• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کورونا وائرس تیسری مہلک لہر اور پاکستانی قوم۔۔سیّد عمران علی شاہ

کورونا وائرس تیسری مہلک لہر اور پاکستانی قوم۔۔سیّد عمران علی شاہ

انسانی تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ، آفات، جنگ و جدل، خطرناک بیماریوں اور مہلک وباؤں کا انسان کے ساتھ اتنا ہی قدیم تعلق ہے جتنا کہ خود انسان کا وجود قدیم ہے،مگر وقت اور زمانے کے حساب سے ان تمام کی شدت اور  نوعیت بدلتی رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ وقت کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا،مگر یہ بات کورونا وائرس کی مہلک وباء کی بابت قطعی طور پر غلط ثابت ہوئی،بہت سے عالمی ماہرین کا خیال تھا کہ یہ وباء سال 2020 کے اواخر میں مکمّل طور پر ختم ہوجائے گی،مگر اس وباء کا طرز عمل تو انسانی تاریخ کے تمام وائرس  سے بالکل مختلف نکلا۔

اسکی پہلی لہر بہت خطرناک تھی مگر دوسری اور اب موجودہ تیسری لہر نے تو قیامت ہی ڈھا دی ہے،اس وباء کے لیے لگائے گئے اکثر اندازے اور قیاس آرائیاں مکمّل طور پر غلط ثابت ہوئیں،
عالمی سطح پر تاریخ کا بدترین وبائی مرض اپنی تباہ کاریاں پھیلاتا ہوا 14 کروڑ سے زائد انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، 30 لاکھ سے زائد لوگ اس کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن گئے ۔

یہ وباء ہر اعتبار سے اچھوتی ،نئی اور مہلک ثابت ہوئی ۔ بڑے بڑے عالمی طبی تحقیقاتی ادارے ہاتھ مَل کر رہ گئے، عالمی ادارہ صحت نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور پوری دنیا   کے تمام ممالک کو بروقت اطلاعات اور تکنیکی معاونت مسلسل فراہم کی، جو کہ ابھی تک جاری و ساری ہے اور WHO کی ہدایات پر جن ممالک نے مکمل عملدرآمد کیا وہ کافی حد تک اسکی تباہی پر قابو پانے  میں کامیاب بھی رہے۔

اس مہلک وباء کو لے کر پاکستان میں مختلف قسم  کی افواہیں گرم رہیں، کہ یہ سب ڈرامہ ہے اس بیماری کی آڑ میں کوئی بڑی عالمی سازش سرگرم عمل ہے، جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وباء کے حوالے سے من حیث القوم ہم کس قدر غیر سنجیدہ ہیں۔

عوام کورونا سے متعلق قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، بازاروں، مارکیٹوں  میں لوگوں کا جم غفیر دیکھنے میں آتا ہے، لوگ ماسک کا استعمال کرنے اور معاشرتی فاصلے کو برقرار رکھنے میں حد درجہ لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پچھلے سال رمضان المبارک کے موقع پر اور عیدالفطر کے دوران ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے اس وباء کا  پھیلاؤ بے حد بڑھ چکا تھا، حال ہی میں ہمسایہ ملک بھارت میں اس وبائی مرض کی تیسری لہر نے بد ترین انسانی بحران پیدا کردیا ہے، اور روزانہ کی اموات 3000 سے تجاوز کر چکی ہیں، جو ایک ریکارڈ ہے اور بدترین انسانی المیہ ہے،
ان حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت پورے ملک میں سخت ترین اقدامات کرنے جارہی ہے۔
کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے پاک فوج طلب کی گئی ،جو  ایس او پیز کیلئے رینجرز اور پولیس کی مدد کرے گی ۔

حکومت کی جانب سے شہریوں کو ماسک پہننے، ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی اپیل اور اگر ایسا نہ ہوا تو بجا طور لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا، شہر بند کرنے   پڑیں گے۔

5 فیصد سے زائد مثبت شرح والے اضلاع میں اسکولز بند کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے عید تک اِن ڈور  آؤٹ ،ڈائننگ ،جم اور ایکسر سائز سینٹرز پر مکمّل پابندی عائد کی گئی ہے، شام 6 بجے کے بعد صرف اور صرف ضروری چیزوں کے کاروبار کی اجازت ہوگی۔

کورونا سے رواں ماہ ایک لاکھ 11 ہزار افراد متاثر ،2 ہزار 312 اموات ہوئیں، کورونا سے رواں ماہ ایک دن میں 144 افراد جاں بحق  ہوئے۔پنجاب اور کے پی زیادہ متاثر ہوئے ہیں، پنجاب اورخیبرپختونخوا میں کورونا وائرس خطرناک رخ اختیار کر گیا ہے ، پنجاب میں 81 اور خیبرپختونخوا میں 39 افراد کو کورونا وائرس نگل گیا دونوں صوبوں میں وینٹی لیٹر اور آکسیجن بیڈ بھر گئے ۔اس سے زیادہ کیا حالات بگڑ سکتے ہیں، ہمارا ملک معاشی طور پر ایک ترقی پذیر معیشت کا حامل ہے، ہمارے ہیلتھ سسٹم کا مقابلہ دنیا کے دیگر ممالک سے بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا، ہمارے پاس صحت کی محدود سہولیات اور دیگر وسائل بھی نہ ہونے کے مترادف ہیں۔

اگر ہم نے اب بھی ایک باشعور قوم ہونے کا مظاہرہ نہیں کیا تو خدانخواستہ حالات کیا رخ اختیار کرلیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

خدارا محکمہ صحت اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دی گئی، ہدایات پر سختی سے عمل پیرا ہوں۔

حکومتِ پاکستان کے تمام  ذمہ دار ادارے، بیوروکریسی اور سیاسی لیڈر شپ اس وقت انتہائی پریشانی کی حالت میں ہیں کہ کرونا وائرس کی نئی لہر پورے ملک میں اور خاص طور  پر تمام بڑے شہروں میں تباہی پھیلانے کو منہ کھولے کھڑی ہے اور موجود وسائل کے حساب سے اگر خدانخواستہ کوئی بڑا حادثہ پیش آ گیا تو اموات کی تعداد کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہ ہوگا، اس کڑے وقت میں ہم بحیثیت قوم مزید کسی غیر ذمہ داری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر ایک فرد کو اپنی اور اپنی فیملی اور اپنے ارد گرد بسنے والے تمام لوگوں کے لیے انتہائی احتیاط اور سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ رہنا ہوگا ،کم از کم ایک  ماہ کا عرصہ خطرناک حدود میں شامل ہے۔ اس لیے زیادہ وقت صرف گھر میں رہیں اور کسی کو نہ ملیں، انتہائی ضرورت کی صورت میں گھر کا ایک فرد مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کر کے گھر سے باہر نکلے اور واپسی پر مکمل ایس او پیز کا اہتمام کرے۔وقت گزر جائے گا لیکن آ پ کی اور آ پ کی فیملی کی زندگی کو داؤ پر لگانے سے احتیاط کرنا بہتر ہے۔اکثر اقوام پر مشکل حالات  آن پڑتے ہیں، مگر ان کا سامنا یکجہتی اور ذمہ داری سے کیا جاسکتا ہے، پاکستانی قوم کے لیے یہ کڑے امتحان کا وقت ہے، اب ہم سب کو پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ،تاکہ ہم کورونا وائرس کی اس تیسری اور مہلک ترین لہر سے جس قدر ہو سکے محفوظ رہ پائیں، ہمیں حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہے، ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس، رینجرز اور پاک فوج کی معاونت کرنی ہے، یہ سب اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر اور اپنے خاندان اور گھر والوں کو پس پشت ڈال کر ہم سب کی حفاظت پر مامور ہیں، ہم سب کا فرض ہے کہ ان سے ہر ممکنہ تعاون کریں اور ان کی ہدایات پر اپنے اور ملک کے بہترین مفاد میں عملدرآمد کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انشاءﷲ، پروردگارِ عالم اپنی مخلوق پر رحم فرمائے گا، اور اس موذی وباء سے نجات دلائے گا، ہمیں اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا،
بقولِ شاعر،
مجھے یقیں ہے، خزاں کو تمام ہونا ہے
بہار آنے کو خوشیوں کو عام ہونا ہے
میرے وطن کی ویراں اداس گلیوں میں
نئی سحر کے اجالوں کا نام ہونا ہے!

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply