بلوچستان کی شاہراہوں پر رقص کرتی موت۔۔خالد بشیر

بلوچستان میں رہتے ہوئے شاید ہم لوگ دکھ درد برداشت کرنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اب بڑے بڑے سانحات کو جھیل جانے کے بعد ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا نہ ہو۔ آئے روز کوئی نیا سانحہ یہاں کے باسیوں کو آنسوؤں کے سمندر میں ڈبو جاتا ہے۔ ابھی ایک سانحے کے دلسوز اثرات ذہن سے محو نہیں ہوپاتے کہ دوسرا اپنی تمام تر قہر سامانیوں کے ساتھ دل کو گھائل کرنے کے لیے رونما ہو جاتا ہے۔

ایک آفت کے نتیجے میں بہنے والے آنسو تھمتے نہیں کہ دوسرا حادثہ خون میں لت پت و لتھڑی لاشیں دے کر انہی آنسووں کو لہو میں تبدیل کرکے بہاتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ غم میں مبتلا کردینے والے المناک واقعات بڑھتے ہی جاتے ہیں اور ہر طرف موت کے سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ کہیں ٹارگٹ کلنگ میں موت، کہیں چوری ڈکیتی میں موت، کہیں منشیات فروشوں کے ہاتھوں موت، کہیں بم دھماکوں و خودکش حملوں میں موت اور کہیں ٹریفک حادثات میں موت۔ ہر سُو ہر طرف موت ہی موت رقص کرتی دکھائی دیتی ہے.

بقول شاعر؛

کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت

گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت

موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں

ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں

بلوچستان کے شاہراہوں نے قاتل سڑکوں کا روپ دھار لیا ہے ، کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ ان قاتل سڑکوں پر کوئی جان لیوا حادثہ پیش نہ آتا ہو، کبھی کوئی طالب علم اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے جاتا ہے تو واپس نہیں آتا، کبھی کوئی باپ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے روزی کی تلاش میں نکلتا ہے تو کسی حادثے کی نذر ہو جاتا ہے اور کبھی پورا خاندان ان قاتل سڑکوں پر جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ لمحہ نہیں گزرتا کہ ایک پورا کنبہ قاتل شاہراہ کے نظر ہوجاتا ہے. سیکنڈز بھی شاید نہیں لگتے ہوں کسی کی زندگی اُجاڑنے میں خونی شاہراہوں پہ رقص کرتے ڈراٸیور حضرات کو.

گزشتہ دنوں نوشکی کے رہائشی عبد المالک اپنی فیملی کے ہمراہ کار میں کوئٹہ کی سفر پر نکلے تو ان کو کیا خبر تھی کہ آج کا یہ سفر تمام ہونے والا سفر ہے، آج کے دن بلوچستان کی خونی شاہراہوں پر ہمیں کوئٹہ پہنچنا نصیب ہوگا یا نہیں؟ کیونکہ ان خونی شاہراہوں پر موت کا رقص ہوتا دکھائی دیتا ہے!! انہیں کیا خبر کہ صبح گھر کو تالا لگا کر نکلنے والے اب واپس کبھی لوٹ کر آئیں گے بھی یا نہیں اور وہ تالا کھولنے کے لیے کوٸی بچے گا بھی یا نہیں؟

ٹریفک حادثات میں خاندان کے خاندان اُجڑ جاتے ہیں، عزیز و اقارب پورے ایک گھر کو قبرستان میں دفن کرکے آتے ہیں، گھروں میں کوئی اولاد نرینہ نہیں بچتا لیکن نااہل حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے آخر ان کے بلا سے کوئی کیسے بھی مر جائیں کیونکہ وہ تو اسی مظلوم و محکوم اور لاچار و غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے زمین پر سفر ہی نہیں کرتے۔ محض خانہ پوری کے لئے حکومت کی جانب سے ٹریفک حادثات پر قابو پانے کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن اس کے بعد کچھ بھی نہیں کیا جاتا اور کچھ روز بعد کوئی اور بڑا حادثہ رونما ہو جاتا ہے۔

بلوچستان میں دن بدن ٹریفک حادثات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ،ان حادثات سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہو رہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ قدرتی ذخائر سے مالا مال رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی بڑی اور اہم شاہراہوں پر ٹر یفک حادثات میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

حکمرانوں نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا کہ جو مائیں اپنے بچوں کو کوئٹہ، کراچی یا دوسرے بڑے شہروں میں پڑھنے بھیجتے ہیں۔ جب ان کے پاس ان کے معصوم بچوں، گھروں کے سرپرستوں کی لاشیں پہنچتی ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ ان معصوم بچوں پر کیا گزرتی ہو گی جن کے سرپرست ٹریفک حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان بوڑھے ماں باپ، بہنوں، بیٹیوں پر کیا گزرتی ہو گی جن کے بڑھاپے کے سہارے، بہنوں و بیٹیوں کا کل کائنات ٹریفک حادثات کی وجہ سے چلے جاتے ہیں ۔ اگر حکمران اور خود کو عوام کا خادم کہلوانے والے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے تو آج بلوچستان کے عوام ان قاتل شاہراہوں پر یوں اپنے پیاروں کی لاشیں نہیں اٹھاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسی تیزی سے سڑکوں پر ٹریفک میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ،لیکن نہ تو اس تیزی سے نئی سڑکیں بنائی جارہی ہیں اور نہ ہی دہاٸیوں قبل کے تعمیر کردہ سڑکوں کو کشادہ کیا جارہا ہے ، یہاں ٹریفک قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی ہے اور ایسے لوگوں پر بھی جو ٹریفک قوانین کو نظر انداز کرکے نہ صرف اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی پریشانی اور مصیبت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی وجہ حد سے زیادہ تیز رفتاری جو اکثر و بیشتر کسی بڑے سانحے کا سبب بنتی ہے ،ایسے لوگ نہ صرف اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ سڑک پر چلنے والے دوسرے لوگوں کی جان بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناقص ٹائروں اور گاڑیوں میں نصب ناقص گیس سلنڈروں کا استعمال بھی ٹریفک حادثوں میں اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ گاڑیوں، بسوں میں نصب غیر معیاری سلنڈر چلتے پھرتے بم ہیں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply