مریم نواز جا رہی ہیں ؟۔۔نجم ولی خان

میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا،یہ اطلاع درست ہے کہ نواز شریف کے بعد مریم نواز بھی لندن جا رہی ہیں، میں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات شہباز گل کا ایک ٹوئیٹ دیکھا تھا جس میں انہوں نے شریف فیملی کے معالج ڈاکٹر عدنان کے بیان کے سکرین شاٹس شیئر کئے تھے، بیان کے مطابق تھائی رائیڈ میں خرابی کے باعث مریم نواز کے پلیٹ لیٹس تیزی سے کم ہو رہے ہیں،انہیں تھائی رائیڈ ز کے مرض پر آپریشن تجویز کیا گیاہے، ان کا گلا بھی سخت خراب ہے اور دوبار کرونا ٹیسٹ بھی لیا جا چکا ہے۔صورتحال یوںہے کہ مریم نواز کی سرگرمیاں واقعی کم ہوئی ہیں حالانکہ مسلم لیگی اس تاثر کی تردید کر رہے ہیں کہ شریف فیملی ایک مرتبہ پھر کسی ڈیل میں جارہی ہے مگر نشاندہی کرنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں، ان کے مطابق میاں نواز شریف کے تیز ترین بیانات بھی رک گئے ہیں حالانکہ وہ پارٹی رہنماو¿ں کے علاوہ اپنے من پسند لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ مقبول چینل کے پرائم ٹائم اینکر بھی یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ شریف فیملی کے کسی فردنے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کر کے ’ ہتھ ہولا‘ کرنے کی اپیل کی ہے جس نے ناقص ترین کارکردگی کے باوجودوزیراعظم کے اعتماد میں بلا کا اضافہ کر دیا ہے۔

یہ ایک لمبی تمہید اور پس منظر تھا جس پر پروفیسر صاحب مسکرائے او ر بولے،تم مانویا نہ مانو، پیپلزپارٹی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے اڑھائی برس مکمل ہونے پر ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔یہ خیال تھا کہ پی ڈی ایم اسمبلیوں سے استعفے دے گی، اسلام آبادمیں میدان لگے گا، آبپارہ چوک میں مذاکرات ہوں گے اور ایک بڑی تبدیلی رونما ہوجائے گی مگر اب مریم نواز اکیلی کیا کرسکتی ہے۔ میں نے یہاں سے بات اچک لی، پوچھا، مریم نواز اکیلی کیسے ہے، پیپلزپارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اس کے ساتھ ہیں۔ پروفیسر صاحب پھر مسکرائے اور بولے کیا تم اویس نورانی کو ایک جماعت سمجھتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز کے ساتھ صرف مولانا فضل الرحمان ہیں باقی صرف نمبر گیم ہی ہے،سیاست کے اہم کھلاڑی سرکاری گراو¿نڈ میں ہی کھیلنا چاہتے ہیں جیسے پیپلزپارٹی کے بعد جماعت اسلامی، جس نے یوسف رضاگیلانی کوووٹ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ وہیں کھڑی ہے جہاں وہ ہمیشہ کھڑی ہوتی ہے اور تمہیں اندرکی بات بتاو¿ں، نواز لیگ کے اندر بھی ایک مو¿ثر قیادت ایسی ہے جو ’کرواورمرو‘ کے مرحلے کی حامی نہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ راستہ شہباز شریف کے ذریعے ہی نکلے گا لہٰذا دیوار کے ساتھ سر مارنے کا کوئی فائد ہ نہیں ہے لہٰذا نواز شریف خاموش ہو گئے ہیں ،مریم نواز اور فضل الرحمان بیمار۔

میں اصل سوال کی طرف واپس آ یا اورکہا، شہباز گل نے ڈاکٹر عدنان کی خبر کے ساتھ پوچھا ہے کہ کیا یہ خبر درست ہے اورانہیں تو درست نہیں لگ رہی۔ پروفیسر صاحب نے سنجیدگی سے کہا کہ اگر مریم نواز اس وقت جانے کا فیصلہ کر لے تو اسے کون روک سکتا ہے۔کیا ان لوگوں نے نواز شریف کو روک لیا تھا جو جیل میں تھے اور اگر نواز شریف کو نہیں روکا جا سکا تو مریم نواز کو بھی نہیں روکا جا سکتا جیسے اسے ہزار خواہشوں کے باوجود جیل سے باہر آنے اور سیاست کرنے سے نہیں روکا جا سکا۔ عملی صورتحال یہ ہے کہ حکمرانوں کا زور نواز لیگ کے مفاہمت پسندوں پر ہی چلتا ہے جبکہ مزاحمت پسند ٹھینگا دکھاتے او رجو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ میاں نواز شریف کے عمران خان کے مقابلے مںمقامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات جتنے خراب ہیں، انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اتنے ہی اچھے ہیں لہٰذا نواز شریف کے ساتھ یہ چھوٹی چھوٹی ’شیخ رشیدیاں‘ تو کی جا سکتی ہیں کہ شناختی کارڈ اورپاسپورٹ کی تجدیدنہ کی جائے مگر اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوسکتا۔ مریم نواز جب جانا چاہے گی وہ تھوڑی سے کوشش کے بعد ملک سے چلی جائے گی اور یہ بات طے شدہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی غداری سے پہلے مریم نواز کا باہر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر اب فرصت ہی فرصت ہے ، اگر وہ اس دوران اپنا ایک مانئر آپریشن کروانا چاہتی ہے یا اپنے والد سے ملنا چاہتی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

میں نے پروفیسر صاحب کی توجہ حکومت کے ان بیانات کی طرف نہیں دلوائی جس میں عزم ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مریم نواز کو کسی صورت باہر نہیں جانے دیا جائے گا کیونکہ وہ بیانات محض ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں، کھانے کے نہیں ہیں تاہم پھر یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ پی ڈی ایم کو شہید کرنے جیسی عظیم کامیابی کے بعد اب حکومت اور نواز لیگ کے درمیان نیا تنازعہ کیا ہے تو اس کا جواب پروفیسر صاحب یہ دیتے ہیں کہ اصل تنازع جانے پر نہیں بلکہ واپس آنے پر ہے ۔ مریم نوازلندن جانے کے تین سے چھ ماہ کے بعد واپس آنا چاہتی ہیں مگر حکومت چاہتی ہے کہ وہ جائیں تو اگلے انتخابات تک واپسی کا سوچیں بھی نہیں۔ اہم حلقے حکومت کی اقتصادی میدان میں ناقص کارکردگی پرسخت پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ تیزی سے کام شروع ہو مگر حکومتی حلقے شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں کام کرنے کا موقع ہی کب ملتا ہے، کبھی اپوزیشن کوئی رولا ڈال دیتی ہے اورکبھی عدالتیں بیچ میں آجاتی ہیں لہٰذا اب عمران خان کو ٹینشن فری دو،اڑھائی برس دئیے جائیں تاکہ وہ کارکردگی دکھا سکیں جس کے بارے میں وہ اور ان کے حامی پرامید بھی ہیں اور پریقین بھی۔حکومتی فیصلہ سازوں کے درمیان اس وقت جو معاملہ طے نہیں ہور ہا وہ شہباز شریف کے کردار کا ہے۔عمران خان، شہباز شریف کوکسی صورت بھی باہر نہیں دیکھنا چاہتے مگر دوسری طرف خیال یہی ہے کہ شہباز شریف کو متبادل قیادت کے طور پر ریلیف دینا ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ جس کسی کو اپوزیشن کی طرف سے کسی انقلاب کی امید تھی اسے بتا دو کہ پیپلزپارٹی اب بھٹوو¿ں کی نہیں زرداریوں کی جماعت ہے اور زر والے کبھی رسک نہیں لیتے، جانیں نہیںدیتے اور جناب آصف علی زرداری کا یہ فقرہ ٹرننگ پوائنٹ ہے کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ لڑنا نہیں چاہتے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی بہت بڑی فتح ہے۔ عمران خان کی حکومت کے کم از کم پانچ برس یقینی بنا دئیے گئے ہیں اور اس سے اگلے پانچ برس الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے پکے ہوجائیں گے۔ اس تازہ ترین فتح کے بعداعلان یہی ہے کہ اگرمسلم لیگ واپس آنا چاہتی ہے تو اسے اگر مگر کے بغیر سرنڈر کرنا ہو گا،اپنے اندر سے مزاحمت کا خناس ختم کرنا ہوگا،وہ ابھی پی ٹی آئی نہیں بن سکتی مگر اسے کم از کم پیپلزپارٹی بننا ہوگا۔ ویسے اس پر باپ بیٹی کو اکٹھے بیٹھ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ صلاح و مشورے کا موقع ضرور ملنا چاہیے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply