شاعرِ مشرق کی شاعری اور صاحبِ مشرق کے رویے۔۔منیر فراز

(21 اپریل ، علامہ اقبال کے یومِ وفات کے موقع پر)

اقبال سے اظہار ِ عقیدت کا آسان اور سیدھا راستہ وہی ہے جو ہم نے پہلے سے ہی اختیار کر رکھا ہے، یعنی 21اپریل اور9 نومبر کے روز مزارِ اقبال پر حاضری دینا، پھولوں کی چادر چڑھانا اور ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ پڑھنا ۔مزارِ اقبال پر ایسی عقیدت سے حاضری دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر سال خود کو تسلی دیتے ہیں کہ اس احاطہ میں شاعرِ مشرق دفن ہےجس نے مسلمانوں کی ایک الگ ریاست کا خواب دیکھا تھا جو بفضلِ تعالیٰ ہم حاصل کر چکے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے حوالے سے ہماری سماجی صورتِحال ایسی قابلِ رشک ہے کہ ہم نے کلامِ اقبال سے چند اشعار چُن کر ایوانوں ، درباروں، عوامی ہوٹلوں، پارکوں اور درس گاہوں کی دیواروں پر رقم کر دیے ہیں ۔ چنانچہ اب ہم باہر نکلیں تو عوامی بسوں، ٹرکوں اور آٹوز پر عوامی زبان کے شعروں کے ساتھ علامہ کے چند زبانِ زد عام اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں ۔۔

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
یا
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

موت کے منہ کے انتہائی قریب چلنے والی ویگنوں کو آگے پیچھے، دائیں بائیں سے دیکھیں، تو ایسے عمل کی تحریک دینے والے فکر انگیز شعر درج ہوں گے۔۔
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

کوئی ٹیکسی، کوئی ٹرک، کوئی آٹو رکشہ دیکھ لیں تو اُس پر بھی ایسے   بلیغ اشعار درج ہوں گے ۔

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہی نہیں، ادب تو دور کی بات ہے آپ کیمسٹری یا میڈیکل کے کسی طالبعلم سے کہیں کہ اردو کا کوئی شعر سنائے، تو وہ اور کچھ سنائے نہ سنائے اقبال کے ایک دو شعر ضرور پڑھ دے گا ۔ اقبال کی حالتِ فکر میں ڈوبی ہوئی ایک عدد تصویر بھی ہمارے ہاتھ لگی ہوئی ہے جسے ہم انتہائی عقیدت کے ساتھ دفتروں، ایوانوں اور سفارت خانوں کی دیواروں پر آویزاں کرتے ہیں ۔ گویا ہم نے اول تا آخر اقبال کے اشعار چُن چُن کر نوجوان نسل کو یاد کروا دیے ہیں اس طرح اقبال کو ہم نے اپنے حافظوں میں اچھی طرح قید کر لیا ہے۔

ہم اہلِ مشرق کو سوچنا چاہیے  کہ اپنی صدی کے سب سے بڑے اور اہم شاعر اور مفکر کا مقام و مرتبہ کیا یہی تھا کہ ہم اس کے اشعار فریم کروا کر دیواروں پر آویزاں کر دیں اور اس کے کلام کے عملی پہلوؤں کو پسِ پشت ڈال دیں ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شاعر اور ادیب بھوک کی علامت ہیں اور فکر و فاقہ کے حوالے سے ہم نے ان پر کئی لطائف بھی گھڑ رکھے ہیں جو نجی محفلوں میں ہنسنے ہنسانے کے لئے سنے اور سنائے جاتے ہیں،جبکہ فنونِ لطیفہ کو ہم لطیفہ سنانے کا فن سمجھتے ہیں ۔ دوسرا ہم اپنا ہر کام اللہ تعالیٰ  اور حکومتِ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں، اُدھر حکومتِ وقت بھی کیونکہ خطہء اقبال سے وابستہ ہوتی ہے چنانچہ وہ اپنے کام رعایا پر چھوڑ دیتی ہے جبکہ ربِ کائنات اپنی ذات پر توکل سے پہلے اونٹ کی ٹانگوں میں رسی باندھنے کا درس دیتا ہے، یعنی عملاً کچھ کرنے کا اشارہ ہے۔ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ اقبال کا سارا کلام عمل اور خود داری کا پیغام دیتا ہے۔ اقبال کا کلام فردِ واحد پر انحصار کرتا ہے اس کا مرد، مردِ آہن ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ اقبال فردِ واحد سے مخاطب ہو کر اجتماعیت کی طرف جاتا ہے ۔ہم نے ٹرکوں، بسوں پر اقبال کے جتنے اشعار بھی لکھوا رکھے ہیں یا کلیاتِ اقبال ہی اٹھا کر دیکھ لیں اُن میں بیشتر میں اقبال فردِ واحد ہی سے مخاطب ہے، صیغہ واحد ہی میں کلام کرتا ہے۔۔
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

تو شاہین ہے پرواز ہے کام ترا

کی محمد سے وفا تو نے ، وغیرہ وغیرہ

فردِ واحد جب اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے تب اجتماعیت کی بات ہوتی ہے لیکن کیا کیجیے ہم ایسے سہل پسند واقع ہوئے ہیں کہ عمل کی بات پر اللہ کی نہیں مانتے، اقبال کی کیسے مانیں گے؟ مہذب معاشروں میں اقبال ایسے مفکروں کا مزار نہیں بنایا جاتا بلکہ ہمیشہ انہیں اپنی تہذیبی زندگی کے درمیان زندہ رکھا جاتا ہے ۔ یہ وقت اقبال کو شاعری کے حوالے سے زندہ رکھنے یا اقبال کو ازسرِ نو دریافت کرنے سے زیادہ اقبال کے فکری پہلوؤں سے استفادہ کرنے کا ہے اس لئے کہ اقبال کے تمام فکری پہلوؤں کو اردو، فارسی، انگریزی، جرمن اور کئی دیگر زبانوں کے مفکروں نے بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے جو اقبال کو شاعر کی حیثیت سے یاد رکھنے کے لئے  کافی ہے، ہمارا کام اقبال کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرتی تعمیر کا ہے، کیونکہ اقبال مشرقی تہذیب کا تھنک ٹینک ہے ،وہ سائنس کا آئن سٹائن اور صورت گروں کا پکاسو ہے، وہ ایک ایسا عظیم مفکر تھا جن کی خدمات مستعار لینے کے لئے آج مغربی معاشرے ان جیسے عظیم دماغوں کو سرمائے کی غیر مشروط پیشکش کرتے ہیں۔ وہ سماجی راستے تعمیر کرنے پر مامور ہوتے ہیں قومیں ان راستوں پر چلتی ہیں اور فلاح پاتی ہیں ۔ اقبال ہمیں مفت میں ملا، ہم نے اُس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کیا۔ بیداری اور خود داری کا درس دینے والے اس عظیم مفکر کے یومِ وفات یا ولادت کو ہی لے لیجیے، ہم اس روز صبح دیر سے بیدار ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہماری چھٹی کا دن ہوتا ہے ۔اقبال کہتا ہے نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر، لیکن ہم قصر کی طرف بھاگتے ہیں اقبال کہتا ہے کہ، تیرے آگے آسماں اور بھی ہیں ، لیکن ہم روز صبح بندھے ٹکے راستوں سے گزرتے ہیں ،راستے کی رکاوٹوں، گندگیوں اور معاشرتی ناہمواریوں، جبر اور ظلم سے درگزر کرتے ہوئے شام کو گھر لوٹ جاتے ہیں، سری پائے کھاتے ہیں، ٹھنڈی لسی پیتے ہیں، سیاسی مباحثے سنتے، سناتے ہیں اور بانگِ درا پڑھ کر سو جاتے ہیں ۔ ہم صاحبِ مشرق شرمندہ کیوں نہیں ہوتے، ہم مشرق کی روایتوں کے امین ہیں، عظیم مشرق جہاں سے ہر صبح سورج طلوع ہو کر پوری دنیا کو روشنی کی نوید سناتا ہے۔ہم سے عمل نہیں ہوتا ہم اپنی سماجی صورتِ حال بہتر کرنے کے لئے کوئی عملی کردار ادا نہیں کرتے اور اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ  اور حکمرانوں پر چھوڑتے ہیں ۔ ہم بھوکے ننگے رہ گئے ہیں، کیونکہ ہمارے شاعر ادیب بھوک کی علامت ہیں اور ہم نجی محفلوں میں اُن پر ہنستے ہیں ۔ فکرِ اقبال سے استفادہ کے پس منظر میں تو سماجی حیثیت سے ہمیں بہت آگے ہونا چاہیے تھا، اس لئے کہ ہمارا کیمسٹری اور میڈیکل کا طالبعلم ہی نہیں بلکہ ہمارا ٹرک، بس، ویگن اور رکشہ ڈرائیور تک جانتا ہے کہ
وہ شاہین ہے
اس کے آگے آسمان اور بھی ہیں
وہ محمد سے وفا کرے گا تو دونوں جہاں اس کے ہوں گے
اور وہ سمجھتا ہے کہ جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو اس رزق سے موت اچھی ہے ۔ لیکن ہم سوچتے نہیں، سنجیدہ نہیں ہوتے اور ہم عمل نہیں کرتے ۔

تاہم ہمیں اقبال کے حوالے سے شرمندہ ہونے کی کچھ ایسی ضرورت بھی نہیں، اس لئے کہ اقبال سے اظہارِ عقیدت کا آسان اور سیدھا راستہ ہم نے پہلے ہی سے دریافت کر رکھا ہے، یعنی 21 اپریل اور9  نومبر کو مزارِ اقبال پر حاضری دینا، پھولوں کی چادر چڑھانا اور ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

( نومبر ٢٠١٦ء مقامی تنظیم ” کویت پاکستان فرینڈز شپ ایسوسی ایشن” کے زیرِ اہتمام شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کے یومِ ولادت کی تقریب میں پڑھا گیا )

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply