جزا و سزا۔۔ناصر خان ناصر

زندگی اور انسانیت بہت بڑی چیزیں ہیں, شاید مذہب سے زیادہ اہم۔ اس حقیقت کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے اور انسانوں کی مذہبی آزادی کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔
پوری دنیا میں مسلمانوں پر جہاں کہیں ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹیں, ہم پاکستانی مسلمان تڑپ اٹھتے ہیں اور بے چین ہو جاتے ہیں۔ یہ لاکھ روا سہی مگر جب ہم خود اپنی اقلیتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں تو خود کو ان کی جگہ پر رکھ کر کیوں نہیں سوچتے؟

اگر تعصب, کم عقلی و کم علمی سے  ذہن رسا کی چولیں ہلا نہ دی گئی  ہوں تو انسان انسانیت پر مستحکم ہو کر مذہب سے بالا تر ہو کر سوچنے لگتا ہے۔
اسی لیے اللہ پاک نے زندگی عطا کرتے ہوئے انسانوں کو صرف ایک مذہب اسلام کا پابند نہ کیا۔ وگرنہ کیا اتنی بڑی کائنات کو کن فیکون یعنی ہو جا کہہ کر بنانے والے رب کے لیے کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام دنیا کے لوگوں کو مسلمان بنا دیتا۔ وہ چاہتا تو ساری دنیا ہی سدا صرف اس کا کلمہ پڑھتی رہتی۔

رب کو انسان کو مذہبی آزادی کی ڈھیل دینا اور اپنی راہ خود چننے کا اختیار دینا منظور تھا ،کہ اس نے فکر و نظر عطا کر کے اسے صرف انسان پیدا کیا۔ انسان جس گھرانے میں پیدا ہو, اسی گھرانے کا مذہب اختیار کرتا ہے۔ شاز و ناز ہی لوگ اسے تبدیل کرتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے ہر  ذی روح کی جزا و سزا خود اپنے ہاتھ میں رکھی۔ جنت اور دوزخ بنائی  اور صرف اپنے اعمال سے ان کو بھرنے کی اجازت ہی انسانوں کو عطا کی۔ کسی بھی انسان کو کوئی  حق نہیں پہنچتا کہ وہ محض مختلف عقائد رکھنے کی بنا پر کسی دوسرے انسان کی زندگی چھین لے۔

دنیا اور اقوام متحدہ کا وہ میگنا کارٹا قانون جس پر پاکستان سمیت تمام دنیا نے اپنے دستخط کر رکھے ہیں, ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی عطا کرتا ہے۔
اب پاکستان کے مسلمانوں کو بھارت نیپال روہینگیا یا دنیا میں کسی بھی جگہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے بیجا قتل ہونے پر افسوس کرنے کا کوئی  حق نہیں رہا۔

جب اپنے ملک میں آپ لوگ اقلیتوں کو عدالت کی جاگتی آنکھوں بلکہ سوئی  آنکھوں کے سامنے دن دیہاڑے قتل کر دیتے ہیں اور آپ کو ہتھکڑی تک نہیں لگائی  جاتی تو انصاف کے اندھے پن کا سارا کھیل ہی وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

قاتل کو ہیرو مان کر اس کی پرستش شروع کر دینے والے نجانے کس اسلام کے دعویدار ہیں؟

پاکستان میں گھپ اندھیرے اس قدر بڑھا دیے گئے ہیں کہ اب لوگوں کی آنکھوں پر مذہبی تعصب کی بندھی پٹی بھی کسی کو نظر نہیں آتی۔
اب تو یہی خدشات ہیں کہ اقلیتوں کو غارت کرنے, ان کا قلع قمع کرنے کے بعد اس نفرت اور تعصب کے طوفان کا دھارا اپنے ہی بہتر تہتر فرقوں کی طرف مڑے گا اور اتنا خون بہے گا کہ دھرتی لہو رنگ ہو جائے گی۔

دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی  بھی قانون کسی بھی مجرم کو اس طرح عدالت میں قتل کر دینے پر معاف نہیں کرتا۔ ہاں ایسا پاکستانی فلموں میں ضرور ہوتا تھا جب ہیرو ہیروئین کی شادی میں روکاوٹ بنے ولن کو سائیڈ ہیروئین بھری عدالت میں جا کر قتل کرنے کے بعد وہیں خود کو بھی گولی مار کر خودکشی کر لیتی تھی مگر مرنے سے قبل ہیرو ہیروئین کے ہاتھ ایک دوسرے کو تھمانے میں زرا سی بھی دیر نہیں کرتی تھی۔

اب پوری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ ماورائے عدالت تو کیا, روبروئے عدالت ناروا قتل کرنے والے ظالم کو ہمارا تنگ نظر معاشرہ کیا ‘جزا’ دیتا ہے۔
کاش اب اس قسم کے واقعات کا قلع قمع کیا جا سکے۔ کاش کوئی  سیاسی مذہبی, معاشرتی لیڈر ہی اس ناحق ہونے والے قتل کی سخت مذمت کر دے۔ کاش سویا ہوا قانون ہی آنکھیں مسل کر اٹھ کھڑا ہو اور مذہبی تعصب کی عفریت کو نکیل ڈال دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم پوری دنیا کے لیے تمسخر کا نشانہ تو بنیں سو بنیں گے, آپس میں فرقہ وارانہ جگ و جدل کی وہ لہر اٹھے گی کہ
ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply