تجربہ کار بچہ اولاد۔۔۔ صائمہ یوسفزئی

 

میں بھی الٹی سیدھی منطق کی مالک ہوں مگر جب آج حسب معمول حسب عادت ماں کی جھڑکیاں کھا رہی تھی تو حیرت انگیز کیفیت سے دو چار ہوئی کہ میں نے انکی جھاڑ کو اپنے زیر عتاب ہونے کو ہر گز منفی نہیں لیا۔ وہ بول رہی تھیں اور میں سنتی جا رہی تھی۔
ایسے جیسے میں ہی وہ پلو ہوں جس میں ان کا غصہ آنسو بن کر جذب ہو سکتا ہے۔۔میں ہی وہ دیوار ہوں جس میں سر ٹکرائیں گی تو سوچیں اور بے چینیاں کسی انگلش فکشنل مووی کی طرح پار چلی جائیں گی اور روشنی کا ہالہ غائب ہو جاۓ گا۔کاش ایسا ہوتا ایسا ہو ۔ہو بھی سکتا ہے۔اس کیلئیے ایکسپیرئینس ہونا ضروری ہے۔بالکل ویسے ہی دوسری دفعہ ماں بننے پر ماں تجربہ کار ہو چکی ہوتی ہے۔
جیسے مریضوں کے مرض ٹٹولتے کئی سال گزر جائیں تو ایک ڈاکٹرتجربہ کار ہو چکا ہوتا ہے۔
میں شاید اکتوبر کی پہلی تاریخ ۲۰۱۷ میں خود کو ایکسپیرئینسڈ چائلڈ سمجھ رہی تھی۔میرا تجربہ کہہ رہا ہے کہ جب وہ دنیا کی سرد مہری سے مقدر کی سرد سِلوں پر اپنی بے بسی کو جلتا محسوس کرتی ہے تو اپنی انا کو حرارت دے کر زندہ رکھنے کو مجھ پر برس جاتی ہیں۔
یہ برسنا قہر یا نفرت کی بناء پر نہیں۔۔ یہ تو مان ہے جو ماں کو مجھ پر ہی ہے۔
ورنہ باقی بھی تو ہیں۔
کبھی کوئی گھومتا تھپڑ مجھے گھنٹوں اس کرب میں مبتلا رکھتا کہ قابلِ نفرت ہوں۔
لیکن اچانک کچھ یاد آیا۔
پتری اللہ آزمائشاں اناں دینا جیہڑے پیارے ہووَن۔
ماں کا دل بھی تو اللہ نے محبت سے آباد کیا ہے نا۔
تو اسٹائیل بھی وہی ہوگا۔
ہوگا کیا ۔۔۔ ہے ہی وہی۔
رلانا اور آنچل میں چھپا لینا۔
کہہ دینا تم تو میری سردار بچی ہو۔
تمہیں ہر جگہ یہی مقام ملے یہی عِزّت۔
اکثر میرا جواب ہوتا جی بالکل سَر دے کے سرداری۔
جواب۔ سر تو دینا پڑتا ہے۔
مویاں بغیر وی جنّت لبدی اے ؟
سر دینا اَوّل ہے۔
اللہ کے لیے ہو یا ماں کے لیے۔۔ حق ہے، حق کیلئے جب ضرورت پڑے دینا ہے۔
کبھی وہ دنیا کی بے ثباتی سے مایوس ہو جاۓ تو سارا ملبہ ہم پر ڈال دے گی ۔
یہ ملبہ نا جانے کب سے اپنے کندھوں پر لئیے وہ بہن بھا ئی رشتوں دوستوں کا منہ تکتی رہی ۔۔کوئی تو ہو جو پوچھے، کوئی تو کندھا حاضر کرے۔
جواب ندارد ۔
چل پڑتی ہے ممتا کا بوجھ لیے۔
کوئی کندھا ماں جیسا ہو سکتا ہے کیا۔؟؟
آج میں نے سوال کیا تو رو پڑیں۔
جو کندھا اس قابل ہوگا وہی اس درد کے بوجھ کو بانٹے گا۔
یہ درد بوجھ تھوڑی ہے۔۔ عطا ہے۔
اللہ جی، اپنے پیاروں کو دیتا ہے یہ درد کی دولت۔
کیا مُحَرم سے بڑھ کر اسکی کوئی مثال ہوگی۔
نہیں!
میں خُود سے اینالائسز کیئے جا رہی ہوں۔
میری باتیں اڑتی سی ہیں میری سوچ کی طرح کبھی زندگی کا ایک کونا کبھی دوسرا کھینچتی۔
پر
میں پاگل نہیں ہوں بس جی چاھا جو سوچ رہی ہوں لکھتی جاؤں۔
میرے موبائیل کی سکرین اور ٹائپنگ پیڈ میرا تجربہ  بانٹ رہے ہیں۔

مجھے ان کی روز مرہ کی دعا سننے کو پھر ملی۔

جاؤ تمھیں آگے میرے جیسی ہی ماں دے ۔

میں ہنسی امّی جی یعنی بعد میں بھی یہی ۔۔ڈیلی ڈوز۔

جواب۔ ماں تو ماں ہے ۔

ماں سمجھو تو دعا ،نہیں تو پیار بھی گالی لگتا ہے ،،کون جانے کیا مجبوری کتنے رویّوں کے دشت ایک ماں پار کر کے کڑوی لگنے لگتی ہے۔

میچوریٹی کہتی ہے شاید اس ماں کو ایک ایکسپیرینسڈ بچے کی ضرورت ہوگی۔

ضروری نہیں ہم ضرورت مند ہوں۔پہلے ہمیں تھی انہوں نے سنبھالا ۔۔۔برداشت کیا ۔
اب انھیں ہے۔میری ماں کیلئے ہر ماں کیلئے باپ کیلئے ہمیں اپنا اولاد ہونے کا تجربہ استعمال کرنا ہوگا۔

زنگ آلود پرزے بیکار اور ردی کے بھاؤ جاتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیال رہے کہ، قدر سے کوچ ہو ہمارا اور انکا جنہو ں نے ہمیں سنوارا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply