یکم مئی: جدوجہد جاری رہے گی۔۔فہیم ذوالفقار

زاہد کو اگر فخر ہے سجدے کے نشاں پر
مزدور کے چھالے بھی بڑے غورطلب ہیں

یکم مئی پوری دنیا میں شکاگو کے شہیدوں کی یاد میں یوم مزدور کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ اس دنیا کی تمام رونقیں اور رعنائیاں مزدوروں کی محنت کے  ہی مرہون منت ہیں لیکن پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے مزدور طبقے کے لوگ ہی بنیادی انسانی ضروریات زندگی سے محروم ہیں اور بے انتہا غربت اور پسماندگی میں عذاب ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لامحدود نجی ملکیت اور فری مارکیٹ اکنامی نے پورے دنیا کے اندر مزدوروں کو تیسرے درجے کا شہری بنادیا ہے اور یوں انسانی آبادی کا ایک بہت بڑا اور بنیادی حصہ بے وطن ہے، جس کی نہ کوئی قومیت ہے اور نہ ہی کوئی دیس۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہونے والی تمام تر سائنسی ترقیوں کے باوجود محنت مشقت کرنے والے لوگ، یعنی دنیا کی آبادی کی کثیر اکثریت کو، مزدوروں اور کسانوں کو، صرف اتنی ہی اجرت، حقوق اور ریاستی سہولیات میسر ہیں جن سے ان کے جسم اور روح کا رشتہ صرف اس حد تک برقرار رہ سکے کہ وہ شدید محنت و مشقت کی چکی میں مسلسل پستے ہوئے سرمایہ داروں کے لیے معیشت کا پہیہ چلاتے رہیں اور سرمایہ دارنہ نظام سے فائدہ اٹھانے والی معمولی اقلیت کی دولت میں مستقل اضافہ کرتے رہیں۔

تقسیمِ دولت میں بے انتہا نابرابری کے حوالے سے 16جنوری 2021ء کو ’’آکسفیم‘‘ کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹ ان سرمایہ دارانہ ماہرین معیشت کے لئے بھی اہمیت کی حامل ہے جو دن رات یورپی اور خاص طور پر امریکی سرمایہ داری نظام کی افادیت کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور پاکستان سمیت ترقی پذیر ملکوں کے لئے اسی انسان دشمن نظام کو کامیاب معاشی-سماجی نظام کے ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ اس نظام کو اپنا لینے سے ہی تیسری دنیا کے، پسماندہ ملکوں کے، تمام معاشی مسائل حل ہوجائیں گے، حالانکہ تمام تر معاشی، سماجی اور تاریخی حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ ترقی پذیر، پسماندہ، منحصر ملکوں کے سماجی و معاشی مسائل کا سبب یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے جو عالمی، سامراجی، شکل اختیار کر کے پوری دنیا کے ترقی پذیر، غریب، کمزور ملکوں کے معاشی اور سماجی وسائل کا سفاکی سے استحصال کرتے ہوئے ان کے معاشی وسائل کو اپنی نہ  ختم ہونے والی اور تباہ کن ہوسِ منافع کے حصول کا  ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔

آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے صرف آٹھ افراد کے پاس دنیا کی آدھی آبادی، یعنی 3.6بلین افراد کی مجموعی دولت جتنی دولت ہے۔ ان آٹھ ارب پتی افراد میں سے چھ کا تعلق امریکہ سے ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں انتہائی امیر اور نہایت غریب افراد کی آبادی کے مابین دولت کی تقسیم میں نہ برابری بہت زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ کے اعداد وشمار کے مطابق 2015ء میں 62 افراد ایسے تھے جن کے پاس دنیا کی نصف آبادی کے برابر دولت تھی، مگر اب صرف آٹھ انسانوں کے پاس ہی کل عالمی آبادی کے نصف کے برابر دولت ہے۔ آکسفیم کے مطابق اس وقت دنیا کے ایک فیصد امیر طبقے کے پاس دنیا کی 90 فیصد دولت ہے اور گزشتہ 25 سال سے اس ایک فیصد امیر طبقے کی دولت اور سرمائے میں دنیا کی90 فیصد سے زائد آبادی کی دولت کے مقابلے میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

اس شدید نہ برابری کا جواز عام طور پر اس جھوٹی دلیل سے تراشا جاتا ہے کہ امیر لوگوں نے یہ بے پناہ دولت اپنی محنت سے حاصل کی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ ان کی یہ دولت سرمایہ دارانہ ریاست کے استحصالی اداروں اور مزدور دشمن قوانین اور ظالمانہ ٹیکسوں کے  ذریعے مزدوروں اور کسانوں سے بزور جبر و طاقت ہتھیائی جانے والی ان کی محنت کی اجرت، یعنی قدرِ زائد، ہے اور اس لیے یہ تمام دولت درحقیقت کروڑوں مزدوروں اور کسانوں کی محنت کی قدر ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں غربت اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔

سابق امریکی صدر ریگن اور سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے دور میں سرمایہ داری نظام کو ایک طر ح کا جواز بخشنے کے لئے۔۔۔Trickle-down effect۔۔۔کی اصطلاح سامنے لائی گئی تھی، جس کے مطابق اگر امیروں، سرمایہ داروں، کی جیبوں میں بہت زیادہ دولت بھر دی جائے تو وہ دولت خود بخود ان کی بھری جیبوں سے نیچے گر کر محنت کش عوام کی جیبوں میں چلی جائے گی اور یوں غریب، محنت کش عوام بھی مٹھی بھر امیروں کی دولت سے مستفید ہو پائیں گے جس سے دنیا میں غربت کم اور بتدریج ختم ہوجائے گی۔ مگر آکسفیم کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ 25 سال کے دوران عالمی سرمایہ دارانہ معیشت میں نہ صرف یہ کہ ایسا کہیں دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ الٹا یہ ہوا کہ سرمایہ داروں کی دولت میں مسلسل اضافہ ہوا اور دوسری جانب دنیا میں غربت اور زیادہ تیزی سے پھیل گئی۔

امریکہ کے کاروباری میگزین ’’فاربس‘‘کے مطابق دنیا میں 1810 ارب پتی افراد کے پاس 6.5 کھرب (ٹریلین) ڈالرموجود ہیں جبکہ دنیا کی 70 فیصد آبادی کے پاس کل ملاکر بھی اتنی دولت نہیں ہے۔ اگلے 20 سال کے عرصے میں 500 امیر ترین افراد اپنے وارثوں کو 2.1 کھرب ڈالر وراثت کے طور پر منتقل کریں گے۔ یہ رقم ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔

آکسفیم کی اس رپورٹ میں معروف ماہر معیشت تھامس پیکیٹی کی اس تحقیق کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق گزشتہ تیس سال سے امریکہ میں عام طبقات کی آمدنی میں معمولی سا اضافہ ہوا، مگر اسی عرصے کے دوران ایک فیصد امیر ترین امریکیوں کی آمدن میں 300 فیصد تک اضافہ ہوا۔ آمدنی میں اس قدر تفاوت کی مثالیں صرف امریکہ میں ہی نہیں ملتیں، بلکہ غریب ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے۔

آکسفیم کی رپورٹ یہ بھی دکھاتی ہے کہ موجودہ دور میں سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں دولت کی تقسیم منظم انداز سے امیروں کو مزید امیر بناتی چلی جارہی ہے۔ سرمایہ کاری کے شعبے میں ہونے والے بڑے بڑے منافعوں کو مالک اور چند اعلیٰ عہدوں پر فائز ٹاپ ایگزیکٹو ہی اڑا کرلے جاتے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر میں بڑی بڑی تنخواہ پر ایسے افراد کو تعینات کیا جاتا ہے جو سرمایہ داروں کے لیے ٹیکس چوری کرنے کے’’قانونی‘‘ طریقے تلاش کرکے ان پر عمل کرتے ہیں۔ مثلا “ایپل” جیسی عالمی کمپنی اپنے یورپی منافعوں پر صرف 0.005 فیصد ٹیکس ادا کرتی ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں ہرسال 100 بلین ڈالرکا خسارہ اس لئے ہوتا ہے کہ ان ملکوں سے حاصل ہونے والے منافع میں سے ان ملکوں کو ٹیکس ہی ادا نہیں کیا جاتا جبکہ کارپوریٹ سیکٹر اور بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے مزدورں کو جائز اجرتیں، ملازمت کا تحفظ، بونس اور جائز چھٹیاں تک نہیں دی جاتیں۔

اس رپورٹ میں انٹرنیشنل لیبرآرگنائیزیشن کی تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق دنیا میں لگ بھگ 21 ملین افراد ایسے ہیں جن سے جبری مشقت لی جارہی ہے اور اسی جبری مشقت سے ہرسال 150 ارب ڈالر کا منا فع بھی بنایا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کارپوریٹ سیکٹر کی بڑھتی ہوئی طاقت کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر صرف ٹیکس یا ریوینو کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت دنیا کے 69 بڑے معاشی ادارے پرائیوٹ سرمایہ دار کارپوریشن ہیں نہ کہ ممالک۔ اس کی انتہائی دلچسپ مثال یہ ہے کہ دنیا کی 10 بڑی کمپنیاں جن میں ’”وال مارٹ”، “شیل” اور “ایپل” بھی شامل ہیں، ان سب کا ریونیو دنیا کے 180 ممالک کی حکومتوں کے کل ریوینوسے بھی زیادہ ہے۔

ان اعداد وشمار سے ایک بار پھر سائنسی کمیونزم کے بانی اور مزدور طبقے کی انقلابی جدوجہد کے عظیم اساتذہ، کارل مارکس، فریڈرک اینگلز اور ولادیمیر لینن کی اس صداقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بالآخر سامراجی شکل اختیار کرتا ہے، اور کر چکا ہے، اور کارپوریٹ سیکٹر کا کردار اور معیشت پر اس کا اثر و رسوخ ریاست کی رٹ سے بالاتر ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی سامراجی شکل میں سرمایہ دار طبقہ اپنے کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کے لیے آج کی ریاستوں کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر فیصلہ کن انداز سے اثر انداز ہورہاہے۔

رپورٹ میں معروف ماہر معیشت گبرئیل زیک مین کی اس تحقیق کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق لگ بھگ 7.6 ٹریلین ڈالرز کی دولت کو آف شور اکاؤنٹس یا ایسے ممالک میں خفیہ طور پر رکھا گیا ہے جہاں دولت پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ مثلا، اگر صرف براعظم افریقہ کے ممالک میں رکھی گئی ناجائز اور خفیہ دولت پر ٹیکس لیا جائے تو افریقہ کو اس سے ہرسال 14 ارب ڈالر حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس رقم سے افریقہ کے چارملین بچے، جو بھوک کا شکار ہیں، انہیں آسانی سے خوراک مل سکتی ہے۔

آکسفیم کی اس رپورٹ کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ موجودہ عالمی سرمایہ داری نظام سراسر حرص، لالچ، کرپشن، دھوکے بازی، بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی نظام ہے۔اس نظام کے غیر منصفانہ کردار کے باعث جہاں ایک طرف ترقی پذیر، غریب ممالک سیاسی و معاشی عدم استحکام اور سماجی پسماندگی و تنزلی میں منتلا ہیں تو دوسری جانب آج یورپ میں دائیں بازو کی انتہا پسند، نسل پرست، قوم پرست سیاسی پارٹیاں، سرمایہ دارانہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے، محنت کش عوام کے حقیقی مسائل کو سطحی، ضمنی اور ثانوی معاملات پر، نسلی، مذہبی اور قومی تعصبات کو بھڑکا کر، سرمایہ دار طبقے کا سیاسی اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں، حالانکہ عوام کے مسائل کا حل انتہا پسندی پر مبنی قوم پرستی یا مذہبی جنونیت میں نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کو بدلا جائے جس کے تحت وسائل کی منصفانہ تقسیم سرے سے ممکن ہی نہیں اور ایسا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ ہمارے سامنے تاریخ میں ماضی اور حال کی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال پر مبنی تاریخ کے اس سب سے زیادہ ظالمانہ سماجی نظام کو، سرمایہ دارانہ نظام کو، مزدور اور کسان طبقوں کے انقلابی اتحاد کے ذریعے ختم کر کے اس کی جگہ مرکزی منصوبہ بند معیشتیں قائم کی گئیں جیسے سوویت یونین، مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک، منگولیا، کیوبا، شمالی کوریا وغیرہ اور اس طرح سے سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں سے پاک ایک بہتر، منصفانہ، غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں لایا گیا۔

موقع پرستی اور ترمیم پسندی پر مبنی، مارکیٹ سوشلزم، مخلوط معیشت، جمہوری سوشلزم، اکیسویں صدی کا سوشلزم وغیرہ جیسے نظریات کے بجائے آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کو عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ قوتوں کے خاتمے کے لیے انقلابی انداز سے طبقاتی جدوجہد کے لیے متحد اور منظم کیا جائے۔ مزدور تحریک کو سوشلسٹ انقلابی نظریے کے تحت سیاسی جدوجہد کے میدان میں لایا جائے، استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مزدوروں اور کسانوں کی طبقاتی جدوجہد کو شعوری انداز سے تیز کیا جائے۔ حالانکہ کرونا وبا کے سبب تنظیمی کام میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کے باعث ہم یکم مئی کو اپنی استطاعت کے مطابق شایانِ شان طریقے سے نہیں منا پائے جو کہ مزدوروں میں طبقاتی شعور کے پرچار کا اور انہیں منظم کرنے کی کوششوں کا ایک بہت اہم جزو ہے لیکن پاکستان مزدور کسان پارٹی پاکستان کے مزدوروں، کسانوں اور تمام مظلوم عوام کے سامنے اپنے اس عزم کو دہراتی ہے اور انہیں یہی پیغام دیتی ہے کہ وقتی دشواریوں اور مشکلات کے باوجود ہماری جدوجہد کا محور و مرکز یہی ہے کہ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے تک ہر طرح کے حالات میں ہر طرح کے طریقوں سے جدوجہد جاری رکھی جائے اور اسے پایہِ تکمیل تک پہنچانے کی مسلسل، انتھک کوشش کی جائے۔ ہمارے پاس کھونے کے لیے اپنی زنجیروں کے سوا کچھ نہیں اور پانے کے لیے سارا جہان پڑا ہے! اس لیے جدوجہد جاری رہے گی!

Advertisements
julia rana solicitors

یکم مئی زندہ باد!
مزدور انقلاب زندہ باد!
سوشلزم پائندہ باد!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply