شہری اور شہر سے باہر سے آنے والوں کے لئے خاصی پرکشش ہے،۔ یہاں کئی اقسام کی تفریح کے ساتھ اعلی معیار کے کیفے اور ریستوران بھی بنے ہوئے ہیں۔

مصر :

عرب کےخطے میں رمضان کا ایک اہم جز فانوس بھی ہے۔ عربوں کی قدیم روایت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں گھروں، محلوں اور مسجدوں میں فانوس روشن کیا کرتے تھے۔ اس سے یہ روایت مستحکم ہوگئی اور اب اس کا رمضان کے ساتھ گہرا تعلق بن گیا ہے۔ مصر میں ویسے بھی رمضان میں راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں، رمضان میں فانوس کا آغاز مصر میں فاطمی ریاست کے دور سے ہوا۔ تاریخ میں اس حوالے سے ایک سے زیادہ روایتیں ملتی ہیں کہ رمضان اور فانوس کا رشتہ کب قائم ہوا۔ پہلی روایت کے مطابق فاطمی ریاست کے دوران خلیفہ خود رمضان کا چاند دیکھنے نکلتا تھا۔ اس کے جلوس میں بچے لالٹین لیے آگے آگے چلتے تھے۔ ہر ایک بچے کے ہاتھ میں روایتی لالٹین ہوا کرتی تھی جو وقت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے فانوس کی شکل اختیار کر گئی۔ خلیفہ کے جلوس میں لالٹین اٹھانے والے بچے رمضان کی آمد کی خوشی میں ترانے گایا کرتے تھے۔

اور دوسری روایت بھی فاطمی ریاست سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ اس کے مطابق خلیفہ نے حکم دیا کہ رمضان کے دوران رات بھر سڑکوں، محلوں اور گلیوں کو روشن رکھا جائے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے ہر ایک نے اپنے دروازے پر لالٹین لٹکا دی۔ جسنے بعد میں فانوس کی شکل اختیار کرلی۔ فانوس کا آغاز مصر سے ہوا اور یہ روایت ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی چلی گئی اور پھر بعد میں شام، عراق اور دوسرے عرب ممالک تک پہنچی۔ اب شاید ہی کوئی عرب گھرانہ ایسا ہو جو رمضان میں فانوس نہ خریدتا ہو۔ پورا عرب رمضان میں فانوس کا ضرور استعمال کرتا ہے۔مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے بعض محلے صرف فانوس کی صنعت سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں سال بھر مختلف شکلوں کے خوبصورت فانوس تیار کئے جاتے ہیں اور رمضان سے قبل پورے عرب میں برآمد کئے جاتے ہیں۔

مصر کی رمضان کے مہینے کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مسیحی رہائشی ماہ رمضان کے دوران اپنے مسلمان ہمسایوں کے ساتھ مل کر ناصرف صدقہ خیرات کرتے اور دیگر روایات نبھاتے ہیں بلکہ ایک ساتھ افطار بھی کرتے ہیں۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق قاہرہ کے علاقے شوبرہ میں مسیحی برادری کی تعداد پانچ لاکھ ۹۰ ہزار ہے، اور عیسائی و مسلمان یہ روایت تقریبا ۲۰ سالوں سے نبھا رہے ہیں۔ مصر میں مل جل کر رہنا زندگی کا حصہ ہے، خاص طور پر شوبرہ میں جہاں رمضان میں مسلمان اور مسیحی احتراماً اکٹھے ہو جاتے ہیں، تاہم کورونا وائرس کے باعث اس برس یہاں دسترخوان نہیں لگائے گئے لہذا اب وہ ضرورت مندوں کے لیے راشن عطیہ کر رہے ہیں۔

ویسے مصر و پاکستان کے افراد میں ایک چیز کی مماثلت ہے ، مصر کے کئی شہروں میں رمضان کے مہینے میں سڑکوں اور گلیوں میں کسی بھی دوسرے عرب ملک کے مقابلے میں جھگڑے ضرور ہوتے ہیں، اس کے بڑھنے کی وجوہات شائد یہ جھگڑے وقتی طور پر تمباکو نوشی یا کیفین میں وقفہ یا پھر اس کے علاوہ کھانے پینے کے اوقات میں تاخیر کے باعث ہوتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات:

جیسے سحر و افطار کے وقت کا اعلان ہر ملک میں منفرد انداز میں کیا جاتا ہے۔ویسے متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں توپ کے گولے داغ کر افطارکے وقت کا اعلان کرنے کی روایت ہے۔ جیسے پاکستان و ہندوستان میں سحر و افطار کے وقت کا اعلان سائرن بجا کر کیا جاتا ہے، اسی طرح دبئی میں بھی توپ کے گولے داغ کر افطار کے وقت کا اعلان کرنے کی سیکڑوں سال پرانی روایت آج بھی برقرار ہے۔ رمضان کے مہینے میں دبئی میں ۶ مختلف مقامات پر توپیں رکھ دی جاتی ہیں جن کے ذریعے پورے رمضان اذانِ مغرب کے وقت گولے داغ کر افطار کے وقت کا اعلان کیا جاتا ہے، رمضان میں دبئی افطار کے وقت توپوں کی آواز سے گونج اْٹھتا ہے اور روزہ دار روزہ کھولتے ہیں جبکہ یہ منظر دیکھنے کیلئے لوگوں کی بڑی تعداد ان مقامات کا رُخ کرتی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں رمضان میں عام طور پر افطار کے لیے افطار خیمے بھی لگائے جاتے ہیں۔

فلسطین :

فلسطین میں رمضان کی ایک قدیم روایت ہے ایک شخص سحری سے کچھ دیر پہلے ڈھول بجا کر لوگوں کو جگاتا ہے۔ فلسطین میں رمضان کی آمد سے قبل ہی سجاوٹ کے لیے بننے والی لالٹینوں کی فروخت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ فلسطین کے لوگ اپنے گھروں کو ان لالٹینوں سے سجا کر رمضان کا استقبال کرتے ہیں۔فلسطین کے علاقہ غزہ میں بسنے والے مسلمانوں کے کئی خاندان رمضان المبارک میں افطاری کے لیے روایتی طور پر ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پچھلے ۱۴ برسوں سے سے اسرائیل کی غزہ پر ناجائز تسلط کے باعث اسرائیل کی جانب سے ناکہ بندی اور رمضان کے مہینے میں ان علاقوں میں بجلی کے تعطل کے باعث روزہ دار اپنے خاندانوں کے ہمراہ ساحل سمندر پر جمع ہو جاتے ہیں۔

مغرب کی نماز سے قبل روزانہ سیکڑوں خاندان اس مقام پر افطارکی ڈشوں کے ساتھ غروب آفتاب کا انتظار کرتے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر بسنے والے مسلمانوں کے پاس واحد تفریح ساحل سمندر ہے جہاں وہ آ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے کئی سالوں کی ناکہ بندی اور داخلی راستوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ بجلی کی بندش کے باعث غزہ کی تقریبا ۲۰ لاکھ کی آبادی میں سے اکثریت اب اس ماحول میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں، اور ۸۰ فیصد آبادی ذریعہ معاش نہ ہونے کے سبب انسانی ہمدردی اور امداد پر انحصار کر رہی ہے۔ اس ماحول یہاں کے مقامی لوگوں کے پاس ساحل سمندر ہی ایک سستی تفریح اور وقت گزاری کا بہتر ذریعہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مقامی آبادی  ساحل سمندر پر انتہائی سادگی سے افطار کرتے   ہیں، ، یہاں آنے سے ان خاندانوں کو زندگی کی کچھ اداسیوں اور بحرانوں کو بھولنے میں مدد ملتی ہے اور ساحل سمندر پر پکنک کا سا ماحول ہوتا ہے اور بچے کچھ دیر کے لیے بغیر کچھ خرچ کئے لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔ مقامی لوگ گھروں سے ہی کچھ مشروبات اور کھانے پینے کی چیزیں بنا کر ساتھ لے آتے ہیں۔ کیونکہ غزہ پٹی میں رہنے والوں کے لئے روزے کی حالت میں بجلی نہ ہونے کے باعث گھر میں رہنا ناقابل برداشت ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ سمندر کنارے افطاری کو فوقیت دیتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply