پیارے ابو جی!
السلام و علیکم
رحمان و رحیم ، ربِ کائنات کی ذات سے اُمید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے۔
آج پھر آپ کو چٹھی لکھ رہی ہوں صرف اس اُمید اور یقین پر کہ ایک بیٹی کا محبت نامہ اُس کے پیارے ابو جی تک ضرور پہنچے گا۔
مجھے یقین ہے کہ چاہت و خلوص سے بھرے میرے جذبات و احسات آپ تک ضرور پہنچائے جائیں گے۔
کہتے ہیں کہ حروف پڑھنے والے تک کسی نہ کسی طور پہنچ ہی جاتے ہیں اور جذبات و احساسات کی اُڑان زمان و مکاں کی قیود سے آزاد ہوتی ہے۔
آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے۔ آپ کا اعتکاف کے لئے بندھا سامان جس میں چاروں اطراف کی چادریں اور ضرورت کی چند چیزیں وقتِ مقررہ پر مسجد جانے کی منتظر ہیں۔
تیاری مکمل ہے لیکن آپ موجود نہیں ہیں۔
سوچتی ہوں یہ کیسے ممکن ہے؟
کہ وہ بندہِ عاجز غائب ہے جسے حالاتِ بیماری اور شوگر کی وجہ سے ہم روکتے تھے کہ اس بار اعتکاف کا ارادہ ترک کر دیجیے کیونکہ اب آپ میں ویسی ہمت و طاقت نہیں رہی کہ اس سلسلے کو قائم رکھ سکیں۔
ایک تو جسمانی کمزوری دوسرا شوگر کی مقدار کی زیادتی اور کمی اس سلسلے کو قائم رکھنے میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔
یاد کیجیے پچھلی بار بھی آپ مسجد میں بے ہوش ہوگئے تھے تو گھر لانا پڑا۔ ہوش آنے کے بعد آپ سب گھر والوں کو کوستے رہے۔
اس بات کی ہمیں کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کو سمجھ نہیں آتی تھی یا آپ سمجھنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ جان بچا کر گھر لانے والوں کو روزہ اور اعتکاف توڑنے پر کئی دن آپ کے سخت روئیے کا سامنا کرنا پڑا ۔
نجانے کتنے دن آپ اس بات کا سوگ مناتے رہے؟
“کہ اس بار کا اعتکاف مکمل نہ ہوسکا۔
آج آپ کا سامان دروازے کے پاس بندھا پڑا ہے لیکن آپ موجود نہیں ہیں۔
اسی سوچ میں، میرا دن گزر جاتا ہے۔
سامان وہیں پڑا ہے۔ میں بے چین اِدھر اُدھر گھوم رہی ہوں۔
افطاری کا وقت بھی آکر گزر جاتا ہے۔
لیکن۔۔ سامان وہیں پڑا ہے۔
سوچتی ہوں کہ اس بندھے ہوئے سامان کو اَن پیک کرکے واپس رکھ دوں لیکن ہمت نہیں پڑتی۔
پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی خواب ہے یا پھر خواب میں ہی خواب ہے۔
حقیقت ہے یا میں گُمان کی حالت میں ہوں۔ لاشعور کی دستک ہے یا ادراک کی آہٹ۔
کیا دیکھتی ہوں؟
خوبصورت سا آشیانہ ہے۔ چہل پہل ہے۔
شاید شادی کا سماں ہے۔
کس کی شادی ہے؟
نہیں معلوم۔۔
اتنے میں سیالکوٹ والے ماموں بغیر چھڑی کے اچانک سے میرے سامنے آجاتے ہیں۔
ان کے ہاتھوں میں چند پرانی تصاویر ہیں۔
میری بچپن کی چند تصویریں۔
عجیب سے پوز والی، بدشکل تصویریں۔
میں ابو جی کے ساتھ ہوں اور کسی بات پر میرا منہ بنا ہوا ہے۔
ماموں تصاویر دکِھا کر مجھے چِڑاتے ہیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ مجھے ان تصاویر کو دیکھ کر چِڑ نہیں ہوتی۔
اُن سے کہتی ہوں، کہ مجھے دے دیجیے۔
میرے پاس ابو جی کے ساتھ بچپن کی کوئی یادگار تصویر نہیں ہے۔
مجھے اچھے سے یاد ہے کہ ایسی تصاویر کو یا تو میں چپکے سے پھاڑ دیتی تھی یا غائب کر دیتی تھی۔
پہلی بار ان تصاویر پر جی بھر کر پیار آتا ہے۔
ماموں سے تصویریں چھین کر آگے بڑھ جاتی ہوں۔
شادی کا وہ ہال کہیں پیچھے رہ جاتا ہے اور میں کوریڈور سے ہوتی ہوئی کہیں اور نکل جاتی ہوں۔
سفید روشنی ہر سُو پھیلی ہوئی ہے۔ کہیں سے امی کی کِھلکھلاتی ہنسی کی آواز آتی ہے۔ میں ان کے پیچھے جانے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ اسی روشنی میں غائب ہو جاتی ہیں۔
آگے بڑھتی ہوں تو کیا دیکھتی ہوں؟
” کہ ابو جی تخت پوش پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی کہتے ہیں کہ پریشان مت ہو اور گھر جا کر سامان کھول کر لو۔
یہاں انتظام اچھا ہے اس لئے اس بار سامان کے بغیر ہی آنا پڑا۔
یہ سنتے ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
سحری کا وقت ہے۔
دل بلا وجہ بے چین ہے۔
دُور پار کے ایک رشتے دار کا دھیان بار بار تنگ کرتا ہے۔
سوچتی ہوں کہ “میرا ذہن بار بار ان کی طرف کیوں جا رہا ہے؟
اسی بے چینی میں صبح ہوجاتی ہے۔
بہن کا میسج آتا ہے کہ اُنہی بھائی صاحب کا آج انتقال ہوگیا ہے۔
یہ وہی بھائی ہیں، جن کی یاد اس خواب کے بعد سے میرے ذہن کو اُلجھائے ہوئے تھی۔
کاموں سے فراغت پاکر آپ کو پھر سے چٹھی لکھ رہی ہوں۔
مجھے نہیں معلوم خواب میں آپ کا آنا اس خبر کا مجھ تک پہچانا تھا یا پھر اس بات کی اطلاع دینا کہ یہاں انتظام بہت اچھا ہے اور دنیاوی سامان کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔
ابو جی آپ جہاں بھی ہیں ایک یقین تو ہے کہ آپ خیریت سے ہیں۔آپ کا خواب میں آکر اپنی خیریت کی اطلاع دینا، میرے یقین کو پختہ کر دیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جنہیں ہم دل کی گہرائیوں سے یاد کرتے ہیں۔اُن تک ہمارے جذبات و احساسات دلوں کے راستے خود بخود ہی پہنچ جاتے ہیں۔
بالکل ویسے ہی جیسے دعا آسمانوں کی وسعتوں کو چیرتی ہوئی ربِ کائنات کے دربار تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر ربِ کائنات کی رضا و کُن سے دیر و سویر قبولیت کا شرف حاصل کر لیتی ہے۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں اولاد کا عملِ صالح اور دعائیہ کلمات اُن کے والدین کے لئے صدقہِ جاریہ ہوتے ہیں۔ آپ اور امی دونوں میری دعاؤں کے حصار میں ہیں۔
آپ کا نورانی چہرہ اور خوشبو سے معطر وجود ہر پل آنکھوں کے سامنے ہے۔ امی کی معصومیت اور سادھا وجود پر آنکھیں میچ کر پیار بھری نظر ڈالتی ہوں اور آپ دونوں کا حصہ دعاؤں کی صورت پہچاننے کی کوشش کرتی ہوں۔
میں جانتی ہوں میری یہ چِٹھی بغیر پتے کے ہے، جسے میں کبھی بھی پوسٹ نہیں کر پاؤں گی۔
پھر بھی نجانے کس آس میں بار بار چٹھی لکھ رہی ہوں؟
نہیں جانتی
بس اتنا جانتی ہوں کہ
آپ چلے گئے ہیں لیکن آپ کے وجود کی مہک آس پاس رہ گئی ہے۔
اب صرف یادیں ہیں۔
پیار بھری یادیں اور کچھ
آپ سے جُڑی تلخ یادیں۔
ابو جی ہمیں تو صبر وقت کے ساتھ ہی آئے گا لیکن یہ اُمید ضرور ہے کہ میرا رب آپ کے ساتھ ضرور نرمی برتے گا ویسے ہی جیسے آپ حقوق العباد میں برتتے تھے۔
آپ کی سادگی، مروت، محبت، چاہت، خلوص ، بے نیازی، بے لوث حُسنِ سلوک اور شفقت کے عوض میرا مالک آپ کے ساتھ آسانی والا معاملہ ہی فرمائے گا انشاء اللہ۔
بچپن سے اب تلک میں نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ آپ دونوں نے کبھی کسی سے حسد نہیں کیا اور نہ ہی دل میں کسی کے لئے عداوت و بُغض رکھا۔
اپنے تئیں آپ دونوں نے حقوق العباد اور حقوق اللہ بخوبی نبھائے ۔
بے شک آپ دونوں اپنے نیک اعمال ساتھ لے گئے ہیں ۔
پھر بھی یہ گنہگار بیٹی دعاؤں کی صُورت آپ دونوں کا حق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
فی امان اللہ
آپ کی لاڈلی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں