ماہ رمضان میں صدقات و خیرات/عبدالرحمٰن عالمگیر کلکتوی(1)

برکتوں سے بھرا، رحمتوں اور مغفرتوں کا خزانہ اپنی گود میں لیے ماہ رمضان نمودار ہونے کو ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف روحانیت میں اضافہ کا بلکہ فیضانات، حسنات، صدقات، ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا بہترین وقت بھی ہے۔ اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ وہ بعض اعمال کو خصوصیت کے ساتھ بعض مواقع پر انجام دینے کی تاکید کرتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے اجر کو مختلف مقامات اور اوقات کی مناسبت سے بڑھاتا رہتا ہے، اور بعض مقامات کو دوسرے مقامات پر فضل عطا فرماتا ہے، اسی طرح بعض لمحات کو دوسرے اوقات پر فوقیت دیتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ماہ رمضان کو بقیہ ماہوں پر فضل عطا فرمایا ہے، رمضان کو مہینوں کا سردار بنایا، اس میں قرآن کو نازل فرمایا، اسے طاعت، قربت، نیکی اور احسان کا مہینہ قرار دیا، رحمت اور رضامندی کا دروازہ بندوں کے لیے وا کر دیا۔ اس ماہ میں شبِ قدر رکھا جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اور ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی نعمت کو اللہ کے بندوں پر لُٹانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بنایا۔ ساتھ ہی ساتھ عام دنوں میں ہاتھ روکے رکھنے کو برا گردانا۔ ماہِ رمضان ہمدردی اور تعاون کا مہینہ ہے، جس میں مومن اپنے بھوکے بھائیوں کی تکلیف اور پیاس کی شدت کو محسوس کرتا ہے۔ روزہ داروں کو افطار کرواتا ہے، جس کے نتیجہ میں اسے اپنے روزہ کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کے روزے کا پورا پورا اجر ملتا ہے۔ اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور وہ جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ان باتوں کو تفصیل سے جاننے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ رمضان اور صدقات کے بارے میں مختصراً جان لیا جائے کہ قرآن و حدیث میں اس کے بارے میں کیا رہنمائی ملتی ہیں۔

ماہِ رمضان

رمضان وہ ماہ ہے جس میں اللہ نے قرآن نازل کیا، اللہ تعالی فرماتا ہے:
شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾
(البقرة: 185)
یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا۔ جو انسانوں کے لیے رہنما ہے، ہدایت کی روشن صداقتیں رکھتا ہے اور حق کو باطل سے الگ کردینے والا ہے۔ جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے تو چاہیے کہ اس میں روزہ رکھے۔ ہاں جو کوئی بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ دوسرے دنوں میں چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی پوری کرلے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے۔ سختی و تنگی نہیں چاہتا۔ اور یہ (جو بیماروں اور مسافروں کے لیے روزہ قضا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو یہ) اس لیے ہے کہ (حکمت الٰہی نے روزے کے فوائد کے لیے دنوں کی ایک خاص گنتی ٹھہرا دی ہے تو تم اس کی) گنتی پوری کرلو (اور اس عمل میں ادھورے نہ رہو) اور اس لیے بھی کہ اللہ نے تم پر راہ (سعادت) کھول دی ہے تو اس پر اس کی بڑائی کا اعلان کرو۔ نیز اس لیے کہ (اس کی نعمت کام میں لا کر) اس کی شکر گزاری میں سرگرم رہو۔

ہجرت کے دوسرے سال میں اللہ نے روزے رکھنے کا حکم دیا، اور اسے ہر عاقل، بالغ، مستطیع مسلمان پر فرض قرار دیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۸۴﴾
(البقرة: 183-184)
مسلمانو! جس طرح ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں روزہ فرض کردیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کردیا گیا ہے تاکہ تم میں پرہیزگاری پیدا ہو، (یہ روزے کے) چند گنے ہوئے ایام ہیں۔ (کوئی بڑی مدت نہیں) پھر جو کوئی تم میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس کے لیے اجازت ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر روزے کے دنوں کی گنتی پوری کرلے۔ اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے لیے روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو (جیسے نہایت بوڑھا آدمی کہ نہ تو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہے نہ یہ توقع رکھتا ہے کہ آگے چل کر قضا کرسکے گا) تو اس کے لیے روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دینا ہے۔ پھر اگر کوئی اپنی خوشی سے کچھ زیادہ (مسکینوں کو کھلائے) تو یہ اس کے لیے مزید اجر کا موجب ہوگا۔ لیکن اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو تو سمجھ لو کہ روزہ رکھنا تمہارے لیے (ہر حال میں) بہتر ہے۔

رمضان ماہِ دعا ہے، اللہ تعالی نے روزے کے احکامات ذکر کرنے کے فوراً بعد رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منادی کر دینے کو کہا:
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾
(البقرہ:186)
اور (اے حبیب) جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے دریافت کریں تو (آپ فرما دیں کہ) بیشک میں (ان کے) قریب ہوں دعا کرنے والے کی دعا کو (اپنی حکمت کے مطابق) قبول کرتا ہوں، جب وہ مجھ سے دعا کریں تو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں، تاکہ وہ کامیابی حاصل کریں۔

پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے یہ بات مزید مؤکد ہوجاتی ہے:
ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏الْإِمَامُ الْعَادِلُ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ، ‏‏‏‏‏‏وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الْغَمَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ
(سنن الترمذي:2526)
تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: 1) امام عادل، 2) روزہ دار جب وہ افطار کرے، اور 3) مظلوم جب کہ وہ بد دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ (اس کی بد دعا کو) بادل کے اوپر اٹھا لیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے: قسم ہے میری عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر بعد ہی سہی۔

اللہ نے اس ماہ میں شبِ قدر جیسی عظیم رات رکھی، جس میں ہر عمل کو ہزار مہینوں سے بھی بہتر قرار دیا۔
لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾
(القدر:3)
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

یہ ماہ توبہ اور بخشش کا ماہ ہے، گناہوں اور برے اعمال کا کفارہ ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: (الصَّلَوَاتُ الخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إلى الجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إلى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ ما بيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الكَبَائِرَ.)
(مسلم: 233)
اگر بڑے گناہوں سے بچا جائے تو پانچ نمازیں، جمعہ سے جمعہ اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے درمیان میں ہونے والے گناہوں کا یہ کفارہ ہوتے ہیں۔

اللہ سے اجر کی امید اور اللہ کے وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے جو روزوں کا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے صغیرہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
مَن صامَ رَمَضانَ إيمانًا واحْتِسابًا غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ، ومَن قامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إيمانًا واحْتِسابًا غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ.
(صحیح بخاری:2014، و صحیح مسلم: 760)
جس شخص نے ایمان (کی حالت میں) اور اجر طلب کرتے ہوئے رمضان کا روزہ رکھا اور شبِ قدر میں قیام کیا اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔

ایسا شخص جسے رمضان کی نعمت میسر آئے اور وہ اپنی بخشش نہ کروا پائے تو ایسا شخص بڑے ہی خسارے میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حیات نبوی سے ان کے خطبہ کا میں کی گئی چند بد نصیب لوگوں پر بد دعا کا ذکر کرتے ہیں:
رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الْكِبَرَ فَلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ
(سنن ترمذی:3545)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ شخص مجھ پر درود نہ بھیجے، اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا، اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پایا ہو اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنے کی وجہ سے جنت کا مستحق نہ بن سکا ہوں۔”

دوسری روایت میں ذکر ہے کہ یہ دعا حضرت جبریل علیہ السلام کرتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس پہ آمین، آمین کہتے ہیں اور ممبر سے نیچے بیٹھے صحابہ کرام اس منظر کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔

رمضان جہنم کی آگ سے نجات دلانے والا مہینہ ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ للَّهِ عندَ كلِّ فِطرٍ عتقاءَ وذلِك في كلِّ ليلةٍ
(صحيح ابن ماجه: 1340)
اللہ (رمضان میں) ہر افطار کے وقت (روزہ داروں کو جہنم سے) نجات دیتا ہے۔ اور یہ معاملہ روزانہ جاری رہتا ہے۔

اس ماہ مبارک رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو بند کر دیا جاتا ہے۔ متفق علیہ روایت ہے۔ نبی دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ
(صحیح بخاری: 3277، صحیح مسلم:2495)
جب رمضان آتا ہے، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین بیڑیوں میں جکڑ دیے جاتے ہیں ۔

یعنی رمضان میں شیطانوں کی رسائی اس طرح نہیں ہوتی جیساکہ دوسرے مہینے میں ہوا کرتی ہے۔

رمضان صبر کا مہینہ ہے، کیونکہ کسی بھی عبادت میں صبر اتنی واضح طور پر ظاہر نہیں ہوتا جتنا کہ روزے میں ہوتا ہے، ایک مسلمان اپنی جذبات اور چاہتوں کو روزہ کے لیے روکتا ہے، اور صبر کی جزا جنت ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ: “صبر کرنے والوں کا اجر بے حساب ہوگا” (الزمر: 10)۔

مال و دولت اور صدقات و خیرات

مال دنیاوی زندگی کی زینت ہے، تمام ضروریات کی ڈور اسی سے جڑی ہے، انسان کی بقا مال کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ زندگی کی ریڑھ مال و منال پہ ہی کھڑی ہے، اللہ نے اس نعمت پہ انسانوں کو نگہبان بنایا ہے۔ شریعت نے تمام امور کی طرح مال کے بارے میں بھی احکامات جاری کیے ہیں، اور اسے غیر قانونی طریقوں سے حاصل کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ مال کمانے اور خرچ کرنے کے مشروع طریقے بیان کیے ہیں۔ مال کو ضروریاتِ خمسہ میں سے ایک قرار دیا، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظانِ خون اور آبرو کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ مطلق غریب یا مطلق امیر نہیں ہوتا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے غریبوں کے لیے مالداروں کے مال میں ایک حق مقرر کیا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ، لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ
(المعارج: 24-25)
اور ان کے مالوں میں سوالی اور بے سوالی سب کا حق مقرر ہے۔

اگر مالدار لوگ معاشرے میں غریبوں کو صدقات دیں تو غریبوں کی ضروریات پوری ہوں گی، اور مالداروں میں تواضع پیدا ہوگی، اور غریبوں کو مالداروں سے حسد نہیں ہوگا، اور وہ اپنی قسمت پر ناراض نہیں ہوں گے۔ معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ بڑھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ قائم کیا، اور انصار اپنے بھائیوں کو اپنا مال بانٹتے تھے، یہاں تک کہ معاشرہ ایک مضبوط اور متحد معاشرہ بن گیا۔
شریعت نے دولت کو لطف اندوزی اور اظہار فخر کے لیے نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ مال دنیا میں اس کے قیام و بقا کا سامان ہے۔ مال کو بذات خود مقصود بنالینا درست رویہ نہیں ہے۔ غریبوں کے حق کو غصب کر جانا یا اسے ٹھیک ٹھیک ادا نہ کرنا گویا اللہ کے اس نظام میں فساد ڈالنا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کی رزق رسانی کے لیے بنایا ہے۔ غریب و نادار کسی سماج کا سب سے کمزور طبقہ ہوتا ہے اس لیے اس کے حصہ کے مال کی حفاظت، حقدار تک رسائی، اور اس معاملہ میں ہر قسم کے ظلم سے بچنا لازمی ہے۔ اللہ ہر ایک کی کوتاہی سے باخبر ہے۔ غریب و ناتواں طبقہ اپنی کمزوری کی بنا پر اپنے غصبِِ حق پر کچھ نہ بولنے کی اگرچہ صلاحیت نہ رکھتا ہو لیکن اللہ روزِ محشر ہر ایک کا حساب و کتاب لے گا۔ اگر کسی نے حق کے خلاف معاملہ کیا ہو، تو اُسے سخت سزا ملے گی۔ انسان کے لیے اللہ کی سزا سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ اللہ نے آپ کے مال میں مسکینوں کا حق رکھا ہے۔ اس کی ادائیگی میں تقصیر ظلم ہے۔ پیٹ میں جانے والا ظلماً ہر نوالہ جہنم کا ایندھن ہے۔ زکات چور اپنے توند کی موٹائی نہیں بلکہ دہکتے ہوئے انگاروں کو ہوا دے رہا ہوتا ہے۔ اسے اگرچہ دہکتا ہوا منظر آج نہ دِکھ رہا ہو لیکن کل کو حقیقت کھل کر سامنے آجانی ہے۔ ایک شخص کیسے کسی کے حصہ کو دبا سکتا ہے جبکہ وہ خود اپنے لیے پسند نہیں کرتا کہ اس کا حصہ کوئی غصب کر جائے۔ آپ کے مال میں زکات و صدقات اللہ کا حق اس کے بندوں کے نام ہے، اور وہ حق میں کوتاہ کاروں سے ضرور نپٹے گا۔
انسانی طبیعت مال سے محبت، اس کی حفاظت، اس میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ کیا اسے آخرت کی ذخیرہ اندوزی کے لیے فکر مند نہیں ہونا چاہیے؟ جو بندہ اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرتا ہے، وہ قیامت کے دن اسے اپنے سامنے ذخیرہ کی شکل میں پائے گا۔ انسان کے پاس صرف وہی مال بچنا ہے جو اس نے صدقہ کیا ہوگا، اسی کا اجر آخرت میں محفوظ ہوگا۔ اس کے علاوہ بقیہ مال کو ختم ہو جانا ہے، یا دوسروں کے لیے چھوڑ جانا ہے۔ جس مال کو کل چھوڑ جانا ہے اسے ظلماً غصب کرکے جہنم کا سودا کیوں کرنا؟ جہنم میں غاصب جائے اور اس کے ورثہ اس مال سے عیاشی کریں؟ یہ کیسی دانشمندی ہے جناب! یاد رہے آپ کے حصہ صرف وہی مال ہے جس سے یا تو آپ مستفید ہو جائیں یا آخرت کے لیے صدقات و خیرات کے ذریعہ ذخیرہ کر لے جائیں۔
حدیث نبوی ہے:
يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِي مَالِي إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ مَا أَكَلَ فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ
(صحیح مسلم:2959)
بندہ کہتا ہے : میرا مال!، میرا مال!، اس کے لیے تو اس کے مال سے صرف تین چیزیں ہیں: جو اس نے کھایا اور فنا کر دیا، یا جو پہنا اور بوسیدہ کر دیا، یا جو کسی کو دے کر (آخرت کے لیے) ذخیرہ کر لیا۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے تو وہ (بندہ) جانے والا اور اس (مال) کو لوگوں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے۔

فرمانِ الٰہی ہے:
وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیۡرًا وَّ اَعۡظَمَ اَجۡرًا ؕ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۰﴾
(المزمل:20)
زکوۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دیتے رہو، اور جو بھی خیرات (و بھلائی) تم اپنے لیے آگے بھیجو گے وہی بھلائی اور اجر میں بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں پاؤ گے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عبد الرحمن عالمگیر کلکتوی
ایک ادنی سا طالب علم جو تجربہ کار لوگوں کے درمیان رہ کر کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply