• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خطے کو تبدیل کرنیوالا عراقی تعمیراتی منصوبہ/ڈاکٹر ندیم عباس

خطے کو تبدیل کرنیوالا عراقی تعمیراتی منصوبہ/ڈاکٹر ندیم عباس

بہت عرصہ پہلے ایک بڑے اسکالر سے سنا تھا کہ اللہ نے عراق کو تین ایسی چیزیں دی ہیں، جن میں سے ایک کا درست استعمال بھی اسے ایک امیر قوم میں تبدیل کرسکتا ہے۔ پہلے نمبر پر تیل ہے، حرم ہائے مقدسہ ہیں اور تیسرا ان کا محل وقوع ہے۔صدام کی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد عراقی عوام کو امریکی قبضے کا سامنے تھا۔ عراق کی غیور عوام نے ایک بڑی اور صبر آزما جدوجہد کی اور اپنے ملک کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر انہیں داعش اور دیگر دہشتگردوں میں الجھا دیا گیا، مگر جیسے ہی انہیں سانس لینے کا موقع ملا، انہوں نے خطے کی ترقی اور امن کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ سعودیہ ایران معاہدہ چین میں ہوا، اس لیے اس میں عراقی کردار پس منظر میں چلا گیا، حالانکہ ان مذاکرات کے شروع کرانے اور انہیں آگے بڑھانے میں عراق کا بنیادی کردار تھا۔ عراق خطے میں بدامنی کو ختم کرنا چاہتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بدامنی اور داعش و اس طرح کے دیگر گروہوں کے ذریعے سے مداخلت کا سب سے زیادہ نقصان عراق کو ہی ہوا ہے۔

عراق کے وزیراعظم نے ہفتے کے روز ایک گیم چینجر منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان انہوں نے ایران، اردن، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب، شام، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے ٹرانسپورٹ کے وزراء کی میٹنگ میں کیا۔ اس منصوبے میں کے مطابق بارہ سو کلومیٹر ریلویز اور ہائی ویز کا جال بچھایا جائے گا۔ اس منصوبے کے مطابق بصرہ کی تاریخی بندرگاہ کو مرکز قرار دیتے ہوئے ان ممالک کو باہم مربوط کر دیا جائے گا اور عراق کے اہم شہروں میں ریلوے کا نظام قائم کرکے وہاں سے اور دیگر شریک ممالک سے سامان کو اس بندگاہ کے ذریعے سے براہ راست یورپ روانہ کیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق اس منصوبے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بار بار سامان اتارنے اور چڑھانے سے سرمائے اور وقت کے ضیاع کے مسئلے کو حل کر لیا جائے گا، کیونکہ اب یورپ اور دیگر دنیا میں یہ سامان براہ راست پہنچ جائے گا۔

عراقی وزیراعظم السوڈانی نے درست کہا کہ یہ منصوبہ معاشی لائف لائن کے ساتھ ساتھ مفادات، تاریخ اور ثقافتوں کے ہم آہنگی کے لیے بھی امید کا موقع ہے۔ عراقی وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی نے کہا کہ یہ ترقیاتی منصوبہ بصرہ میں واقع گرینڈ فاو بندرگاہ کے ذریعے خلیجی ممالک سے یورپ تک سامان کی نقل و حرکت کی سہولت دے گا۔ اسی طرح ریلویز اور ہائی ویز کے نیٹ ورک کے ذریعے ایشیائی ممالک کو ترکی سے ملایا جائے گا اور ترکی کے راستے یورپ سے منسلک ہوں گے۔ اس منصوبے پر سترہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ عراقی وزیراعظم نے کہا کہ یہ پیسے برادر دوست ممالک سے حاصل کیے جائیں گے۔ ویسے بھی جس طرح کا یہ منصوبہ ہے، اس میں دنیا وسائل فراہم کرنے کے لیے تیار ہوگی۔

بظاہر یہ چائنیز صدر کے ون بیلٹ روڑ منصوبے کا حصہ لگتا ہے۔ اس منصوبے میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ آگے چل کر اس منصوبے کو اسلامی جمہوریہ ایران کے ذریعے پاکستان سے جوڑ دیا جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ جڑتے ہی یہ منصوبہ سی پیک کے ساتھ لنک کر جائے گا اور یوں یہ منصوبہ بھی ایک سو تیس ممالک کو جوڑنے والے اس تاریخی اور دنیا کو تبدیل کر دینے والے پروجیکٹ کا حصہ بن جائے گا۔ عراقی وزیراعظم سوڈانی نے بڑی اہم بات کی کہ ہم اس منصوبے کو ایک پائیدار اور غیر تیل کی معیشت کے ایک ستون کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک ایسا رابطہ جو عراق کے پڑوسیوں اور خطے کی خدمت کرتا ہے اور اقتصادی شراکت داری کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ترقی کا راستہ ہے۔

جس تیز رفتاری سے دنیا اپنی معیشت کو تیل سے الگ کر رہی ہے اور توانائی کے دیگر ذرائع کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، یہ بات یقینی لگ رہی کہ اگلی ایک دو دہائیوں میں تیل کی اہمیت ختم نہ بھی ہوئی تو بہت کم ہو جائے گی۔ ایسے میں وہ تمام ممالک اپنی معیشتوں کے تیل پر انحصار کو ختم کر رہے ہیں، جنہوں نے پچھلی ایک صدی تیل کی کمائی پر ہی گزارا کیا ہے۔ ان حالات میں عراق جو بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی بھی زیادہ ہے، وہ بھی کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح وہ اپنی معیشت کو دیگر ذرائع آمدن کی طرف شفٹ کر دے۔ دبئی، قطر اور عرب امارات کے پاس عراق کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے، مگر وہ تجارت کے مراکز بن چکے ہیں۔ اگر عراق میں امن آتا ہے اور یہاں سے یورپ تک اور ایشیاء کی اہم منڈیوں تک براہ راست رسائی مل جاتی ہے تو عراقی معیشت بھی بوم کر جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کے لیے بڑا موقع ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سی پیک ایران کے بارڈر کے نزدیک تک موجود ہے۔ روڈز اور ہائی ویز کو ایران تک توسیع دے دی جائے، اس طرح ہم بھی اس منصوبے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ فائدہ نہ اٹھانا حماقت ہوگی۔ ہم ایران سے لے کر اردن تک ایک بڑی مارکیٹ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ پاکستانی تاجروں کے لیے بھی یہ ایک بڑا موقع ہوسکتا ہے۔ ایران ایک بڑی مارکیٹ بن چکا ہے، صرف دو چار جگہ بارڈر بازار کھولنے کی بجائے اس طرح کے تجارتی روٹ قائم کرکے ایران سے پوری طرح سے تجارت کھول دینی چاہیئے۔ اس سے ہماری معیشت کو بھی سہارا ملے گا اور ٹرانسپورٹ کے کم اخراجات کی وجہ سے بھی اشیاء سستی ملیں گی اور سستی ہی فروخت کرسکیں گے۔ اگر یہ منصوبہ آگے بڑھتا ہے تو عراق پورے خطے میں رابطے کا مرکز بن جائے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply