وقت گزرا کہ کچھ دوستوں کے ساتھ اک سفر درپیش تھا۔ سفر لمبا ہو اور دوست بے تکلّف تو کوفت نہیں ہوتی، محفل مصالحہ دار چاٹ سی بن جاتی ہے۔ وہ عربی مقولہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ “اپنی محفلوں کو حموض یا مصالحہ دار کرو”۔ اس چاٹ مصالحہ میں جنس مخالف کا ذکر سب سے تیکھا ہوتا ہے اور لطف بھی دیتا ہے۔ مجلس خواہ مردوں کی ہو یا عورتوں کی، سب سے مزے کا مصالحہ یہی ڈالا جاتا ہے۔ سو اس محفل میں بھی کچھ یونہی تھا، کہ علم و ادب، فلسفہ، سیاحت اور نجانے کیا کیا ۔۔مگر بات جنس مخالف پہ بھی جا نکلی۔ اب جنس مخالف پہ بات ہو تو عین فطری ہے کہ آپکے زوج کا ذکر بھی لازم ہو گا۔ آپ کسی خوبی یا بدخوئی میں اپنے رفیق حیات کا ذکر لازم کریں گے۔ اگر نہیں کر پا رہے تو محفل میں کوئی ایسا ہے جو آپ کو بے تکلف ہونے سے روک رہا ہے۔
خادم کیونکہ ایک عدد بدیسی بیوی کا شوہر ہے تو پاکستانی دوستوں کا اک سوال مستقل ہے۔ “کیا گوریاں بھی ہماری بیویوں جیسی ہوتی ہیں؟” اس سوال میں جو مظلومیت، جو محرومیت ہے وہ فقط محسوس کی جا سکتی ہے۔ میرا جواب بھی جیسے مستقل ہے کہ “بیوی جہاں کی بھی ہو تقدس میں سید اور رویے میں راجپوت ہوتی ہے”۔ خیر گفتگو کا رخ جانے کس طور میاں بیوی کی باہمی “فرینکنس” کی جانب مڑ گیا۔ کسی موڑ پہ جب میں نے یہ کہا کہ میں تو ہر گندہ لطیفہ ترجمہ کر کے اپنی بیوی کو سناتا ہوں تو ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے دوست کے ہاتھ کانپ گئے اور گاڑی لہرا گئی۔ انھوں نے سگریٹ سلگایا، دو چار کش کھینچے اور بولے “رانا جی، خوش نصیب ہو، میں تو اپنی بیوی کو کوئی رومانٹک بات بھی کہوں تو کہتی ہے، آپ کو کتنی بار کہا ہے مجھ سے گندی باتیں نہ کیا کریں”۔ انکی اپنی آنکھ پانی اور میرا دل درد سے بھر گیا۔
سوچیے، وہ رشتہ جو آپ سے سب سے زیادہ کھلا ڈلا ہونا چاہیے، اگر وہی زباں بندی کر دے تو دیوانہ بیاباں کو نہ نکلے تو کہاں نکلے۔ مگر یہ ہنس کر ٹال دینے کی بات نہیں، اس کے پیچھے پورا پس منظر ہے۔ اوّل تو ہم بچوں بالخصوص بچیوں کی تربیت ہی یوں کرتے ہیں کہ جیسے پرندہ پوٹ کو آہلنے میں پالتا ہے۔ اوپر سے مذہبی طور پہ انکو اس قدر خوفزدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو بھی غیر مرد ہی تصور کرتی ہیں۔ اک جملہ پڑھا تھا عرصہ ہوا، کسی خاتون نے لکھا کہ “ماں باپ ساری عمر ہمیں غیر مرد سے ڈرانے کے بعد ایک رات اسی غیر مرد کے ساتھ کمرے میں بھیج دیتے ہیں۔ اس مرد کو یہ سمجھنے میں عمر لگ جاتی ہے کہ ہم اسے اپنا کیوں نہیں سمجھ پا رہے”۔ ایک اور وجہ سماج میں بے جوڑ شادیاں بھی ہیں۔ اچانک سے آپکی پسند نا پسند سے ماورا اک رشتہ بنا کر آپ کی گردن میں ڈال دیا جاتا ہے کہ لو اب تمام عمر یہ ڈھول بجاؤ۔ خیر ان بے جوڑ شادیوں کا اک فائدہ ضرور ہوا، بلکہ دو۔ ایک تو جس مرد کو اپنے زور پہ کوئی عورت پاس نہ پھٹکنے دیتی، اسے حور پری بھی نصیب ہو گئی۔ دوسرا ان بے جوڑ شادیوں نے علم و ادب پہ احسان کیا۔
گزرے زمانوں میں علم و ادب کی بڑی خدمت بے جوڑ شادیوں نے بھی کی۔ اکثر زر، زمین، برادری کے چکر میں بے جوڑ شادیاں ہوتی تھی۔ عمروں کا تفاوت، شوق مختلف، تعلیم و ذوق کا فرق دونوں کو اجنبی بنا دیتا۔ عورت تو خیر زمانہ ابتدائے پدرسری سے مجبور قرار پائی تھی سو صبر شکر کر کے گزارہ کر لیتی یا اولاد اور زیور کپڑے میں پناہ پاتی۔ مرد البتہ کئی بار باغی نکل آتا اور زنجیر تڑوا کر بھاگ جاتا۔
سوچیے آپ شعر و ادب کے شائق اور بیگم پوچھے کون میر؟ کیا چھبن کے میاں کا پوچھتے ہیں؟ آپ نے کسی سُر پہ بے اختیار واہ کی اور بیوی نے موسیقی کے حرام ہونے کو یاد دلایا۔ آپ کسی رومانوی ناول کے زیر اثر کوئی جملہ بولے اور وہ بولیں، کہے دیتی ہوں مجھ سے گندی باتیں نہ کیا کیجیے۔ آخر کب تلک نبھائے کوئی۔۔۔ سو کئی نامی گرامی لوگ یوں بھاگے کہ پلٹ کر نہ دیکھا یا رابطہ بھی رکھا تو فقط عید شبرات کا۔ نتیجہ، علمی و ادبی کام کرنے کا اس قدر وقت میسر آیا کہ کئی دیوان ہوئے۔ اردو اس احسان پہ ان بے جوڑ شادیوں کی احسان مند نہ ہو تو کیا ہو۔
صاحبو، زمانہ بدلا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے سماج کی بنت توڑ دیں اور نہ ہی یہ سفارش ہے کہ بچوں کو گندی باتیں سکھلائیں۔ البتہ اپنے بچے بچی کو یہ تو تعلیم دی جا سکتی ہے کہ زوجین کی باہمی محبت کیسی ہونی چاہیے، ایک دوسرے میں اپنائیت کیسے پیدا کی جائے، “گندی باتیں” اگر میاں بیوی کریں تو اللہ میاں بھی برا نہیں مناتے، ایک خوشگوار شادی ایک خوشگوار نئی نسل پروان چڑھاتی ہے۔ ماں باپ اگر بچوں کو یہ تعلیم دیں تو صراط مستقیم پہ رہتے ہوئے بھی شادی خوشگوار رہ پائے گی، وگرنہ ادھر اُدھر سے سُن کر، احساس ِ گناہ کے ماروں کی شادیاں فقط عمر بھر کا نبھاہِ محض ہو جاتی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں