وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے گزشتہ روز گلگت میں تقریر کرتے ہوۓ اس خطہ کی پسماندگی دور کرنے کے لیے پانچ سالہ میگا ترقیاتی منصوبے کا اعلان کیا .
تاریخ میں پہلی بار گلگت بلتستان کی کوئی حکومت وفاق پاکستان سے اس پسماندہ خطہ کے لیے اتنا شاندار میگا ترقیاتی پروجیکٹ لانے میں کامیاب ہوئی ہے جس پر گلگت بلتستان کے چیف منسٹر اور اس کی حکومت لایق تحسین ہے۔
تین سو ستر ارب روپے کے اس میگا پروجیکٹ میں سیاحت پاور جنریشن , سڑکوں کی تعمیرات , میڈیکل کالجزز , ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن نوجوانوں میں ہنر پیدا کرنے کے منصوبے, طالب علموں کو پاکستان کے معیاری تعلیمی اداروں میں اسکالرشپس کی فراہمی, پینے کا صاف پانی سیورج کا نظام قائم کرنا ,بابو سر ٹنل کی تعمیر اور گلگت بلتستان کی حکومت کو زیادہ بااختیار بنانا شامل ہیں۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا درجہ دیا ہے جس کو عملی جامع پہنانے کے لیے آئین پاکستان میں ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے .
جس طرح جناب اسد عمر نے درست طور پر فرمایا کہ پاکستان کے تمام قومی اداروں میں نمایندگی دینے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوتا ہے .
وزیراعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمیشہ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں ہمیشہ سے اس علاقہ کو وفاق سے چلایا جاتا تھا اور وائسراۓ سمجھ کر لوگ یہاں کا نظام چلاتے تھے.
ماضی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں میں صلاحیت نہیں ہے اس لیے وہ اپنے معاملات خود نہیں چلا سکتے ہیں مگر یہ بات درست نہیں. وزیر اعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان کے چیف منسڑ خالد خورشید میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی حکومت کے تمام مماملات خود چلا سکتے ہیں. وہ ہر وقت اپنے خطے کی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں اس لیے ہم ان کی مدد کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے.
وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں گلگت بلتستان کی ماضی کی قیادت کے متعلق جس سوچ کا زکر کیا اس پر ایک نظر ڈالنا لازمی ہے چونکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دنیا کی تمام اقوام اپنی قیادت کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں.
لہذا اس نقط پر کوئی دو راۓ نہیں ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے گلگت بلتستان میں باکردار اور مضبوط لیڈرشپ کی کمی رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہماری منتخب لیڈرشپ نے عوام کی نمائندگی پر سرکاری نوکریوں کو ترجیح دی ہے .
جس کی ایک اہم مثال 1970میں ایف سی ار کے کالے قوانین کے خلاف تحریک چلانے والے لیڈران کی ہے جن میں سے چند ایک کے علاوہ باقی سب نے عوامی قیادت کرنے کی بجاۓ سرکاری نوکریوں کو ترجیح دی نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں قیادت کا بحران پیدا ہوا اور پھر اس خطہ کی سیاست اور قیادت ان پڑھ اور ٹھیکے داروں کی بھینٹ چڑھ گئی۔
پھر گذشتہ تقریبا ً تیس سالوں کے بعد پڑھے لکھے لوگوں کی قیادت سامنے آئی اور ان میں بھی زیادہ تر نے عوامی ورٹ سے اسمبلی پہنچ کر عوامی نمایندگی کرنے کی بجاۓ پہلی فرصت میں گلگت بلتستان کی عدلیہ میں خود کو جج لگوایا.
اس طرح نہ صرف انصاف کا قتل عام ہوا بلکہ معاشرے میں قیادت کا بحران بھی پیدا ہوگیا اور اس سیاسی خلا کو ٹھیکے داروں اور کم تعلیم یافتہ افراد نے پر کیا .
جس کی وجہ سے وفاق پاکستان میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ گلگت بلتستان کی قیادت اس اہل ہی نہیں کہ وہ اپنے معاملات خود چلا سکے چونکہ کسی بھی قوم کے لیڈر ہمیشہ اپنی قوم کی مجموعی سیاسی شعور اور تعلیم کا آئینہ ہوتے ہیں.
وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں سیاستدانوں کی اقسام بیان کرتے ہوۓ کہا کہ کچھ لوگ سیاست اپنی ذاتی فائدے کے لیے کرتے ہیں اور وہ اپنی پوزیشن کا فائدہ أٹھاتے ہیں جو کہ کرپشن کہلاتی ہے.
ماضی میں یہی کچھ گلگت بلتستان کے بعض سیاستدان کرتے رہے جن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کی وجہ سے وفاق پاکستان کے سامنے ہماری قیادت کے متعلق جو تاثر پیدا ہوا تھا اس کا ذکر وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کیا.
مگر ایک حوصلہ افزا ء بات یہ ہے کہ ماضی کی نسبت موجودہ دور میں گلگت بلتستان میں قابل اور پڑھے لکھے نوجوان افراد کی قیادت سامنے آئی ہے جس کی وجہ سے ایک مثبت تاثر پیدا ہوا ہے جس کا اعتراف وزیراعظم پاکستان نے کل اپنی تقریر میں کیا .
انہوں نے چیف منسٹر خالد خورشید کی قیادت اور صلاحیت کا برملا اعتراف اور تعریف کی، جو کہ پورے گلگت بلتستان کے لیے ایک اعزاز ہے .
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ بطور چیف منسڑ خالد خورشید کا انتخاب کرنا ان کا ایک بہترین فیصلہ تھا . انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے چیف منسڑ خالد خورشید اس لائق ہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے فیصلے خود کر سکتے ہیں ہم اسلام آباد سے ڈکٹیشن نہیں دینگے اور پوری طرح وزیر اعلیٰ کو اختیارات دینگے تاکہ وہ گلگت بلتستان کے معاملات خود چلائیں.
وزیراعظم کی اس بات کی تصدیق کے لیے اگر ہم گلگت بلتستان کی تاریخ میں نظر دوڑاتے ہیں تو اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں آج تک جتنے بھی وزرا ء اعلیٰ رہے ہیں ان سب میں خالد خورشید نہ صرف سب زیادہ تعلیم یافتہ چیف منسٹر ہے بلکہ ایک صاف اور بےداغ کردار کا حامل انسان ہے۔.
یہاں یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ گزشتہ دن جہاں ایک طرف وزیراعظم پاکستان وزیر اعلیٰ خالد خورشید کی تعریف کررہے تھے عین اسی وقت ضلع غذر میں چیف منسٹر کے میگا ترقیاقی منصوبے کے خلاف ایک احتجاج بھی ریکاڑ کروایا گیا جس پر تبصرہ کرنا لازمی ہے چونکہ اس احتجاج میں چیف منسڑ کی نہ صرف ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ بہت سخت الفاظ میں یہ کہا گیا کہ چیف منسٹر نے اس میگا ترقیاتی منصوبے میں نہ صرف ضلع غذر کو یکسر نظر انداز کیا ہے بلکہ ہنزہ کو بھی نظر انداز کیا ہے.
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس احتجاج میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ گویا وزیر اعلی نے فرقہ ورانہ بنیادوں پر ان دو اضلاع کو نظر انداز کیا ہے جہاں آبادی کی اکثریت اسماعیلی کمیونٹی سے ہے.
یہاں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خالد خورشید ایک بہترین انسان ہے جو نہ صرف فرقہ واریت کے سخت خلاف ہے بلکہ وہ میرٹ پر پورا یقیں رکھتے ہیں.
وہ ہمیشہ سے غذر اور ہنزہ کے لوگوں کی اخلاق اور مذہبی رواداری کی مثال دیتے ہیں اس لیے اس غلط فہمی کو دور ہونی چاہیے کہ وزیر اعلیٰ نے فرقہ ورانہ بنیادیوں پر غذر اور ہنزہ کو نظر انداز کیا ہے.
وزیراعلی گلگت بلتستان نے اس اعتراض اور غلط فہمی کو سختی کے مسترد کرتے ہوۓ کہا ہے کہ انہوں نے غذر کو کبھی نظر نداز نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے گلگت تا شندور روڑ پر کام کرنے کے لیے حکم جاری کیا ہے جس پر آنے والے دنوں میں کام شروع ہونے والا ہے .
اس بابت گورنمنٹ آف پاکستان منسٹری اف کمیونی کیشن کی طرف سے ایک سرکاری مراسلہ نمبر F: No.5(2)2020 مورخہ22اپریل 2021 براے تعمیر گلگت تا شندور روڑ بھی سوشل میڈیا میں گردش کررہی ہے 216 کلومیٹر پر مشتمل گلگت تا شندور روڈ منصوبہ کی کل مالیت/ 395 ,49,946,070 ارب روپے ہے جو کہ کیڈٹ کالج سے بہت زیادہ مہنگا پروجیکٹ ہے. اور آنے والی میٹنگ میں اس پراجیکٹ کی PC-1 کی منظوری کے لیے CDP/CCNEC کو سیکریٹری کمیونی کیشن نے یہ مراسلہ ارسال کیا ہے . جس کی منظوری ہو کر بہت جلد کام شروع ہوگا.
بقول وزیر اعلی خالد خورشید اس سے قبل ہی غذر گاہکوچ ہسپتال کی اپ گریڈیشن کےلیے بھی اس نے 19کروڑ روپے مختص کیے ہیں ۔
گلوداس پاور پروجیکٹ کے لیے 11 کروڑ روپے مختص کیے ہیں جبکہ بہت جلد جی بی سیکوٹس کی چیک پوسٹ کو اشکومن کے آخری بارڑر پر لے جانے پر حکام سے بات بھی کی ہے جو بہت جلد ہوگا تاکہ اشکومن کے عوام کو آسانی ہو.اور اشکومن تا قرمبر جھیل تک سڑک تعمیر کرنے کی منظوری بھی دے گا اور ضلع غذر میں پانچ ار سی سی پل اور کئی سکول تعمیر کرینگے.
لہذا غذر کے نوجوانوں کو صبر سے کام لینے کی صْرورت ہے وہ کبھی غذر کے ساتھ ناانصافی نہیں کرینگے.
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نذیر احمد کے ساتھ ان منصوبوں پر تفصلی بات ہوئی ہے اور ان تمام منصوبوں پر بہت جلد کام شروع ہوگا “.
لہذا ہم اگر حقیقت پسندی سے کام لیں تو یہ سچ ہے کہ گلگت تا شندور روڑ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے جو ضلع غذر کی ترقی کا ضامن ثابت ہوسکتا ہے اور ہمیں امید ہےضلع غذر کی ترقی کے لیے اور خصوصا ً ہمارے نوجوانوں کو حکومت کے ہر شعبے میں میرٹ پر سرکاری نوکریاں دلانے میں وزیر اعلیٰ خالد خورشید اپنا کردار ادا کرینگے اور امید ہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان کے تمام سرکاری اداروں میں سفارش رشوت اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر نوکریوں کی بندر بانٹ کا خاتمہ کرینگے تاکہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں ان کے کردار کو اچھے الفاظ میں لکھا جاۓ گا.
البتہ اس حقیقت کو بھی ہمیں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ ماضی کی حکومتوں میں ضلع غذر کے ساتھ نا انصافیاں بھی بہت ہوئی ہیں اس کی ایک مثال گلگت بلتستان کی سرکاری ملازمتوں میں سفارش رشوت اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر نوکریوں کی تقسیم اور میرٹ کا قتل عام ہے جس کی ایک مثال گلگت بلتستان کنٹریکٹ ریگولرائزیشن ایکٹ نامی نام نہاد قانون ہے جس کے تحت سرکاری نوکریوں کی بندربانٹ کی گئی جبکہ قابل نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں.
حیرت کی بات یہ ہے ماضی میں اس نام نہاد ایکٹ کے تحت 14 گریڈ سے سترہ اور اٹھارہ گریڈ کی نوکریوں پر بھی بغیر میرٹ کے بھرتیاں کی گئی ہیں . گزشتہ حکومتی ادوار میں ہزاروں کی تعدار میں لوگوں کو اس طرح نوکریاں عطا کی گئی ہیں جن میں ضلع غذر سے بھرتی ہونے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس کے علاوہ دیگر چند ایک اہم محکموں میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے تقرریوں میں ضلع غذر کا نام و نشان نظر نہیں آتا ہے.
جبکہ ملک کے لیے قربانی دینے کی باری آتی ہے تو کرگل سے سیاچن اور وزیرستان سے وانا تک ضلع غذر کے ہی فوجی جوان نظر آتے ہیں.
ڈسٹرکٹ غذر کی تمام قبرستانوں پر پاکستان کا پرچم لہراتا نظر آتا ہے گلگت بلتستان کے واحد نشان حیدر پانے والا لالک جان شہد بھی غذر کا بیٹا ہے اس لیے یہاں ایک کیڈٹ کالج بنانے کا مطالبہ ہم چیف منسٹر گلگت بلتستان سے نہیں بلکہ فورس کمانڈر گلگت بلتستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ضلع غذر میں کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں لاۓ.
اور ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہذے کہ کرگل کی جنگ میں ضلع غذر کے جتنے فوجی جوانوں نے ملک کے دفاع کے لیے جانیں دی ہیں شاید اتنی تعداد پورے گلگت بلتستان کی نہ ہو مگر اس کے باوجود بھی غذر کے نوجوانوں کے ساتھ سراسر ناانصافی کی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف غذر میں نوجوانوں میں گذشتہ چند سالوں میں خودکشیوں کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے بلکہ جبر اور ناانصافی نے نوجوانوں کو باغی بھی بنا دیا ہے جس کا نقصان نہ صرف ضلع غذر کو ہو رہا ہے بلکہ آنے والے سالوں میں اس کے بھیانک اثرات پورے گلگت بلتستان کو اپنے لپیٹ میں لے سکتے ہیں.
اور دنیا کی تاریخ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر کے زیر سایہ تو چل سکتا ہے مگر ظلم اور ناانصافی کے تحت نظام نہیں چل سکتا ہے.
لہذا اس تناظر میں دیکھا جاۓ تو ارباب اختیار کو اپنی غلطیوں کا احساس اور ازالہ کرنے میں آسانی ہوگی اور ان کو بروقت یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئندہ گلگت بلتستان میں سفارش اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر کوئی نوکریاں تقسم نہیں ہونگی بلکہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر تصور ہونگے.
آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی کے ان تلخ حقائق کی روشنی میں موجودہ حکومت کی پالیسی کو دیکھنا درست نہیں ہے نہ ہی ہم ان مظالم اور نا انصافیوں کا زمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہرا سکتے ہیں .
اس لئے ضلع غذر کے نوجوانوں کو صبر سے کام لینا چاہیے۔
گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت سے ہمیں میرٹ کے قیام اور تمام شہریوں کے ساتھ انصاف اور برابری کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی امید ہے یقیناََ وزیراعلی گلگت بلتستان ان اہم مسائل پر توجہ دینگے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں