ساہیوال ضلع سرگودھا کا محمود نظامی۔۔سید محمد تعجیل مہدی

محمود نظامی تونسہ شریف کا لاڈلہ ہے. ایک درویش صفت انسان ہے.حکمت و دانائی کی باتیں کرتا ہے اور فلسفہ بیان کرتا ہے. ایک مرتبہ ڈپٹی کمشنر کا دورہ تھا تو گارڈز سے کسی بات پہ تکرار ہوگئی، بات بڑھی تو پولیس والوں نے پکڑ کے تھانے میں ڈال دیا. معروف صحافی رؤف کلاسرا صاحب نے اس واقعے کو تحریر کیا تھا اور نظامی کے لیے آواز بلند کی تھی.

اس واقعہ کو پڑھ کے مجھے بے ساختہ درویش صفت، بوذر مزاج سردار تنویر حیدر المعروف علی ریحان ولایتی یاد آگئے. سادہ لباس میں ملبوس ایک عام آدمی جو کئی دلوں پر  راج کرتا ہے. علم و حکمت کی باتیں کرتا ہے اور دانائی اس کی پیشانی سے ٹپکتی ہے،ایک ویب سائٹ سے وابستہ ہے اور اس طرح روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے. آج ساتواں دن ہونے کو ہے اور اس عام پاکستانی کی کسی کو کوئی خیر خبر نہیں ہے. چھ دن قبل رات کی تاریکی میں  اس محب وطن کو بلا جواز جبری طور پر گن پوائنٹ پر اغواء کر لیا گیا.

یوں رات کی تاریکی میں چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کر کے ایک بزرگ اور معزز شہری کو اغواء کرنے کی اجازت کونسا قانون دیتا ہے؟ . آرمی پبلک سکول کا دلخراش سانحہ ہوا تو سب کو امید تھی کہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی مگر ہم نے اپنے بچوں کے قاتل احسان اللہ احسان کو بھگا دیا. جبکہ دوسری طرف ایک بزرگ شہری کو بلا جواز اغواء کر لیا جاتا ہے جس کے خلاف آج تک نقص امن کی ایک درخواست تک نہیں ملتی.

ایک عرصہ سے ملک عزیز میں یہ خوف و ہراس کی فضا بنی ہوئی ہے. رات کی تاریکی میں کچھ نامعلوم افراد   آتے ہیں اور بغیر کسی ثبوت کے لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں. مسنگ پرسنز کے والدین و اہل خانہ کس کربناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہے. کسی کی ماں بیمار ہے اور آخری سانسیں گن رہی ہے تو کسی کا باپ اپنے پیارے کی راہ تکتے ہوئے گزر چکا ہے.

جبری لاپتہ سردار تنویر حیدر

کراچی میں گزشتہ کئی دنوں سے مسنگ پرسنز کی بازیابی کےلیے احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے. اسلام آباد میں ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے پُر امن احتجاج کیا گیا تو پولیس نے سب مظاہرین کو گرفتار کر لیا. ابھی گزشتہ روز معروف عالم دین کے بیٹے کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر لے جایا جاتا ہے اور اس پہ تشدد کیا جاتا ہے.کیا آزاد اسلامی ریاست جسے ریاست مدینہ کہا جاتا ہے میں ساہیوال کے اس سفید پوش شہری کے لیے آواز اٹھانا جرم ہے؟

آئین پاکستان میں ہر قسم کے جرم کی واضح سزا موجود ہے. عدالتی نظام بھی موجود ہے جو کبھی بھی کسی کا جرم ثابت ہونے پر سزا دے سکتا ہے. مگر اغواء کرنے والے یا تو ماوراء عدالت ہیں کہ وہ آئین و دستور کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔یا پھر عدلیہ اس قدر کمزور ہے کہ کئی لوگوں کے قاتل کھلے عام پھرتے ہیں اور معصوم لوگوں کی ناموس و جان کو خطرہ ہے.

مغوی کی بیوی نے تھانے میں رپٹ درج کروائی ہے جس پہ ابھی تک ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی. ڈی پی او کے پاس پیش ہوئے مگر تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوسکی.

ارباب اختیار! یہ فقیر منش بندہ ہے. اپنے آپ میں مست رہتا ہے. علم و حکمت کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا، ہمارا لاڈلا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

کوئی بڑی شخصیت آواز نہ  اٹھائے ،ہم نے تو اپنا حق مانگنا ہے۔۔ہم نے یہیں رہنا ہے، یہیں جینا مرنا ہے ہمیں ہمارا لاڈلا لوٹا دیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply