• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کورونا کی لہر: لے ڈوبی بھارت کو وشو گورو بننے کی چاہت(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

کورونا کی لہر: لے ڈوبی بھارت کو وشو گورو بننے کی چاہت(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

بھارتی دارلحکومت نئی دہلی میں جس طرح کی نفسانفسی کا عالم ہے،دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ احباب کے فون آرہے ہیں، کسی کو شمشان گھاٹ میں سفارش چاہئے، تو کسی کو اپنے کسی قریبی مردہ رشتہ دارکو جلانے کیلئے لکڑی نہیں مل رہی ہے۔ روایتی اور الیکٹرک شمشان گھاٹوں پر تو مردوں کی قطاریں لگی ہیں۔ دہلی کے نواح فرید آباد میں ایک پارکنگ لاٹ کو ہی شمشان میں تبدیل کردیا گیا۔ فون کی طرف دیکھنے سے ہی خوف محسوس ہو تا ہے۔ ناول نگار مشرف عالم ذوقی انکی اہلیہ تبسم فاطمہ، معروف صحافی ضیاء الحق، دانشور اشتیاق دانش، انڈین جرنلسٹ یونین کے جنرل سیکرٹری کے امرناتھ ، سپورٹس ایڈیٹر جگن ناڈا رائو، آشیش یچھوری سمیت کئی دیگر ایسے احباب ہیں، جو پچھلے ایک ہفتے کے دوران ہی کورونا وبا کی نذر ہو گئے، دیگر کئی ساتھی اسپتالوں میں اسوقت موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
اترپردیش صوبہ کے دارلحکومت لکھنوکے ایک صحافی ونے شری واستو آخری وقت تک ٹویٹ کرکے آکسیجن سلنڈر کیلئے دہائی لگاتے رہے، تا آنکہ ان کا دم نکل گیا۔ہسپتالوں کے باہر عوام کا ہجوم ہے اور ایسے مریضوں سے بھری ایمبولینسوں کی قطاریں ہیں جو ہسپتال میں داخلے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ کئی افراد ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں ہی دم توڑ رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر انڈیا پر آکسیجن، ایمبولینسوں، آئی سی یو میں بستروں اور جان بچانے والی ادویات کی اپیلوں کی بھرمار ہے۔
ایک سال کے اندر دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح بھارت میں حالات بے قابو ہو گئے ہیں، وہ پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان کیلئے ایک سبق ہے۔ خیال رہے کہ یہ تغیر یافتہ کورونا وائرس کسی بھی وقت بارڈر کراس کر ے گا۔ اگر 2020ء کے بھیانک حالا ت کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت میں منصو بہ بندی کی گئی ہوتی، آکسیجن کے پلانٹ لگا کر ان کی مناسب اسٹوریج کی گئی ہوتی، تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ ایک دوست کے والد کیلئے جب ایک پرائیوٹ کمپنی نے آکسیجن فراہم کرنے کیلئے حامی بھرلی، مگر خالی سلنڈر ساتھ لانے کیلئے کہا۔ معلوم ہوا کہ شہر میں خالی سلنڈر بھی نہیں مل رہے ہیں۔ اسی دورا ن ان کے والد کے خون میں آکسیجن لیول بتدریج کم ہو ررہا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہوں نے ائیر کنڈیشنر توڑ کا اس کا سلنڈر نکالا کا اسکو کمپنی کے دفتر لے جاکر اسمیں آکسیجن بھروایا۔ انتظامیہ اس حد تک چکرا چکی ہے کہ نامی گرامی اسپتالوں کو آکسیجن اور ادویات کے حصول کیلئے عدالتوں کے دروازے کھٹکٹھانے پڑ رہے ہیں ۔
دہلی کے گنگا رام اسپتال نے خبردار کیا تھا، کہ ان کی آکسیجن کی سپلائی ختم ہو رہی ہے، مگر کورٹ میں حکومت کے وکیل نے ججو ں کو بتایا کہ یہ رونے دھونے والے بچے ہیں ، اس لئے ان کی اپیلوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے، سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔اس اسپتال میں 510 کورونا مریض داخل تھے، جن میں 142 آکسیجن پر تھے۔ اگلے دن سویرے خبر آئی کہ آکسیجن سپلائی کے رک جانے کی وجہ سے اس نام گرامی اسپتال میں19مریض ہلاک ہوگئے۔
میری ایک سابق کولیگ روہنی سنگھ کی ساس کورونا کا شکار ہوگئی۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نے اسکو ایڈمٹ کرنے سے انکار کردیا۔ قومی میڈیا میں کام کرنے اور خاصی پہنچ کے باوجود ان کو چار اسپتالوں کے چکر لگانے پڑے۔ اسی دوران ان کی ساس کس وقت گاڑی میں داغ مفارقت دے گئی، ان کو پتہ ہی نہیں چل سکا۔ اب اسکی ڈیڈ باڈی پچھلے کئی روز سے مردہ گھر میں ہے، کیونکہ شمشان گھاٹ میں ویٹنگ لسٹ چل رہی ہے۔
اسپتالوں کے اوپی ڈی اور دیگر مریضوں کیلئے دروازے فی الحال مکمل طور پر بند ہیں۔ ممبئی کی ایک مشہور آر جے سمردی سکسینہ کا کہناہے کہ شہر میں 20 سے 30 ہزار روپے میں آکسیجن کا سلنڈر بک رہا ہے، اور جو دو یا تین گھنٹے تک ہی مریض کا ساتھ دیتا ہے۔ ان کے والد کو آکسیجن کی مسلسل ضرورت پیش آتی ہے۔ رقم اور سفارش ہونے کے باوجود بھی آکسیجن یا ادویات نہیں مل پا رہی ہیں۔ معروف صحافی برکھا دت اپنی داستان سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئی، کہ کس طرح اس نے بڑی مشکل سے اپنے 80سالہ والد کیلئے آکسیجن حاصل کرلیا۔ انہوں نے ایک پرائیوٹ ایمبولینس بلائی تھی ۔ مگر اس میں کمپاوڈر نہ آکسیجن کا انتظام تھا۔ اس پر طرہ کہ پولیس نے کرفیو کے نفاذ کیلئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں اور وہ ہر گاڑی کو روک کر یقینی بنا رہے تھے کہ اس میں مریض ہی ہے۔جس کی وجہ سے جام لگا ہوا تھا۔
یہ حال اگر دہلی اور ممبئی کا ہے تو دیہی اور چھوٹے قصبوںا ور شہروں کا کیا حال ہوگا۔ سرکاری اعداد و شما رکے مطابق پورے ملک میں ابھی تک 16.96ملین افراد کورونا کے شکار ہو گئے ہیں اور تقریباً دو لاکھ کے قریب اموات ریکارڈ ہوئی ہیں۔ مگر کولکتہ سے شائع ہونے والے اخبار دی ٹیلیگراف کے مطابق حکومتی اعداد و شمار میں خاصے تضادات ہیں۔ ایک علاقہ میں جہاں سرکاری کاغذوں میں دس کورونا مریض درج تھے، اخبار نے پایا کہ وہاں اصل میں 150 تھے۔ پچھلے ایک ہفتہ کے دوران روزانہ تین لاکھ کے قریب نئے کیسز اور 2,600کے قریب اموات ہو رہی ہیں۔ مگر اخبار کے مطابق نئے انفیکشز کی تعداد آٹھ لاکھ سے زائد ہے اور روزانہ 20ہزار کے قریب افراد وبا کا شکار ہوکر ہلاک ہو رہے ہیں۔ کانپور کے ایک صحافی کے ذریعے شیئر کردہ ایک ویڈیو میں لالہ لاجپت رائے سرکاری ہسپتال کی پارکنگ میں ایک مریض کو زمین پر پڑا ہوا دیکھا گیا اور تھوڑی ہی دور ایک بینچ پر ایک مریض کو بیٹھا دیکھا۔ انہیں ہسپتال میں داخل کرنے کے لیے کوئی بستر نہیں۔ایک جج رمیش چندر کا ہندی میں تحریر کردہ نوٹ سوشل میڈیا پر گشت کر رہا ہے، جس میں وہ حکام سے التجا کر رہے ہیں کہ ان کی بیوی کی کورونا سے متاثرہ لاش گھر سے لے جانے میں ان کی مدد کریں لیکن کوئی ان کی بات نہیں سْن رہا ہے۔ انھوں نے لکھا ’’میں اور میری اہلیہ دونوں کورونا کی زد میں ہیں۔ کل صبح سے ہی میں نے سرکاری ہیلپ لائن نمبر پر کم سے کم 50 بار فون کیا لیکن کوئی بھی دوائیں دینے یا ہسپتال لے جانے نہیں آیا۔ انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے میری اہلیہ کی آج صبح موت ہو گئی۔‘‘وزیراعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقہ وارانسی یا بنارس سے ومل کپور نے بتایا کہ صورت حال خاصی خوف ناک ہے۔ ان کی والدہ کا اسپتال میں بیڈ نہ ملنے کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ اس کا کہنا تھا ’’میں نے بہت سارے لوگوں کو ایمبولینسز میں مرتے ہوئے دیکھا۔ ہسپتال مریضوں کو وہاں سے بھگا رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس بستر نہیں، دوا کی دکان پر کورونا کی ادویات بھی ناکافی ہے۔‘‘انھوں نے بتایا کہ جب وہ اپنی والدہ کی لاش کو شمشان گھاٹ لے گئے تو وہاں پرلاشوں کا ڈھیر تھا۔ جلانے کے لیے لکڑی کی قیمت تین گنا بڑھ گئی ہے۔ آخری رسومات کیلئے دس سے پندرہ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
آخر جو ملک چند ہفتہ قبل تک کورونا سے نمٹنے کیلئے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہا تھا کس طرح اس وبا ء کا اس بری طرح شکار ہو گیا۔ چین کے ساتھ ہیلتھ سفارت کاری کی مسابقت کرنے کیلئے دسمبر سے بھارت ہر ماہ 65ملین ویکسین کی خوراک، 11لاکھ ریمڈیسور انجکشن، 9,300میٹرک ٹن آکسیجن اور دو کروڑکووڈ ٹیسٹنگ کٹس برآمد کر رہا تھا، تاکہ عالمی برادری میں اپنی دھاک جما سکے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو اعلان کردیا تھا کہ اس وباء نے بھارت کو وشیو گورو یعنی عالمی پیشوا کا مقام دلا دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بتایا گیا کہ مودی کی قیادت میں بھارت نے کورونا پر فتح حاصل کی ہے۔چین کے ساتھ مسابقت اور وشوگورو بننے کی چاہت نے ان ملکوں کو بھی کنواں اور کھائی کے بیچ لا کر کھڑا کر دیا ہے، جن کو ویکسین کی پہلی کھیپ فراہمی کی گئی تھی۔
مارچ میں ڈھاکہ کے دورہ کے دوران وزیرا عظم مودی نے بنگلہ دیش کو 1.2ملین ویکسین ڈوزبطور تحفہ دیں۔ بنگلہ دیش نے اس کے علاوہ 30ملین ڈوز بھارت سے خرید کر ویکسین لگانے کا عمل بھی شروع کیا اور اسی کے ساتھ مزید 40ملین ڈوز کا آرڈر دے دیا۔ مگر اب بھار ت نے ویکسین کی برآمد پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ بنگلہ دیش نے جن افراد کو پہلی ڈوز دی ، ان کیلئے اب دوسری ڈوز دستیاب ہی نہیں ہے۔ یہی حال مالدیپ اور کئی افریقی ممالک کا ہو گیا ہے، جو بھارت میں تیار کردہ ویکسین پر تکیہ کئے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ معلوم ہوا کہ پونہ شہر میں واقع ویکسین بنانے والی فرم سیرم انسٹیچوٹ مزید ویکسین بنانے سے قاصر ہے، کیونکہ اسے بنانے کیلئے خام مال امریکہ سے آرہا تھا، جس کی برآمدپر صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے پابندی عائد کر دی ہے۔ شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر صحت نے تو اعلان بھی کیا تھا کہ اب ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی اعتماد کے ساتھ الیکشن کمیشن نے پانچ صوبوں، مغربی بنگال، آسام، تامل ناڈو، کیرالا اور مرکزی انتظام والے علاقے پانڈیچری میں صوبائی انتخابات کا اعلان کیا ۔ انتخابی مہم میں کورونا پروٹوکول کی کھل کر اور جم کر خلاف ورزی کی گئی۔ اور تو اور خود وزیراعظم مودی اور انکے دست راست وزیر داخلہ امیت شاہ نے پر ہجوم ریلیوں کو کسی بھی پروٹوکول کی پیروی کئے بغیر خطاب کیا۔ اس سے بھی زیادہ مجرمانہ فعل اترا کھنڈ صوبہ کے ہری دوار شہر میں دریائے گنگا کے کنارے ہندوؤں کے سب سے بڑے کمبھ میلہ کے انعقاد کی اجازت دینا تھا۔ جس میں 48.51 لاکھ افراد نے شرکت کرکے دریا میں ڈبکی لگائی۔ اس دوران وہاں دو ہزار کے قریب افراد کورونا سے متاثر پائے گئے۔
ایک سال قبل یہی انتظامیہ کورونا پھیلنے کی ذمہ داری تبلیغی جماعت کے ایک جلسے پر ڈال رہے تھے۔بھارت کے مین اسٹریم میڈیا نے تبلیغی جماعت کے افراد کو ’انسانی بم‘ اور ’ کورونا جہادی ‘ بھی کہا تھا۔ مگر کمبھ میں ڈبکی لگانے والے ان کیلئے ’عقیدت مند‘ ہیں۔اترا کھنڈ کے وزیر اعظم تیرتھ سنگھ راوت نے تو یہاں تک کہا ماں گنگا کے بہاؤ اور برکت سے کورونا کی وبا دور ہی رہے گی۔ ماں گنگا اسے پھیلنے نہیں دے گی، انھوں نے اعلان کیا تھا کہ ’’کووڈ کے نام پر کسی کو بھی میلے میں آنے سے نہیں روکا جائے گا۔ ایشور پر بھروسہ اور عقیدہ وائرس کو ختم کر دے گا۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے۔‘‘واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ’’کورونا وائرس کی وبا نے انڈیا کو ’نگل‘ لیا ہے لیکن لوگ ابھی بھی گنگا میں بنا ماسک پہنے ڈبکی لگا رہے ہیں۔‘‘ وباء کے شروع میں ہی پرائم منسٹرکئیر فنڈ شروع کیا گیا تھا، جس میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے انگلیاں اٹھتی رہی۔ سرکاری محکموں، کارپوریٹ اداروں اور دیگر افراد سے اس فنڈ کیلئے موٹی رقوم لی گئیں۔ اس فنڈ سے جو وینٹی لیٹر بنوائے گئے ان کے ٹھیکے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی سے تعلق رکھنے والے قریبی افراد کو دئیے گئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے وینٹی لیٹر کے نام پر گھٹیا مال سپلائی کیا۔ راجستھان صوبہ کو جو وینٹی لیٹر دئیے گئے ان میں 90 فیصد ناکارہ تھے۔
فروری میں مہاراشٹر صوبہ کے ایک ڈاکٹر نے خبردار کیا تھا کہ کورونا وائرس کی تغیر یافتہ صورت بھارت میں نمودار ہو رہی ہے۔ مگر اس کو خاموش کرا دیا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ آٹھ ماہ قبل ملک میں دو بلین روپے کی لاگت سے 150کے قریب آکسیجن پلانٹ لگانے کیلئے ٹینڈر طلب کئے گئے تھے، جس میں دہلی کے آس پاس ہی 18پلانٹ لگنے والے تھے۔ مگر یہ منصوبہ پاور گلیاروں اور افسر شاہی کی طوالت کی نظر ہوگیا۔ اب حال یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ طیارو ں کی مدد سے سعودی عرب، سنگا پور اور دیگر ممالک سے آکسیجن منگائی جا رہی ہے۔ صرف جنوبی صوبہ کیرالا نے اس مدت کے دوران اپنی آکسیجن تیار کرنے اور اسٹور کرنے کی صلاحیت کو 58فیصد بڑھادیا۔ دیگر صوبو ں سے ٹرکوں میں جو آکسیجن دہلی کیلئے روانہ کی جا رہی ہے، اسکو دیگر صوبے راستے میں ہائی جیک کر رہے ہیں۔اتر پردیش کی حکومت نے شکایت کی کہ اس کے حصہ کی آکسیجن دہلی کو دی گئی۔ ہریانہ حکومت نے دہلی جار رہے آکسیجن ٹینکرو ں کو روک کو اعلان کیا کہ ان پر پہلا حق اسی کا ہے، کیونکہ یہ اسی صوبہ کی فیکٹریوں میں تیار ہو گئے ہیں۔
بھارت میں ابھی تک 1.59فیصد آبادی کو ہی ویکسین لگائے گئے ہیں۔ وائرس کو قابو کرنے کیلئے تقریباً 60فیصد آبادی کا ویکسین لگانا لازمی ہے۔ پہلے بتایا گیا تھا کہ 60سے زیادہ عمر والوں کو ہی یہ ویکسین دی جائے گی۔ جب نوجوان کویڈ کا شکار ہونے لگے تب حکومت نے اعلان کیا کہ 45سال کے عمر والوں کو بھی یہ سہولت رہے گی۔ اب جب کہ وائرس نے بچوں کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے اب بتایا گیا کہ یکم مئی سے 18 سال تک کی عمر والوں کو بھی ٹیکہ دیا جائے گا۔ماہرین ابھی ہی پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ مئی میں اس ویکسین کے حصول کیلئے انارکی کا ماحول ہوگا کیونکہ اس اعلان کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں ویکسین دینے کیلئے انفراسٹریکچر بنانے کا عمل نہایت ہی سست ہے۔
دوسری طرف جموں و کشمیر میں بھی جہاں فروری میں مشکل سے روزانہ 50سے60کورونا کیسز رپورٹ ہو رہے تھے، اب تعداد 2,000سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسکی ذمہ داری بھی براہ راست انتظامیہ کے سر ہے۔ خطہ میں نارملسی دکھانے کیلئے سرینگر شہر کا ٹیولپ گارڈن اور دیگر سیاحتی مقامات قبل از وقت کھول دئے گئے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم مودی نے خود ٹویٹ کرکے گجرات اور مہاراشٹرا میں اپنے حامیوں کو بتایا کہ کشمیر جاکر ٹیولپ گارڈن کا لطف اٹھائیں۔ان کی اس اپیل کی وجہ سے ایک اژدھام امنڈ پڑا۔ وادی کشمیر میں محض 72وینٹی لیٹر ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سرینگر شہر کے بڑے ہسپتالوں میں بھی آکسیجن سپلائی کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ صورہ انسٹی چیوٹ جیسے بڑے ہسپتال، جہاں تین آکسیجن پلانٹوں سے فی منٹ3200لیٹر آکسیجن پیدا واری صلاحیت ہے ،وہیں آکسیجن کم پڑرہی ہے حالانکہ اس کے علاوہ450آکسیجن سلنڈر بھی دستیاب ہیں لیکن وہ بھی ناکافی لگ رہے ہیں کیونکہ مریض زیادہ ہیں اور سلینڈر ختم ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے ۔ضلعی ہسپتالوں کا خدا ہی حافظ ہے ۔
بھارت میں صحت کا بجٹ مجموعی قومیپیداوار کا محض 1.6فیصد ہے، جبکہ 2017ء میں جاری ہیلتھ پالیسی میں حکومت کیلئے لازم کیا گیا تھا کہ اسکو 2.5صد تک لے جائے۔ پاکستان میں تو یہ اور بھی کم یعنی مجوعی قومی پیداوار کا 0.91فیصد ہے۔جبکہ ترکی میں جی ڈی پی یعنی قومی مجموعی پیداوار کا 4.4 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔
کورونا وائرس نے یہ تو دکھایا ہے کہ جنگوں کی طرح وبائی امراض بھی معشیت کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔ جنگوں اور قومی سلامتی کے ایشوز سے نمٹنے اور تیاری کیلئے حساس ادارے اور فوج متواتر مشقیں کرتے رہتے ہیں۔ ہر ملک کے پاس تیل کے اسٹریٹیجک ذخائر موجود ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ ایمونیشن کے بھی ذخیرہ بنائے جاتے ہیں۔ صحت کے ایشوز سے نمٹنے کیلئے بھی اسی طرح کی چوکسی کی ضرورت ہے۔کیونکہ اس وبا نے یہ تو عیاں کردیا ہے کہ بڑی طاقتیں بھی صحت سے متعلق آلات و دوائیوں کا وافر اسٹاک نہیں رکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ صحت سے متعلق امور کو بھی قومی و انسانی سلامتی کے نظریہ سے دیکھا جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply